ہالی ووڈ کا مشہور فلمی ایوارڈ’آسکرس‘ اس باربھی سوشل میڈیاکے گلیاروں میں موضوع گفتگو تھا۔ ایکس پر یہ اتوار اور پیر کو ٹرینڈنگ میں تھا۔
EPAPER
Updated: March 17, 2024, 12:00 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
ہالی ووڈ کا مشہور فلمی ایوارڈ’آسکرس‘ اس باربھی سوشل میڈیاکے گلیاروں میں موضوع گفتگو تھا۔ ایکس پر یہ اتوار اور پیر کو ٹرینڈنگ میں تھا۔
ہالی ووڈکا مشہور فلمی ایوارڈ’آسکرس‘ اس باربھی سوشل میڈیاکے گلیاروں میں موضوع گفتگو تھا۔ ایکس پر یہ اتوار اور پیر کو ٹرینڈنگ میں تھا۔ ’آسکرس، آسکرس ۲۰۲۴‘کے ٹرینڈنگ ہیش ٹیگ چھائے ہوئے تھے۔ ہم نے ان کا ’تعاقب‘کیا تو پایا کہ فلم اور فلمی ستاروں کے ساتھ ساتھ تقریب کی پس پردہ کی باتیں بھی موضوع بحث رہیں۔ جن پر سوشل میڈیا صارفین نے ردعمل ظاہر کیا۔ پھر چاہے وہ (کوفیۃ) فلسطینی رومال پوش افراد کا تقریب گاہ کے باہر مظاہرہ کرنا ہو یامتعدد فلمی ستاروں کاغزہ کے ساتھ اظہاریگانگت کرنا۔ لوگوں نے ان ستاروں کی روشن ضمیری کی بھی ستائش کی جنہوں نے جنگ بندی کیلئے پرزورآواز اٹھائی اوران کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے ’فری فلسطین‘کا نعرہ لگایا۔ ان میں مارک رفالو(ھلک)، بلی ایلش، رمی یوسف، میلو مشادو اورسوان ارلودقابل ذکر ہیں۔ برطانوی ہدایتکار جوناتھن گلیزر نے’دی زون آف انٹریسٹ‘ کیلئے بہترین ہدایتکار کا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے حماس کے حملے اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر بھی لب کشائی کی۔
خیر، آپ یہ تو جان ہی گئے ہوں گے کہ آسکر س ٹرافی کس کس کی جھولی میں آئی ہے۔ فلم اوپن ہائیمر کا جلوہ رہا، یہ کئی زمروں میں چھائی رہی۔ اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے سیلیئن مرفی نے بہترین اداکار کی آسکرس ٹرافی اپنے نام کی۔ ’پیکی بلائنڈر‘ کے’ٹامی شیلبی‘ سے مشہور اس آئرش اداکار کے متعلق قیاس آرائیاں تیز ہوگئی ہیں کہ جیمس بانڈ سیریز کے اگلے ’بونڈ‘ وہ ہوں گے۔
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’کیا معطلی سے کام چل جائے گا؟‘‘
بونڈ سے یاد آیا کہ ہندوستان میں اس ہفتے بونڈکا نام ہر جگہ سنائی دیا۔ لیکن یہ بونڈ...جیمس بونڈ نہیں بلکہ الیکٹورل بونڈ تھا۔ اس معاملے کی شنوائی سپریم کورٹ میں چل رہی ہے۔ ڈیٹا کی پیشی کے متعلق ایس بی آئی نے سپریم کورٹ سے مہلت مانگی۔ چندر چڈ کی سربراہی والی ۵؍رکنی بنچ نے سختی دکھائی تو ایس بی آئی نے فوراًالیکشن کمیشن کی طرف دوڑ لگائی اور الیکٹورل بونڈ کا لیکھا جوکھا اسے سونپ دیا۔ اس کام کیلئے کہاں تو مہینوں کی مدت مانگی جارہی تھی لیکن جب ’کنٹیمپٹ آف کورٹ‘ کی تلوار سر پر لٹکتی دکھائی دی تو ایس بی آئی کو سمجھ آگیا کہ سرسلامت توپگڑی ہزار۔ کارٹونسٹ کرتیش بھٹ نے اس پر ایس بی آئی کواپنی فنکاری سے چٹکی کاٹی، انہوں نے اس صورتحال کو کارٹون میں بیان کیا جس میں ایک صارف ایس بی آئی کے اہلکار سے کہتا نظر آیا کہ ’’ذرا جلدی کیجئے نا، ہمیں پتہ ہے آپ ساڑھے تین ماہ کا کام ۲۴؍ گھنٹے میں کرسکتے ہیں ‘‘ الیکٹورل بانڈ کے اس ’خاص ڈیٹا‘ کا عام ہونا تھا کہ ہرطرف بونڈ ہی بونڈ کا شور مچ گیا۔ مین اسٹریم میڈیا میں بھلے ہی اس پر بے باک سوالات قائم نہ کئے گئے ہوں لیکن’ انڈیپنڈنٹ میڈیا‘ اپنا فرض بخوبی نبھارہا ہے۔ سوشل میڈیا تو سراپا احتجاج ہے۔
