پچھلے ہفتے ’پران پرتشٹھا‘ کے سبب سوشل میڈیا گرمایا ہوا تھا۔ حمایت، مخالفت کے علاوہ بھی بہت کچھ زیر بحث تھا۔ بہت سارے افراد اندیشے اور خدشات کا اظہار کررہے تھے۔ بہت سے جشن کی آڑ میں اشتعال دلار ہے تھے۔ دانشمند اور اہل نظر ان ساری باتوں کو بخوبی محسوس کررہے تھے۔
پچھلے ہفتے ’پران پرتشٹھا‘ کے سبب سوشل میڈیا گرمایا ہوا تھا۔ حمایت، مخالفت کے علاوہ بھی بہت کچھ زیر بحث تھا۔ بہت سارے افراد اندیشے اور خدشات کا اظہار کررہے تھے۔ بہت سے جشن کی آڑ میں اشتعال دلار ہے تھے۔ دانشمند اور اہل نظر ان ساری باتوں کو بخوبی محسوس کررہے تھے۔ اسلئے انہوں نے کوشش کی کہ لوگ باگ اپنا آپا نہ کھوئیں۔ ایکس پر ایڈوکیٹ انس تنویر نے اپنے فالوورز کو یوں مخاطب کیا کہ ’’پتہ ہے سب بہت triggering ہے، لیکن ہلکا ہاتھ رکھو۔ کچھ اس کی مرضی کے بنا نہیں ہوتا۔ کنورسیشن میں کنٹریبیوٹ نہ کرو۔ یک طرفہ رہنے دو، مزہ چھین لو۔ ‘‘انکے اس خیال سے بیشتر متفق ہوئے، ڈاکٹر ضیاء احمد خان نے لکھا کہ’’ایسے وقت میں خاموشی کی اہمیت ہے، کوئی ردعمل نہیں، چہرے پر کوئی تاثر نہیں، صورتحال سے نمٹنے کا بہترین حل۔ ‘‘ رام کمار سنگھ نے حالات کے مدنظر لکھا کہ’’ دیس کا ایک طبقہ سڑکوں پر بَورایا(بوکھلایا) ہوا گھوم رہا ہے۔ دوستو، کچھ دن سمجھداری کی بات کرنا بند کیجئے، اس اجتماعی ہیجان کو ٹھنڈا پڑنے دیجئے، پانچ سات دنوں میں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ’جے ہند، جے سمودھان‘۔ ‘‘
اسکے جواب میں پرشانت کمار نے کہاکہ ’’ہم انتظار نہیں کرسکتے، ابھی سمجھداری کی بات کرنا زیادہ ضروری ہے، کوئی سنے نہ سنے، ہمیں اپنی بساط بھر کوشش کرنی چاہئے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’حکومت کی آنکھ میں آنکھ کر ڈال کر سوال پوچھنے والا شاعر نہیں رہا‘‘
بائیس جنوری کو ملک کی کئی ریاستوں میں ہاف/ فل ڈے تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔ شندے حکومت کے اس فیصلے کیخلاف قانون کے چار طلبہ نے بامبے ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مفاد عامہ کی اس عرضداشت کو کورٹ نے خارج کردیا اور عرض گزاروں پر جرمانہ بھی لگادیا۔ اس معاملے پر گوتم بھاٹیا نے تبصرہ کیا کہ’’جج کو مبینہ طور پر موٹیویٹیڈ پی آئی آیل معلوم ہوئی یہ دیکھ کر بدمزگی کا احساس ہوا، عدلیہ کو اگر پی آئی ایل کے غلط استعمال پر گرفت کرنی ہی ہے تو ایسے دسیوں معاملے ہیں۔ بڑے خاطی مل جائیں گے جن سے شروعات کی جاسکتی ہے۔ بچوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے۔ ‘‘
مندر معاملے کے’سیاسی کرن‘ ہوجانے پر اسٹوئک ڈاکٹر وی نے لکھا کہ’’میں نے اپنے والد کے سینئر سٹیزن گروپ سے پوچھا کہ وہ لوگ سوسائٹی کی جانب سے منعقدہ تقریب میں شرکت کیوں نہیں کررہے ہیں تو انہوں نے جواب میں بتایا کہ کس طرح یہ ایونٹ سیاسی بن گیا، شنکر اچاریاؤں کو خاموش بٹھایا گیا وغیرہ وغیرہ۔ کچھ استثناء کیساتھ میں کہہ سکتی ہوں کہ مراٹھی لوگ ’دھرم ویڑے‘ نہیں۔ پھلے، امبیڈکر اور شاہو مہاراج کا شکریہ۔ ‘‘
ہندی/تمل/تلگو فلم انڈسٹری کے’ نام چیں ‘ ایودھیا میں نمایاں نظر آئے۔ ملیالم انڈسٹری کے اداکار، ہدایتکار ان سب سے دور آئین کی تمہید شیئر کرتے نظر آئے۔ بالا نامی صارف نے اس ضمن میں نیوز مِنٹ کی ایک خبر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’ رجنی کانت، دھنش، چرنجیوی، رام چرن، امیتابھ، رنبیر، عالیہ اور دیگر نے رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی، ملیالم ایکٹرس نے ملک کو باور کرایا کہ ہم تھیوکریسی(مذہبی حکومت) نہیں ہیں۔ ‘‘
