• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

Updated: May 13, 2024, 12:34 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

دہلی کے ایک بڑے میاں کا ویڈیو ’وائرل‘ ہوا ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے دل کا حال سنایا ہے۔ ان کی زباں سے خود بیتی اور جگ بیتی کا نکلنا تھا کہ ہر کسی کا کلیجہ پسیج گیا۔

Those elderly people of Salempur whose video went viral. Photo: INN
سیلم پور کے وہ معمرشخص جن کا ویڈیو وائرل ہوا۔ تصویر : آئی این این

دہلی کے ایک بڑے میاں کا ویڈیو ’وائرل ‘ ہوا ہے۔ جس میں  انہوں  نے اپنے دل کا حال سنایا ہے۔ ان کی زباں  سے خود بیتی اور جگ بیتی کا نکلنا تھا کہ ہر کسی کا کلیجہ پسیج گیا۔ انہوں  نے کیوں  اور کیا کہا، چلئے اس کا سیاق وسباق بھی بتاتے ہیں۔ معاملہ نارتھ ایسٹ دہلی کا ہے۔ اس پارلیمانی حلقے میں  بی جے پی کے منوج تیواری اور کانگریس کے کنہیا کمار کے درمیان مقابلہ ہے۔ جس کی کھوج خبر لینے کیلئے میڈیا کے اہلکاریہاں  بھی گھوم رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک  مکل سنگھ چوہان سیلم پور پہنچے۔ وہ یہاں  کے گلی کوچے ناپ رہے تھے۔ ’جِست ‘ کا’بُوم‘ تھامے مُکل سنگھ لوگوں  کے دماغوں کو ٹٹو ل رہے تھے۔ اس دوران ایک باریش معمر شخص سے بھی انہوں  نے بات چیت کی۔ گفتگو کی شروعات الیکشن اور حالات کے متعلق استفسار پرہوئی، بڑے میاں گویا ہوئے: ’’پبلک سڑک پر آگئی ہے، روٹی کھانے کو نہیں  مل رہی ہے بھیا کیا بتاؤں میں، بہت مصیبت کا سامنا ہے، بچے پڑھنے جاتے ہیں انہیں  بھگایا جاتا ہے، مسلمان کے نام پر دھبہ کردیا ہے، مغلیہ خاندان کے ہیں  ہم...‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’ انہوں نے وہاٹس ایپ یونیورسٹی سے پڑھائی کی ہے‘‘

مکل سنگھ نے بات کی وضاحت کیلئے کہا’’ ناراضگی ہے؟‘‘ 
 بزرگ بولے:’’ناراضگی کوئی نہیں  بچہ...‘‘ مکل نے پھراگلا سوال داغا: ’’آپ کے بیچ میں کوئی ووٹ مانگنے آیا؟‘‘  اب بڑے میاں  نے جواباً جو کچھ کہا وہ سنئے ’’یہ ہمارا وطن ہے...ہمارے باپ دادا یہیں  دفن ہوئے، ہم اور ہمارے بچے بھی یہیں  دفن ہوں  گے...ہم کہیں نہیں  جائیں گے... ہم سے کہتے ہیں  بھاگو پاکستان...ہم پاکستان کے نہیں  ہیں ...ہم ہندوستان کے ہیں سمجھے۔ ‘‘ داڑھی ٹوپی والے بڑے میاں  نے آگے اپنا نجی احوال سنایا۔ بہو بیٹے کے ناروا سلوک کا ذکر کیا۔ بڑے میاں  کے روہانسے لہجے اور چشمے کے پیچھےبھیگی آنکھوں نے رپورٹر کو بھی متاثر کیا۔ اس نےبڑے میاں کے کندھے پر ازراہ ہمدردی ہاتھ رکھا۔ آس پاس کھڑے لوگوں  کے دل بھی بڑی میاں  کی باتوں  سے پسیج گئے۔ 
  اس گفتگو کا ویڈیو مکل سنگھ چوہان نے اپنے ایکس ہینڈل پر پوسٹ کیا۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف پھیل گیا۔ سوربھ یادو نے لکھا کہ ’’یہ دکھ ہر دیش بھکت کو محسوس ہونا چاہئے‘‘فلمساز انوبھوسنہا نے لکھا’’جانے کتنا وقت لگے اس سب سے ابھرنے میں  ملک کو۔ ‘‘ مہیشور پیری نے لکھا’’روؤ ہندوستان، روؤ، اس معمر شخص کے آنسو ان سب کیلئے بددعاہیں جو یہ سب کرتے ہیں، اور ان کیلئے بھی جو ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی بجائے چپ رہے۔ ‘‘دنیش ایس ٹھاکر نے لکھا کہ‘‘پہلی بار تو میں یہ ویڈیو دیکھ نہیں  سکا۔ اس میں   درد ہی اتنا ہے۔ کئی دہائیوں  کی نفرت نے یہ گل کھلایا ہے۔ میں  نے ہمت کی، اور اس ویڈیو کو کئی بار دیکھا۔ یقین جانئے اگر یہ دیکھ کر آپ کا خون نہیں  کھولتا اور اس نفرت انگیزی اور لوگوں  کو بانٹنے والے نقصان سے ملک کو بچانے کا نہیں  سوچتے تو پھر اس ملک کو اوپر والا ہی بچائے۔ ‘‘ کارٹونسٹ ستیش اچاریہ نے یہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’کسی کے دردکو سمجھنے کیلئے آپ کے سینے میں دل ہونا چاہئے‘‘راکھی ترپاٹھی نے لکھا کہ ’’یہ ملک کا ایک مسلمان نہیں، ایک غریب ہندوستانی اپنے ملک کیلئے رورہا ہے۔ کیا کردیا اس دیش کا حال‘‘
 سجاتا نے لکھا : ’’ہم ہندوستان کے ہیں ‘ کسی بھی زندہ انسان کا سینہ چیر سکتی ہے اس بزرگ کی آواز۔ لیکن اپنے گھر میں  اجنبی بنادئیے جانے کا درد وہی سمجھ سکتا ہے جو بھوگ رہا ہے۔ ‘‘
 رنجیت تھامس نے لکھا ’’اُن شیطانوں نے کیسے ہمارےملک کو تباہ کردیا۔ یہ سب کچھ کرکے انہیں کیا ملا۔ ‘‘جیوتسنا موہن نے لکھا کہ ’’وہ ویڈیو جوبمشکل دیکھا گیا۔ بی جے پی کااسلاموفوبیا زمین پر نظر آرہا ہے۔ ‘‘وینا بخشی نے لکھا کہ ’’نفرت کی گندی سچائی۔ جس کے سبب عام آدمی کرب سے گزررہا ہے۔ ‘‘شبھا دتا لکھتی ہیں ’’اگر اس آدمی کی آواز آپ کورلاتی نہیں  ہے تو خود کو انسان مت کہنا....‘ کویتا چودھری نے لکھا کہ ’’یہ ویڈیو ہر اس سنگھی دوست، رشتے دار، پڑوسی کو دکھائیے اور اس سے پوچھئے کہ ان بزرگ جیسے بے قصور لوگوں  نے کیا بگاڑا ہے؟کیوں پوری کمیونٹی کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے؟‘‘سسانتا ساہو نے مشورہ دیا کہ ’’اگر یہ ویڈیو آپ کو رنجیدہ کرتا ہے اورہندوستان میں  مسلمانوں  کی حالت پر آپ کو افسوس ہوتا ہے تو آپ اس کیلئے عملی قدم اٹھائیں۔ اپنے وہاٹس ایپ گروپوں میں ان کے خلاف پروسی جانی والی نفرت کا قلع قمع کیجئے....‘‘ علی شان جعفری نے بھی یہ ویڈیوشیئر کیا تھا، انہوں  نے ایک طویل پوسٹ میں لکھا کہ ’’ دہلی کے اس معمر شخص کا ویڈیو دیکھ کر بہت سے اچھے لوگ مدد کیلئے آگے آئے(ان میں  ہندواور مسلمان سبھی تھے)یہ اچھی بات ہے، یہ ہونا بھی چاہئے۔ لیکن اس بڑے سوال سے پہلوتہی نہیں کی جاسکتی کہ ’آخرکیوں ۲۲۰؍ملین ہندوستانیوں کو ہدف بنایا جارہا ہے؟...‘‘ عزیز قارئین! اس ہفتے ہم نے صرف یہی ایک معاملے کو موضوع بنایا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ یہ محبت بھری آوازیں آپ کو سنانی تھیں۔ کہنا یہی ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرتی چنٹوکتنا ہی کھل کھیل لیں۔ ابھی ایسی آوازیں زندہ ہیں جو محبت اور بھائی چارےکی بات کرتی ہیں۔ جس کا ساتھ دینا ہم آپ کا فرض ہے۔ شہریارصاحب نے ایسے ہی موقع کیلئے کبھی کہا تھا’’اب رات کی دیوار کو ڈھاناہے ضروری/یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK