سیاست میں’ہِردَئے پریورتن‘ عام بات ہے۔ پچھلے ہفتے ایسا ہی کچھ ہوا۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے ایک بار پھر اپنا پالہ بدل لیا۔ انڈیا اتحادیوں سے ہاتھ چھڑاکر وہ این ڈی اے کیساتھ ہولئے۔
EPAPER
Updated: February 04, 2024, 4:09 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
سیاست میں’ہِردَئے پریورتن‘ عام بات ہے۔ پچھلے ہفتے ایسا ہی کچھ ہوا۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے ایک بار پھر اپنا پالہ بدل لیا۔ انڈیا اتحادیوں سے ہاتھ چھڑاکر وہ این ڈی اے کیساتھ ہولئے۔
سیاست میں’ہِردَئے پریورتن‘ عام بات ہے۔ پچھلے ہفتے ایسا ہی کچھ ہوا۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے ایک بار پھر اپنا پالہ بدل لیا۔ انڈیا اتحادیوں سے ہاتھ چھڑاکر وہ این ڈی اے کیساتھ ہولئے۔ اسی سیاسی اتھل پتھل کا نتیجہ تھاکہ اتوار کو ’نتیش کمار، نتیش کمار ری جوائننگ این ڈی اے، بہار پالیٹکس‘‘ جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈنگ کرنے لگے۔ سوشل میڈیا کے بہت سارے جغادریوں کی رگ شرارت پھڑک گئی ۔ ’کنگ فو پانڈا‘ نامی ہینڈل سے لکھا گیا:’’نتیش کمار سے کارپوریٹ لیسن۔ ہمیشہ لچکدار رہو، صحیح وقت پر جاب بدلو، راستوں کو بند نہ کرو، ایک ہی کمپنی سے دوبارہ جڑنے کیلئے تیار رہو، آخری مگر سب سے اہم:جب تک ہاتھ میں دوسرا موقع تیار نہ ہو پہلے کو نہ چھوڑو۔‘‘ ڈی متھو کرشنن نے لکھا کہ ’’نوجوانوں کو میرا مشورہ : نتیش کمار سے سیکھئے کہ کوئی کام سے پیار کیسے کیا جاتا ہے، ساتھی اور ٹیم بھلے ہی بدل جائے، لیکن اپنا کام نہیں بدلنا چاہئے۔ ‘‘ تمل ساہا نامی صارف نے ایکس پر حلف برداری کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ ’’یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ نتیش کمار کو اب بھی حلف لینے کیلئےتحریری حلف کی ضرورت ہے۔ اب تک تو انہیں یہ حلف ازبر ہونا چاہئے تھا کیونکہ وہ مسلسل نوبار سے یہی سطریں پڑھ رہے ہیں، یہ کوئی مذاق نہیں ہے ‘‘
یہ بھی پڑھئے:سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ابھی سمجھداری کی بات کرنا زیادہ ضروری ہے
اتوار کو ٹی وی ریالٹی شو’بگ باس‘ کے فاتح کے طور پر جیسے ہی منورفاروقی کے نام کا اعلان ہوا، ممبئی سمیت ملک کے کئی حصوں میں نوجوان جھوم اٹھے۔ اس جیت کے چرچے سوشل میڈیاپر بھی رہے۔ دوسرے دن جب منور ٹرافی لے کر ڈونگری پہنچے تو یہاں ہزاروں مداحوں نے انہیں گھیرلیا۔ ’ٹرافی ڈونگری پہنچ گئی‘ کا شورمچا۔ اس کی ویڈیو کلپس بھی فیس بک انسٹا ریلز میں گردش میں رہے۔ ایک طبقہ جہاں منور کی جیت پر شاداں تھا، وہیں ایک طبقہ معترض تھا کہ اس پر اتنا ہنگامہ کیوں کیاجارہا ہے۔ ہنگامے سے یاد آیا کہ پچھلے ہفتے پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان بھی موضوع بحث رہے۔ دراصل ان کا ایک ویڈیو وائرل ہوا، جس میں وہ بہت ہی برہمی کیساتھ ایک بوتل کیلئے اپنے ’شاگرد‘ کو تھپڑ اور مکے ماررہے ہیں۔ یہ ویڈیو تیزی سے پھیلا اور لوگوں نے ان پر خوب لعنت ملامت کی۔ بہت سے ’مِیم باز‘ اس موضوع پر بھی بخوبی کھیل گئے، اور انہوں نے راحت پرخوب پھبتیاں کسیں۔ ایک مِیم دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوا، جسے محمد آصف خان نے بھی شیئر کیا، اس میں گینگز آف واسع پور کے گاڑی کی چابی ڈھونڈنے کے منظر میں منوج واجپائی کی جگہ راحت فتح علی ’’ کہاں ہے میری بوتل‘‘کہتے دکھائی دئیے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ جگ ہنسائی ہونے کا اثر تھا کہ راحت فتح علی خان کو سامنے آنا پڑا۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایک وضاحتی ویڈیو جاری کیا۔ جس میں ان کے شاگردنوید حسنین نے صفائی دی کہ استاد جی اس لئے خفا تھے کیونکہ دم کئے ہوئے پانی کی بوتل کہیں رکھ دی گئی تھی۔
کرکٹر سرفراز خان کی ٹیسٹ ٹیم میں شمولیت کا مطالبہ ایک لمبے وقت سے کیا جارہا تھا، یہ پچھلے دنوں بالآخر پورا ہوگیا۔ سرفراز اور ان کے اہل خانہ کیلئے جہاں یہ خبر خوشیاں لے کر آئی وہیں کھیل شائقین اور کرکٹ پنڈت بھی اس خبر سے مسرور ہوئے۔ کرس گیل، سوریہ کمار، عرفان پٹھان، مناف پٹیل، آکاش چوپڑا سمیت دیگر سابق کھلاڑیوں نے سرفراز کو نیک خواہشات پیش کیں۔ بہت سارے مداحوں نے پرزور مطالبہ کیا کہ سرفراز کو ’پلئینگ الیون‘ کا حصہ بنایا جائے، کیونکہ اس کیلئے اسے لمبا انتظار کرنا پڑا ہے اور اس وقت وہ شاندار فارم میں ہے۔ خان خانوادہ میں دگنا جشن رہا، ایک طرف سرفراز ٹیم میں شامل کئے گئے وہیں مشیر انڈر۱۹؍ ورلڈ کپ میں ٹیم انڈیا کے لئے رن مشین بنے ہوئے ہیں ۔
یکم فروری کو عبوری بجٹ پیش کیاگیا۔ نیٹیزنس نے اس پر بھی کافی کچھ لکھا۔ بہت سوں نے مذاق مذاق میں بڑی بات کہہ دی۔ شرمالیسئس نے لکھا’’سمجھ میں نہیں آیا لیکن سن کر اچھا لگا‘‘ سواتکیٹ نےایک مِیم شیئر کیا جس میں اوپر لکھا ہے کہ میں اپنے سی اے دوستوں سے نیا بجٹ سمجھتے ہوئے، نیچے سنجے مشرا کا مکالمہ لکھا ہے ’’پڑھ تو بے کا لکھا ہے؟‘‘ پچھلے ہفتے ادھوٹھاکرے نے رائے گڑھ کا دورہ کیا، یہاں انہوں نےبلقیس بانو کا نام لے کر بی جے پی پر تنقید کی۔ بی جے پی کے ممبئی صدر اور رکن اسمبلی آشیش شیلار نے جوابی حملہ ایکس کے ذریعہ کیا، شیلار نے لکھا کہ’’آخر شریمان ادھوٹھاکرے نے بلقیس بانو کا وکالت نامہ لے لیا۔ رائے گڑھ کی سرزمین پر کی جانے والی تقریر میں انہوں نے بلقیس بانو پر رحم دلی دکھائی....‘‘ ایڈوکیٹ شیلار کا یہ ’آرگیومنٹ‘ لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ منیش جادھو نے مراٹھی میں جواب دیا کہ’’شیلارصاحب آپ کو شیواجی مہاراج یا رائے گڑھ سے متعلق بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ شیواجی مہاراج نے مسلم خواتین کو ماں کا درجہ دیا، اور آپ لوگ بلقیس بانو کے متعلق ہمدردی ظاہر کرنے کی بجائے نفرت کا اظہار کررہے ہیں ۔ سیاست کب اور کیسے کرنی چاہئے اس کا احساس ہونا چاہئے۔ ‘‘بھاویکا نامی خاتون نے لکھا کہ ’’بلقیس بانو پر ہونیوالا ظلم وستم انسانیت کو شرمندہ کرنے والا تھا، اس پر آپ جیسوں کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا، کیونکہ آپ کا اور انسانیت کا کیا ناطہ؟ رائے گڑھ پر میرے راجا (شیواجی مہاراج) نے ایسے ذلیل لوگوں کو کیا سبق دیا یہ تاریخ میں پڑھئے۔ اور زانی باہر آنے پر پیڑے تقسیم کرنا سب کو نہیں آتا۔ ‘‘وجے نکاشے نے شیلار سے سوال کیا کہ ’’یعنی بلقیس بانو کیساتھ جو کچھ ہوا اس کی آپ تائید کرتے ہیں ؟ مجھے پتہ ہے کہ اس سوال کا جواب دینے کی نہ آپ میں ہمت ہے اور نہ ہی اہلیت۔ ‘‘