پربھا نامی خاتون نے لکھا کہ’’مذہبی ہندوؤں سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں، مذہبی ہونا سنگھی ہونا نہیں ہوتا۔ مجھے دقت ان لوگوں سے ہے جو اس ’سر کس ‘ پر خوش ہورہے ہیں، انہیں پتہ ہے کہ یہ سب معصوم مسلمانوں کے خون پر قائم کیا گیا ہے۔ اسی پر میں نے یہ لکیر کھینچی ہے۔ ‘‘ شیام سنگھ مِیرا کا نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیں کہ’’ رام کا جنم کس کیلئے خوشی کا موضوع نہ ہوتالیکن مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تردد نہیں کہ رام مندر کی آڑ میں طاقت کی بھونڈی نمائش ہے۔ اس میں کچھ بھی دھارمک نہیں ہے۔ جس خیال کی بنیاد ہی میں کسی کو نیچا دکھانے کا عنصر ہو تو اس میں دھارمک کچھ بھی بچتا نہیں۔ بھلے ہی اس بھیڑ میں میرے دھرم، دیس، گاؤں اورخاندان کے سبھی لوگ کیوں نہ شامل ہوں ؟ شردھا اور تحقیر آمیز طاقت کی نمائش کےمنشاء میں امتیاز کرنا ہی میرے فہم کا امتحان ہے۔ میری تعلیم کہتی ہے کہ میں احتجاج درج کرواؤں، اس بات کی پروا کئے بغیرکہ میرے الفاظ کا کیا مطلب لیا جائے گا؟ کون کیا معنی نکالے گا؟ مستقبل اسے کیسے دیکھے گا؟ اس کے سیاسی، سماجی، معاشی، نفع نقصان کی پروا کئے بغیر میں اپنے آپ کو اس پردرشن سے نہ صرف الگ دکھانا چاہتا ہوں بلکہ اپنے دیس کے بھائیوں، اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھل کر کھڑا ہوں۔ ‘‘ملک کے کچھ مقامات پر فرقہ پرستوں نے کھل کھیلا اور کشیدگی پھیلانے میں کامیاب رہے۔ بحث چھڑی کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں یاترا کا کیا کام ؟تو زعفرانی ٹولہ معترض ہوا کہ علاقہ کیسے کسی سماج کا ہوا۔ اس پر انصاف پسند اور حق گو افراد نے کرارا جواب دیا۔ ابھی اور نیو نامی انفلوینسر نے ایسا ہی بے تکا سوال کیا جس کے رپلائے میں کیتن نامی صاحب نے لکھا، ’’ احمد آباد میں کچھ وقت قیام تھا، گھر ڈھونڈرہا تھا کرایہ پر، گوشت خور ہونے کے سبب کسی نے گھر نہیں دیا، بروکر نے یہ تک کہا کہ آپ مسلمان نظر آتے ہیں اسلئے دقت ہورہی ہے....‘‘ شبھم گپتا نے لکھا کہ ’’غیر مقبول خیال: سیکولر ملک میں کہیں بھی ایم ایریا نہیں ہونا چاہئے..۔ ‘‘
اس پر ابھیشیک بخشی نے لکھا کہ’’ایم ایریا اسلئے بنتا ہے کیونکہ ایچ ایریا والے ایم کو کرایہ دار یا مالک نہیں بننے دیتے۔ نادرست بیانی، ان پاپولر اوپینین کے نام پر پھیلانا نہیں چاہئے۔ ‘‘
نُپور جے شرما نے محمد آصف کی پوسٹ’ سنگھیوں نے مسلم بستی سے جلوس نکالا‘پر زہرافشانی کی کہ ’’تم ہندو انڈیا میں رہ رہے ہو، تمہارا مسلم ایریا بھی ہندو انڈیا میں آتا ہے، اوقات یاد رکھو۔ ‘‘
اس پر ڈاکٹر رُچیکا شرما نے لکھا کہ’’ آئین اسے انڈیا کہتا ہے، یہاں کہیں ہندو انڈیا نہیں ہے، اپنے بھرم کی اوقات یاد رکھو۔ ‘‘
خواتین و حضرات! ہمارے پاس باتیں تو اور بھی ہیں، لیکن کیا کریں تنگی کالم کا تقاضا ہے اب رخصت لے لیں۔ چلئے نئے ہفتے میں نئے موضوعات کیساتھ پھر ملاقات ہوگی۔ اس امید پر کہ محبت و امن کا پھر بولا بالا ہوگا اور نفرت پھیلانے والے اپنی مذموم کوششوں میں ناکام ہی رہیں گے۔