سواتی دکشت نامی صارف نے لکھا کہ ’’ الیکٹورل بونڈ پر گودی میڈیا کے ٹویٹس: سمیتا پرکاش صفر، روبیکالیاقت صفر، سدھیر چودھری صفر، امیش دیوگن صفر، انجنا اوم صفر، سشانت سنہا صفر، رجت شرما صفر، چترا ترپاٹھی صفر، دیپک چورسیا صفر۔ کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ بھی راست بالراست الیکٹورل بونڈ گھوٹالے کے مستفیدین ہیں۔ ‘‘اَدوید نامی شخص نے لکھا کہ ’’آپ جو اخبارخریدتے ہیں اگر اس کے صفحہ اول پر الیکٹورل بونڈس کی خبر نہ ہو تو اسے خریدنا بند کردیجئے۔ ‘‘ شیوسینا (ادھو گروپ )لیڈر پرینکا چترویدی نے الیکٹورل بونڈ خریداروں کی ایک لسٹ میں یشودا سپر اسپیشالٹی ( ۱۶۲؍ کروڑ)کا نام دیکھ کر لکھا کہ ’’یقین نہیں کرسکتی کہ اسپتال بھی سیاسی فنڈنگ کررہے ہیں، کیوں یشودا ہاسپٹل، آخر کیوں؟‘‘ فری لانس صحافی سوہت مشرا نے طنز کیا کہ ’’الیکٹورل بونڈ سے گیارہ ہزار۵۸۲؍ کروڑ روپے کمانے والی بی جے پی نے آپ سبھی کو راحت دینے کیلئے پیٹرول ڈیزل میں ۲؍ روپے کم کئے ہیں ، مبارک ہو۔ ‘‘ونود کاپڑی نے لکھا کہ ’’الیکٹورل بونڈس کیس آزاد ہندوستان کا سب سے بڑا گھوٹالہ نظر آ رہا ہے۔ سیاسی پارٹی نے سام دام دنڈ بھید، ہر طریقے سے کاروباریوں سے وصولی کی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں اتنی بڑی لوٹ کی یہ بھیانک مثال ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ یقینی بنانا چاہئے کہ کس سیاسی پارٹی کو کہاں سے، کب، کتنا پیسہ ملا؟اور اس کے عوض میں اس کاروباری کو کیا ملا؟‘‘ منیش سنگھ نے انتخابی چندہ یافتگان کی فہرست شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’حمام میں ننگے تو سب ہیں ، کچھ میں شرم ہے اور کچھ پورے بے شرم۔ ‘‘
کارپوریٹ کمپنیوں کی جانب سے سیاسی پارٹیوں کو جھولی بھر بھرکر انتخابی چندہ دینے پر ساگر نامی صارف نے ایک مِیم شیئر کیا جس میں اپنے ملازمین کو تنخواہ میں اضافے کے نام پر روپیہ اور سیاسی پارٹیوں کو چندے کے نام پر دونوں ہاتھوں سے روپے دیتے ہوئے دکھایا گیا۔ دس سرفہرست چندہ دہندگان میں ’’فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسیز پرائیویٹ لمیٹیڈ‘‘ نامی لاٹری کمپنی سب سے آگے رہی، اس کے چھوٹے سے دفتر کے دروازے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے فضل نامی صارف نے لکھا کہ ’’کیا دیکھ رہا ہے بھائی! ۱۳۰۰؍ کروڑ روپے چندے میں دئیے ہیں میں نے۔ ‘‘
اس ہفتے’سی اے اے‘ کے نفاذ کا موضوع بھی ’ہاٹ ٹاپک‘ تھا، اس پر سوال قائم کرنے والی کانگریس اور ’آپ‘ کے دفاتر کے باہر پاکستانی پناہ گزینوں نے احتجاج کیا۔ اس پر روفل گاندھی ۰ء۲ نے لکھا کہ ’’دہلی کی سڑکوں پر سرکاری دفاتر کے سامنے پاکستانی (پناہ گزیں ) پولیس کی حفاظت میں احتجاج کرسکتے ہیں ، لیکن سیکوریٹی مسائل کے سبب ہندوستانی کسان دہلی کی سرحد پار نہیں کرسکتے۔ ‘‘
قارئین کرام!جاتے جاتے ایک انسان نوازی کا قصہ پڑھتے جائیں ۔ اسے ’مراٹھی مسلمان‘ نامی فیس بک پیج سے شیئر کیا گیا ہے۔ جس میں سنتوش جادھو نے (مہاراشٹر کے ستاراضلع کے) ایک پھل فروش کے متعلق لکھا ہے کہ ’’یہ اسماعیل شیخ نامی نوجوان ہے جو رحمت پور نامی گاؤں سے روزانہ گنیش چوک، ایس بی آئی بینک کے پاس آکر سخت دھوپ میں (پیرو)جام بیچتا ہے، میں اسے بارہا کہہ چکا کہ بھائی جان چھتری تو لے کر جاؤ، وہ صرف ہاں کہتا۔ تصویر میں نظر آنے والی یہ چھتری میں نے اسے آج تحفے میں دی ہے، اس کے چہرے پر جو مسکان آئی، اس سے مجھ کو بہت کچھ مل گیا۔ ‘‘