خواتین وحضرات! ہفتے بھرمیں جو کچھ ہوا، وہ آپ نے خبروں میں دیکھ، سن لیا ہوگا۔ ان پرسوشل میڈیا کے گلیاروں میں کافی چہ میگوئیاں ہوئیں۔ ان میں سے کچھ کا حال سنا رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: April 07, 2024, 1:19 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
خواتین وحضرات! ہفتے بھرمیں جو کچھ ہوا، وہ آپ نے خبروں میں دیکھ، سن لیا ہوگا۔ ان پرسوشل میڈیا کے گلیاروں میں کافی چہ میگوئیاں ہوئیں۔ ان میں سے کچھ کا حال سنا رہے ہیں۔
خواتین وحضرات! ہفتے بھرمیں جو کچھ ہوا، وہ آپ نے خبروں میں دیکھ، سن لیا ہوگا۔ ان پرسوشل میڈیا کے گلیاروں میں کافی چہ میگوئیاں ہوئیں۔ ان میں سے کچھ کا حال سنا رہے ہیں۔ چلئے قصۂ سوشل میڈیا ’بھارت رتن‘ سے شروع کرتے ہیں۔ پچھلے اتوار کو لال کرشن اڈوانی کو اس اعلیٰ شہری اعزاز سے نوازاگیا۔ صدرجمہوریہ دروپدی مرمو، وزیر اعظم مودی، وزیرداخلہ امیت شاہ اور دیگر نے اڈوانی کے گھر جاکر انہیں یہ ایوارڈ سونپا۔ اس پر تبصرے بازوں کا اعتراض تھا کہ ایوارڈ دیتے وقت صدرجمہوریہ ایستادہ تھیں اور وزیر اعظم بیٹھے ہوئے تھے۔ اپوزیشن کے لیڈران نے اعتراض کیاکہ یہ طرزعمل صدرجمہوریہ کے شایان شان نہیں۔ جس پر حکومت کی جانب سے صفائی دی گئی کہ پروٹوکول کے لحاظ سے کچھ بھی غلط نہیں ہوا۔ راشٹرپتی بھون میں ہونیوالی تقریب کی مثال بھی دی گئی۔ اس کے باوجود بات ختم نہ ہوئی، برسراقتدار اور حزب اختلاف میں اس پر گھمسان کا رن مچا۔
گزشتہ اتوار کو ہی میانک یادو کا نام ’ایکس‘ پرٹرینڈنگ میں تھا۔ لکھنؤ سپر جائنٹس کے اس دائیں ہاتھ کے گیندباز نے آئی پی ایل میں اپنی تیزرفتار گیندوں سے سنسنی پھیلادی ہے۔ گزشتہ اتوار کو اس نے اپنے لیگ کریئر کا پہلا میچ کھیلا اور ۳؍ وکٹیں اپنے نام کیں۔ یہی نہیں اس۲۱؍سالہ تیز گیندباز نے ۱۵۶ء۷؍ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند ڈالی۔ جو آئی پی ایل ۲۰۲۴ء کی اب تک کی سب سے تیز رفتارگیند قرار پائی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ میانک مستقل مزاجی کیساتھ ۱۴۰؍سے ۱۵۵؍کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند ڈال رہے ہیں اور باوجود اس کے ان کی ’لائن اورلینتھ ‘برقرار ہے۔ میانک کی اس دھاردار گیندبازی کے چرچے سوشل میڈیا کے گلیاروں میں ہورہے ہیں۔ اسے اسپیڈگن اورراجدھانی ایکسپریس بھی کہاگیا۔ کچھ نے تو بی سی سی آئی سے مطالبہ بھی کردیا کہ اسے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم میں شامل کیا جائے۔ اس ضمن میں سُمنتھ رمن کا تبصرہ قابل ذکر ہے، انہوں نے لکھا کہ ’’بلاشبہ میانک یادومستقبل کی ایک ابھرتی صلاحیت ہے، لیکن صرف دو میچوں کی بنیاد پر اسے اتنابڑا ماننا ٹھیک ہے؟ مجھے یاد ہے کہ کچھ سیزن قبل ایسا ہی ایکسائٹمنٹ عُمران ملک کے معاملے میں بھی دیکھنے کو ملا تھا۔ تیزرفتاری پہلے پہل بھلی معلوم ہوتی ہے، مشاق بلے بازوں کیلئے میانک ابھی نئے ہیں۔ کچھ عرصے بعد وہ اسکی گیندبازی کا سامنا کرنے کی حکمت عملی ڈھونڈ نکالیں گے۔ اسلئے اس نوجوان کو ابھی ڈیولپ ہونے کا وقت دیں۔ امید کرتا ہوں کہ عُمران بھی یہ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے میانک کیا صحیح کررہے ہیں، میں دعاکرتا ہوں کہ دونوں ہی نوجوان ہر فارمیٹ میں ٹیم کی نمائندگی کریں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ :’’تم قتل کرو ہوکہ کرامات کرو ہو‘‘
