اسے سوشل میڈیا کی ــ’جادوگری‘ کہئے کہ یہاں راتوں رات شہرت ہاتھ آجاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ بندہ میں کوئی انفرادیت ہونی چاہئے۔
EPAPER
Updated: April 14, 2024, 5:15 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
اسے سوشل میڈیا کی ــ’جادوگری‘ کہئے کہ یہاں راتوں رات شہرت ہاتھ آجاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ بندہ میں کوئی انفرادیت ہونی چاہئے۔
اسے سوشل میڈیا کی ــ’جادوگری‘ کہئے کہ یہاں راتوں رات شہرت ہاتھ آجاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ بندہ میں کوئی انفرادیت ہونی چاہئے۔ اب دہلی کے سیلم پور کے عامر میاں کی مثال لیجئے۔ کرتا پاجامہ میں ملبوس یہ باریش صاحب مقامی بازار میں کپڑوں کی دکان لگاتے ہیں۔ عامر عرف چھوٹو میاں کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ پرمزاح انداز میں ہانک/ پکار لگاکر کپڑے بیچتے ہیں۔ آپ کی نظروں سے بھی ان کا وہ ویڈیو گزرا ہوگا، جس میں وہ’’آہا... باجی خالہ آپا... ایک سو ساٹھ، ایک سو ساٹھ روپے...‘‘ کی گردان کرتے نظر آتے ہیں۔ کپڑوں کے ڈھیر کو اچھال کر چھوٹو میاں بلاتکان گاہکوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ چونکہ اس کپڑا بازار میں زیادہ تر خواتین ہی آتی ہیں ، اسلئے چھوٹو میاں کئی نسوانی نام ایک ساتھ پکارتے’’رخسانہ.. فرزانہ...ریحانہ‘‘۔ قابل ذکر ہے کہ عامر میاں یہ کام لمبے وقت سے کررہے تھے لیکن شہرت انہیں ایک ویڈیو نے دے دی۔ ہوا یوں کہ سوشل میڈیا کی شدبد رکھنے والے کسی مہرباں نے ان کا ویڈیو بناکر پوسٹ کردیا، جو دھیرے دھیرے شارٹ ویڈیو اور ریلز کے ذریعہ وائرل ہوگیا۔ نتیجتاً لوگ دور دراز سے سیلم پور بازار کا رخ کرنے لگے کہ چھوٹو میاں کو لائیو دیکھ سکیں۔ رمضان کے آخری ہفتے میں تو عامر میاں ٹرینڈ کرگئے۔ کاروباری دماغ رکھنے والوں نے چھوٹو میاں کی مقبولیت کا فائدہ اٹھایا۔ ان سے ڈائیلاگ بلواکر بدلے میں کسی نے انہیں کرتا/شیروانی کا تحفہ دیا، کسی نے عطر کا ہدیہ تھمایا، تو کسی نے کچھ اور تحفہ سے نوازا۔ غرضیکہ عامر میاں کی ایک سو ساٹھ کی پکار سوشل میڈیا کے ذریعہ ملک بھر میں گونجتی ہوئی سرحدوں کے پار پہنچ گئی۔ پچھلے پندرہ دنوں سے وہ انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب پر جانا پہچانا چہرہ بن چکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم جائزہ کو آگے بڑھائیں، عامر میاں کو’بن مانگا مشورہ‘ دے دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ویسے بھی یہ ہر کوئی بلاتردد ایک دوسرے کو دیتا ہی ہے. خیر، عامر میاں سے کہنا یہی ہے کہ وہ خود بھی اپنی مقبولیت کو بھنائیں اور انفلوینسرز کو مفت میں ’ویووز‘ دلانے کا ذریعہ نہ بنیں۔
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ :’’ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی‘‘
اب گروگرام کے ایک ’ڈلیوری بوائے‘کا بھی معاملہ سن لیجیے۔ سویگی کیلئے کام کرنے والا یہ بندہ کسی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پارسل پہنچانے گیا۔ واپسی میں اس نے ایک جوڑ جوتے کا چرالیا۔ یہ واردات سی سی ٹی وی کیمرے میں قید ہوگئی، جس پر سوشل میڈیا میں کافی کہا سنی ہوئی۔ حد تو یہ ہوئی کہ نیوز چینلوں نے اسے’نیشنل ایشو‘ بنادیا۔ سریش میتھیو نے اس پر تبصرہ کیا کہ’’انڈین نیوزچینلوں نے جوتا چوری کرنیوالے ملازم پر تیس منٹ کا شو کردیا لیکن الیکٹورل بونڈ گھوٹالے کیلئے ایک سیکنڈ کا وقت نہیں دیا۔ ‘‘ نروندر نے لکھا کہ’’انڈین میڈیا نے جوتا چوری کرنیوالے سویگی کے ملازم پر ایک شو کردیا لیکن الیکٹورل بونڈ پر کچھ بھی نہیں کہا۔ ‘‘ گبر سنگھ نامی صارف نے لکھا کہ’’ڈلیوری والا بندہ جوتا چراتے پکڑاگیا، لوگ کہہ رہے ہیں رحمدلی دکھائی جائے اور اس بندے کو جوتے کا تحفہ دیا جائے... (میں کہتا ہوں ) غریبی کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اقدار بھلابیٹھیں، امیروں کو محافظ بننے کا خبط ہوتا ہے، وہ ایسے معاملات میں ٹوکن ازم کرکے ایسوں کو بچاکر بڑے جرائم کرنے کی شہ دے دیتے ہیں۔ ‘‘اداکار سونوسود نے لکھا کہ’’ اگر اس ڈلیوری بوائے نے جوتا چرایا بھی ہے تو اس پر کارروائی نہ کی جائے، ہوسکے تو اسے ایک جوتا دلایا جائے، ممکن ہے اسے جوتے کی شدید ضرورت ہو۔ ‘‘
قارئین کرام! کالم میں کرکٹ کی بات نہ ہو، یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ آئی پی ایل میں اس بار بھی آر سی بی پے درپے ہار سے دوچار ہے۔ اس ٹیم کے مداح اتنے بددل ہوگئے ہیں کہ وہ خود ہی اپنی چہیتی ٹیم کو ٹرول کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ تن تنہا کوہلی ہی محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں، اس کے باوجود وہ ہدف تنقید بن رہے ہیں۔ معین اختر اور انور مقصود کے شہرت یافتہ شو’ لوز ٹاک‘ کا ایک مِیم خوب گردش میں ہے جس میں بنگلہ دیشی کھلاڑی بنے معین اختر کی جگہ کوہلی کا چہرہ لگادیا گیا ہے جس میں ’ہوم نائی جیتے گا‘کہتے نظر آرہے ہیں۔ محمد سراج کی دھنائی اور میکسویل کی پھسپھسی بلے بازی کا بھی خوب مذاق بنایا جارہا ہے۔
مذاق سے یاد آیا کہ ان دنوں اہل سیاست مذاق کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ وجہ ان کی بیان بازیاں اور موقف سے پھرجاناہے۔ اس ہفتے ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے سوشل میڈیا پر موضوع بحث تھے۔ گڑی پاڑوا کے دن منعقدہ اجلاس میں انہوں نے وزیراعظم مودی کو بلاشرط حمایت دینے کا اعلان کیا۔ اس پر لوگوں کا ملاجلا ردعمل دیکھنے کو ملا۔ شائے وجئے نامی شخص نے لکھا کہ’’بلا شرط حمایت دے کر اپنے اور اپنی پارٹی کے پیروں پر کلہاڑی مارنے والا لیڈر پہلی بار دیکھا ہے۔ ‘‘ ودھان سبھا الیکشن تک کتنے لوگ پارٹی میں رہتے ہیں یہ بھی دِکھ جائے گا۔ ‘‘اکشے واگھ نے لکھا کہ’’صاحب آپ سے یہ امید نہیں تھی۔ ‘‘ امول رَن دِیوے نے لکھا کہ ’’ بی جے پی کے ساتھ دو دن نہیں گزرے اور ایم این ایس والے جھوٹ کہنا سیکھ گئے۔ پاڑوے کے جلسے میں راج ٹھاکرے نے کہا کہ ہم نے مودی کو غیر مشروط حمایت دی ہے۔ اب ریاست بھر میں تنقید ہورہی ہے تو کہہ رہے ہیں ہم نے فلاں فلاں مطالبے پر حمایت دی ہے۔ ایم این ایس مراٹھی لوگوں کو گمراہ کررہی ہے۔ ‘‘
جاتے جاتے یہ پیغام پڑھتے جائیں، جسے اشوینی سونی نے ایکس پر شیئر کیا’’ نہ ڈی جے، نہ ہڑدنگ، نہ نعرے بازی، نہ بائیک ریلی، نہ دھکا مکی، نہ وی آئی پی قطار... کروڑوں لوگوں نے نماز پڑھی اور گھر گئے۔ اسلام سے ہم نظم و ضبط اور مساوات سیکھ سکتے ہیں۔ ‘‘