• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’تصویر جو ہزاروں الفاظ پر بھاری ہے‘‘

Updated: January 14, 2024, 1:59 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

صاحبو! سوشل میڈیا پر بات بے بات بائیکاٹ کے نعرے لگنا عام سی بات ہے۔ عموماً’بھکت منڈلی‘ اس کام میں پیش پیش رہتی ہے۔

South Africa holds the finger of Palestine. Photo: INN
فلسطین کی انگلی تھامے جنوبی افریقہ۔ تصویر : آئی این این

صاحبو! سوشل میڈیا پر بات بے بات بائیکاٹ کے نعرے لگنا عام سی بات ہے۔ عموماً’بھکت منڈلی‘ اس کام میں پیش پیش رہتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھکت ’آہت‘ ہوجاتے ہیں۔ ہمیں بائیکاٹ اسلئے یاد آیا کہ پچھلے دس دنوں سے سوشل میڈیا گلیاروں میں اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ وزیراعظم سال کے پہلے ہفتے میں لکش دیپ پہنچے۔ وہاں انہوں نے خوبصورت ساحل پر کچھ وقت گزارا، غوطہ خوری کا بھی لطف اٹھایا۔ اس کی کچھ تصاویر انہوں نے ایکس پر پوسٹ کیں ، یہ پیغام بھی دیا کہ سیرسیاحت کیلئے لکش دیپ ایک عمدہ جگہ ہے۔ اس پر پڑوسی جزیرائی ملک مالدیپ کی ایک خاتون وزیر مریم شی اُونا نے قابل اعتراض تبصرہ کیا ۔ وہاں کے کچھ اور ’نیتا‘ بھی اس پر تبصرہ بازی کربیٹھے۔ ہندوستان نے اس پر ناراضگی جتائی ۔ اس طرح اس معاملے نے طول پکڑلیا۔ ہندوستانی ’سیلیبریٹیز‘ جو عموماً خاموش رہتے ہیں ، یکے بعد دیگرے بولنے لگے۔ سچن، سہواگ اوراکشے سمیت درجنوں نے لب کشائی کی۔ سبھی کی پوسٹس کا متن تقریباً ایک سا نظر آیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہ سیلبریٹیز بھی مالدیپ کے خلاف ہرزہ سرا تھے جو چھٹیاں گزارنے وہیں جاتے رہے ہیں ۔ سہواگ نے ہندوستانی ساحلوں کی تعریف میں ایک ٹویٹ لکھا ، جس میں کئی تصاویر بھی نتھی کیں ۔ اس پر آلٹ نیوز کے محمد زبیر نے انہیں جواب دیا کہ ’’آپ نے جو تیسری تصویر شیئر کی ہے وہ بھارت کی نہیں بلکہ بورا بورا آئی لینڈ(فرینچ پولینسیا) کی ہے‘‘ مالدیپ لکش دیپ قضیہ میں بھکتوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ وہ بھی شروع پڑگئے۔ بائیکاٹ مالدیپ کا ٹرینڈ چل پڑا۔ سارے کے سارے مقاطعے پر اُتارو ہوگئے۔’ایکسپلور انڈین آئی لینڈس‘کا ہیش ٹیگ چل پڑا۔ غرضیکہ اس پر خوب لے دے مچی۔ 
 صاحبو،آپ نے غور کیا ہی ہوگا کہ ایسے ہی موضوعات کے سبب ہندوستانی سوشل میڈیا کے منظرنامے سے کچھ اصل موضوعات حاشیہ پر پہنچ گئے ہیں ۔ جن میں سے ایک اسرائیلی جارحیت بھی ہے۔ دنیا بھر کے امن پسندوں کی طرح ہمارے یہاں سے بھی فلسطینی مظلومین کیلئے آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔ اتوار کوایک بار پھر الجزیرہ کے بہادر صحافی وائل الدحدوح پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اسرائیلی حملے میں ان کے جواں سال فرزند حمزہ الدحدوح شہید ہوگئے۔ وائل کے خاندان کو تیسری بار نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہندوستانی سیاستدانوں میں کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی نے اس سانحہ پر رنج و غم کااظہار کیا۔ اہل فلسطین کے حق میں پرینکا نے اس سے قبل بھی کئی بار آواز اٹھائی ہے۔ ان کے علاوہ راہل گاندھی، اسد الدین اویسی اور منوج کمار جھا سمیت اپوزیشن کے لیڈران ہی ہیں جو اس معاملے میں صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’اے نئے سال بتا تجھ میں نیا کیا ہے‘