پیر کو ویسے تو بہت سارے ٹرینڈنگ ہیش ٹیگ تھے، لیکن ان میں ’اپریل فول/اپریل فولس ڈے‘ٹاپ ٹرینڈ تھا۔ لوگوں نے مذاق مذاق میں کئی جھوٹی خبریں اڑائیں۔ جن میں کرکٹر اور سیاستدانوں کو ہدف مذاق بنایا گیا۔ پیر کو ہی رام لیلا میدان، کیجریوال کی گارنٹی، تہاڑ جیل، آتشی اور وی وی پیٹ بھی موضوع بحث ہیش ٹیگ تھے۔
عام انتخابات کے سبب سیاستدانوں کی ’پالہ بدلی‘بھی زور پکڑ رہی ہے۔ ان میں باکسر وجیندر سنگھ اورگوروولبھ کاکانگریس سے نکل کر بی جے پی میں جانا ’چرچا کا وِشئے‘ رہا۔ خواتین پہلوانوں کے معاملے پربرج بھوشن سنگھ اور بی جے پی کو کوسنے والے وجیندرسنگھ کے یوں بدل جانے پر انکت سنگھ نامی صاحب نے ساکشی ملک کے احتجاج والی تصویر کیساتھ پوچھا کہ’’کیا وجیندر سنگھ اب بھی اپنی بہن کے لئے آواز اٹھائیں گے؟‘‘ ’’پنکھوڑی پاٹھک نے ندا فاضلی کےشعرکیساتھ لکھا کہ ’’ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی، جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا۔ کچھ ہی گھنٹوں میں بدل جاتے ہیں آجکل کے لوگ۔ # وجیندرسنگھ‘‘شِکھا نامی صارف نے لکھا کہ ’’میں نے اس سے پہلے تک بغیرریڑھ کی ہڈی والا کوئی باکسر نہیں دیکھا تھا۔ ‘‘اکشئے پرتاپ سنگھ نے لکھا کہ ’’میں دیش کی ترقی کیلئے بی جے پی سے جڑا ہوں۔ وجیندر سنگھ نے بھی پالہ بدل کر وہی رٹی رٹائی بات کہی ہے۔ ‘‘ آشیش ٹُوٹس نامی صارف نے وجیندر سنگھ کے میڈیا بیان کی کلپ کیساتھ اسکا متن پوسٹ کیا’’رپورٹر:کل تک تو آپ راہل گاندھی کے ساتھ تھے، راہل کا ویڈیو ری پوسٹ کررہے تھے، اچانک کیا ہوگیا؟ وجیندرسنگھ: ہاں ویڈیو ری پوسٹ کرنے کے بعد میں سوگیااور صبح اٹھا تو لگا بی جے پی جوائن کرلینی چاہئے۔ ‘‘اب گورو ولبھ کی بات کرتے ہیں، یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے بی جے پی ترجمان سمبت پاتراکو’’۵؍ ٹریلین میں کتنے زیروہوتے ہیں کا سوال پوچھ کر اَچنبھِت کردیا تھا۔ شاداب چوہان نے ان کی دَل بدلی پرلمبی چوڑی پوسٹ لکھی کہ ’’آج سیکولرازم کے سُورما گوروولبھ جی کا بھی ہِردئے پریورتن ہوگیا اور وہ بھی دھرم کی آڑ میں بھاجپا میں شامل ہوگئے.....‘‘صحافی شکیل اختر نےگوروولبھ کے استعفیٰ نامہ کو ’ری پوسٹ‘ کرکے لکھا کہ ’’گورو ولبھ شرم کرو، چپ چاپ استعفیٰ دے دیتے۔ مگر یہ جو جھوٹے الزام لگارہے ہو اس وقت یاد نہیں آئے جب جھارکھنڈ سے ودھان سبھا کا ٹکٹ لیا، تب بھی نہیں جب راجستھان سے ٹکٹ لیا، اور تب بھی نہیں جب راجیہ سبھا مانگ رہے تھے؟ دوالگ الگ ریاستوں سے کسی کو تین سال میں ٹکٹ ملتا ہے؟ احسان فراموش‘‘ ایشان راجیو تیاگی نے لکھا کہ’’ پارٹی نے سب کچھ دیا، عزت، عہدہ، ٹکٹ۔ لیکن آپ نے (بدلے میں ) پارٹی کو کیا دیا؟ اس کا حساب دے کر پارٹی چھوڑی ہوتی تب بھی مان لیتے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد جو ہتھیار ڈال دے، اسے تاریخ ہمیشہ بزدل کہے گی۔ ‘‘نتن شکلا نےمزاحیہ انداز میں لکھا کہ ’’گورو ولبھ نے سُنی اَنتر آتما کی آواز، بی جے پی میں شامل ہوئے۔ اَنترآتما سے گزارش ہے کہ براہ کرم ایک بار میں پوری فہرست جاری کرے، یہ روز روز کے جھٹکوں سے بہتر ہے کہ ایک بار دل کا دورہ ہی پڑ جائے۔ بھکتوں اپنے پرانے ٹویٹ ڈیلیٹ کرو۔ ‘‘تویہ تھاگزرے ہفتے کا تھوڑا بہت احوال، جس میں پالہ بدلی کا تھا دھمال۔ واہ صاحب مذاق مذاق میں تُک بندی آئی اپنے کام، اسی بات پر کالم ہوا تمام۔