پچھلے آٹھ دنوں میں ہونیوالی اکھاڑ پچھاڑ آپ سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسلئے ہم بھی تمہید میں ایران تُوران سے گریز کریں گے۔ چلئے اس ہفتے جائزے کی شروعات کرتے ہیں۔
EPAPER
Updated: August 12, 2024, 5:06 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
پچھلے آٹھ دنوں میں ہونیوالی اکھاڑ پچھاڑ آپ سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسلئے ہم بھی تمہید میں ایران تُوران سے گریز کریں گے۔ چلئے اس ہفتے جائزے کی شروعات کرتے ہیں۔
پچھلے آٹھ دنوں میں ہونیوالی اکھاڑ پچھاڑ آپ سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسلئے ہم بھی تمہید میں ایران تُوران سے گریز کریں گے۔ چلئے اس ہفتے جائزے کی شروعات کرتے ہیں۔ رخ کرتے ہیں بنگلہ دیش کا، جہاں شیخ حسینہ واجد کے تختہ پلٹ کے بعد نئی عبوری حکومت تشکیل پاچکی ہے۔ پڑوسی ملک کی سیاسی ہلچل کا موضوع ملکی سوشل میڈیاپر کافی گرم ہے۔ جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ عوامی احتجاج کے سبب شیخ حسینہ کو مستعفی ہونا پڑا ہے۔ تجزیوں و تبصروں کا سیلاب آگیا۔ ایکس پر نوین جرنلسٹ صارف نے لکھا کہ’’شیخ حسینہ کے اشارے پر ناچتے تھے ٹی وی چینل۔ عدالتیں ان کے عین منشا فیصلے لکھتی تھیں، دو بار کی وزیراعظم خالدہ ضیاء کو انہوں نے جیل میں ڈال دیا تھا۔ حسینہ کو بھرم یہ تھا کہ ان کے من کی بات پورے بنگلہ دیش کے من کی بات ہے۔ پھر یہ بھرم ٹوٹ گیا‘‘ فیس بک پر نہال صغیر نے لکھا کہ ’’دنیا بڑی تبدیلیوں ے گزررہی ہے بنگلہ دیش کی حسینہ بھی گئیں۔ محسن ملک میں پناہ لی۔ ہر مغرور و متکبر کو اپنے انجام تک پہنچنا ہی ہوتا ہے‘‘کچھ مبصرین کی رگ شرارت بھی پھڑک گئی۔ نوید خان نامی صارف نے فیس بک پر لکھا کہ’’حسینہ مان جائے گی تو سنا تھا، حسینہ بھاگ جائے گی پہلی بار سنا ہے۔ ‘‘اسرار دانش خان نے لکھا کہ’’نفسیات یہ ہے کہ حسینہ اگر چلی جائے تودکھ ہوتا ہے۔ پہلی بار حسینہ کے جانے سے لوگ خوش ہیں۔ ‘‘ بنگلہ دیش کے حکومت مخالف احتجاج کے دوران تشدد کی وارداتیں بھی پیش آئیں۔ مشتعل بھیڑ نےوزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوابولا، شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ کے لیڈروں کو پیٹا۔ ان کی املاک کو نقصان پہنچایا۔ ان معاملات کی آڑمیں نفرتی چنٹوؤں نے اقلیتوں پر مظالم کئے جانے کی جھوٹی خبریں بھی پھیلائیں۔ لیکن ایسی تصاویر بھی وائرل ہوئیں جن میں علماء اور طلبہ منادر اور دیگر عبادتگاہوں کے باہر پہرہ دیتے ہوئے نظر آئے۔
یہ بھی پڑھئے:سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’جو مارے گئے وہ خبربن گئے، جو زندہ ہیں وہ تماش بین ہیں‘‘
اس ہفتے اولمپک کے جیولین تھرو(نیزہ پھینک)فائنل میں ہندپاک کی برتری سے کروڑوں عوام جھوم اٹھے۔ پاکستان کے ارشد ندیم نے گولڈ اور ہندوستان کے نیرج چوپڑا نے سلور میڈل جیت کر اپنے ملکوں کا جھنڈا بلند کیا۔ نامساعد حالات سے ابھرکر ایک غیرمعروف کھیل میں نام کمانے پر ارشد ندیم کی خوب پزیرائی کی گئی۔ نیرج چوپڑا کی محنت و کوشش کی بھی ستائش کی گئی۔ دونوں ہی ملکوں کے عوام نے ایک دوسرے کے کھلاڑیوں کی واہ واہی کی۔ مندیپ پونیا نے ارشد اور نیرج کی تصاویر کیساتھ ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’’دو جنوب ایشیائی کھلاڑی، دونوں اچھے دوست۔ دونوں چمپئن۔ دونوں ہی کسان قوم کے بیٹے ہیں ‘‘عبداللہ نے لکھا کہ ’’پوری دنیا کا مقابلہ کرکے پنجاب (خطے)کے ان دو لڑکوں نے اپنے اپنے ملکوں کومیڈل دلایا۔ انہوں نے گوروں کو دکھادیاکہ ان کے بایومیکانکس اور سائنٹفک میتھڈ کے سامنے دیسی گھی کی چُوری کتنی طاقتور ہے۔ جئے پنجاب‘‘ سب سے خا ص بات یہ رہی کہ ان کھلاڑیوں کی ماؤں کے شفقت بھرے بیانات نے لوگوں کا دل جیت لیا۔ غلام عباس شاہ نے ایکس پر لکھا کہ ’’اگر مائیں دنیاپر حکومت کریں تو کہیں بھی نفرت اور جنگ نہیں ہوگی۔ ارشد ندیم کی والدہ نے کہا: نیرج چوپڑا میرے بیٹے جیساہے، میں نے اس کی کامیابی کیلئے بھی دعائیں کیں۔ نیرج چوپڑا کی ماں نے کہا: ہم سلور میڈل سے بھی خوش ہیں۔ جس نے گولڈ جیتا ہے وہ بھی ہمارے بیٹے جیسا ہے۔ ‘‘نلیش کھنڈارے نے لکھا کہ ’’ان دونوں کھلاڑیوں کی ماؤں نے جو ردعمل دیا ہے، وہ سن کر دل خوش ہوگیا۔ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے، کھیل کا جذبہ جیتنا چاہئے۔ ‘‘
بات اولمپک کی ہورہی ہے تو ہم خاتون پہلوان وِنیش پھوگاٹ کے ’ڈِس کوالیفکیشن‘ معاملے کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں۔ وِنیش نے ۵۰؍کلو کے زمرہ میں اچھے اچھوں کو پٹخنی دے کر فائنل میں جگہ بنالی تھی۔ ہندوستان کا ایک اور تمغہ یقینی لگ رہا تھا۔ کشتی بین توونیش کے فارم کو مدنظر رکھتے ہوئے ’گولڈ میڈل‘ کی توقع کررہے تھے۔ لیکن عین مقابلے کے دن ان امیدوں پر پانی پھرگیا۔ انہیں محض سو گرام وزن زیادہ ہوجانے پر نااہل قراردیا گیا۔ اولمپک کمیٹی کے اس فیصلے پر خوب اعتراضات کئے گئے۔ سوشل میڈیا تو اس ’ناانصافی‘ پر چیخ پڑا۔ اولمپک کمیٹی پر لعنت ملامت کی گئی۔ کچھ نے ڈِس کوالیفکیشن کو سازش قراردیا۔ دلت وائس نامی ایکس اکاؤنٹ سے لکھا گیا کہ ’’ڈائٹیشین، کوچ، ڈاکٹر اور مینجمنٹ اس بڑی ہار کیلئے ذمہ دارہیں۔ یہ کھلی سازش ہے، اسکی جانچ ہونی چاہئے۔ ونیش ہمیں آپ پر فخر ہے‘‘افسوسناک بات یہ رہی کہ بہت سارے نفرتی ٹرولز نے ونیش کیخلاف ہرزہ سرائی کی۔ ان کی کوششوں کا اسلئے تمسخراڑایا کہ ماضی میں ونیش پہلوانوں کے احتجاج میں پیش پیش رہی تھیں۔ قابل ذکر ہے کہ جب ایک ہی دن میں ونیش نے تین تین پہلوانوں کو پٹخی دے کر فائنل میں جگہ بنائی تھی تو وہ لوگ بھی اسے مبارکباد دینے میں آگے آگے تھے جو اب تک اس کی حوصلہ شکنی کررہے تھے۔ مرکزی وزیر اشوینی ویشنونے ونیش کی سیمی فائنل جیت پر لکھا کہ’’اپنا ایک میڈل تو پکا ہے۔ ‘‘ا س پر شارک ٹینک انڈیا کے سابق جج اشنیر گروور نے بنا لاگ لپٹ کے تبصرہ کیا کہ’’اپنا نہیں اس کا‘‘ وجیندر چوہان نے لکھا کہ ’’خود کو راشٹروادی کہنے والے بہت سے لوگ، لاتوں سے کچلوانے والے۔ اس شرم سے بچنے کیلئے سوچ رہے ہوں گے کہ ونیش نہ جیتے ‘‘ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں ۔ خیال رہے کہ ہندوستان کی جانب سے ’کورٹ آف آربیٹریشن فار اسپورٹس(سی اے سی)‘ میں اپیل کی گئی جس پرسماعت مکمل ہوگئی ہے اور فیصلہ اولمپک مقابلے ختم ہونے سے پہلے سنایا جائے گا۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر پارلیمانی اجلاس، وقف بل کی بحث، مشرق وسطیٰ کی کشیدگی، کساد بازاری کے اندیشے جیسے موضوعات بھی چھائے رہے۔ جاتے جاتے آپ کو خبرسنادیتے ہیں ۔ ہنڈن برگ ریسرچ نے کل صبح(سنیچرکو) یک سطری ایکس پوسٹ کے ذریعہ ہلچل مچادی ہے۔ لکھا ہے کہ’’جلد ہی کچھ بڑا(انکشاف) ہونے جارہا ہے انڈیا‘‘ امریکی فرم کا یہ انتباہ ہندوستانی سرمایہ کاروں میں کھدبد بڑھانے کو کافی ہے۔ اس پر قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوگیا ہے۔ چلئے جو ہوگا نظر آ ہی جائے گا۔ اگلے ہفتے اس پر بات کریں گے۔