خیر آگے بڑھتے ہیں ، بدھ کو بی جے پی نے اپنے ایکس ہینڈل پر ایک مختصر ویڈیو ٹویٹ کیا جس میں لکھا کہ ’’۱۵۵۶ء میں بابر نے شری رام جنم بھومی پر بنے مندر کو ڈھا کر مسجد بنوائی تھی۔ رام راجیہ۔ سنگھرش سے پرینام تک کے ادھیائے میں ایک اماوسیہ میں دیکھئے کیسے بیسویں صدی میں مندر نرمان کیلئے بجی سنگھر ش کی انتم رن بھوری‘‘اس ٹویٹ پر بہت سارے افراد نے اعتراض کیا کہ تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، بابر کی موت ۱۵۳۰ء میں ہوئی تھی تو پھر ۱۵۵۶ء میں وہ مندر کیسے منہدم کرسکتا ہے۔اس سوال اور مدلل اعتراض کا ہی اثر تھا کہ صبح کو کیا گیا یہ ٹویٹ شام کو ڈِیلیٹ کردیا گیا۔ 
 پچھلے ہفتے ہی ’اصل شیوسینا کس کی؟‘‘ کے معاملے پر مہاراشٹر اسمبلی کے اسپیکر راہل نارویکر نے فیصلہ سنایا ۔انہوں نے ایکناتھ شدے گروپ کو ہی اصل شیوسینا قرار دیا۔یہ فیصلہ بھی کافی موضوع بحث رہا۔ بیشتر نے ردعمل میں یہی کہا کہ اسی طرح کے فیصلے کی توقع تھی۔ آرجے ڈی لیڈر منوج کمار جھا نے امیز قزلباش کے اس شعر سے اپنی بات کہی کہ ’’اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف/ہمیں یقیں تھاہمارا قصور نکلے گا‘‘ ماہر تعلیم اور سماجی امور کے تجزیہ نگار سندیپ مانو دھنےنے طنزاًلکھا کہ ’’پیشگوئی کے مطابق فیصلے کیلئے شکریہ راہل نارویکر...‘‘
  ایودھیا معاملے پر مین اسٹریم میڈیا کا کوریج بھی سوشل میڈیا پر موضوع بحث رہا۔ ایک ٹی وی چینل نے تو اپنی ’میڈیا وین‘ پر سلوگن ہی لکھوادیا کہ ’’مندر وہیں بنایا ہے‘‘ اس پررویش کمار نے ایکس پوسٹ میں اس پر تبصرہ کیا کہ ’’رام کی مریادا۔صحافت کی مریادا=نیوزچینلز کے وین پر جو لکھا ہے، دھیان سے پڑھیں ۔ مندر وہیں بنایا ہے‘‘ صحافی دیا شنکر مشرا نے طویل پوسٹ میں لکھا کہ ’’بریکنگ نیوز : میڈیا کا نِدھن (انتقال)! بھارتیہ میڈیا کا ندھن ہوگیا ہے!اوم شانتی! ایودھیا کی جانب دوڑتی میڈیا کی گاڑیاں ’ہندو‘ میڈیا کی ہیں ۔ ان کو میڈیا سمجھنے کی غلطی نہ کریں ۔ نوئیڈا کے سارے ایڈیٹرز میڈیا کے انتم سنسکار میں موجود تھے۔ جنہوں نے جانے سے انکار کردیا ، ان کا سامان اٹھاکر سڑک پر پھینک دیا گیا۔ نوٹس پیریڈ کا پیسہ نہیں دیا گیا....‘‘ 
 صاحبو، گزرا ہفتہ واقعی ہنگامہ خیز رہا۔ موضوعات کی بھرمار تھی۔ مشکل یہ تھی کہ کیا لیا جائے اور کیا چھوڑدیا جائے۔ جاتے جاتے اتنا بتا دیتے ہیں کہ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کو عالمی عدالت میں گھسیٹا ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کے معاملے میں اس نے عالمی عدالت میں انصاف کی گہار لگائی ۔ اس پر سماعت جاری ہے ۔ جنوبی افریقہ کے اس اقدام کی خوب سراہنا ہورہی ہے ۔ اے آئی سے بنی ایک تصویر تو خوب شیئر کی جارہی ہے جس میں جنوبی افریقہ کو فلسطین کی انگلے تھامے دکھایا گیا ہے۔ سارا رے نامی خاتون نے اس تصویر کیساتھ لکھا کہ ’’ تصویر جو ہزاروں الفاظ پربھاری ہے۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK