• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ :’’.... اس میں پولرائزیشن والے سارے شبد ہیں‘‘

Updated: May 26, 2024, 3:40 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

کے نشانے پر دو صاحبان خاص طور پر رہے،  ان میں ایک ہیں  پرشانت کشور اور دوسرے ہیں منوج تیواری۔  دونوں  ہی اپنے انٹرویو کے سبب ہدف تنقید اور مذاق کا موضوع بنے۔

Manoj Tiwari. Photo: INN
منوج تیواری۔ تصویر : آئی این این

 اس ہفتے نیٹیزنس کے نشانے پر دو صاحبان خاص طور پر رہے،  ان میں ایک ہیں  پرشانت کشور اور دوسرے ہیں منوج تیواری۔  دونوں  ہی اپنے انٹرویو کے سبب ہدف تنقید اور مذاق کا موضوع بنے۔  پہلے بات کرتے ہیں ’پولیٹکل اسٹریٹجسٹ‘ سے ’نیتا‘کا روپ دھارن کرنے والے پرشانت کشور کی جو چھٹے مرحلے کی پولنگ کے آتے آتے’جیوتشی‘ بن چکے ہیں۔ وہ انتخابی نتائج کا ’بھوشیہ‘ بتارہے ہیں۔  انہوں  نے کئی ٹی وی چینلوں  کو انٹرویو دیا اور بھاجپا کی جیت کی پیش گوئی کی۔  ان سے کسی نے بھی اس بھوشیہ وانی کی منطق،  جواز،  استدلال پر بازپرس نہیں  کی۔  نتیجتاً پرشانت اور شیر ہوگئے، انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤکرن تھاپر کو انٹرویو دے دیا۔  دی وائر کا یہ انٹرویو ’نیٹیزنس‘  میں   موضوع بحث رہا۔  کیونکہ اس میں  تھاپرصاحب نے پرسکون انداز میں  بے اطمینان کر دینے والے چبھتے سوالات کئے۔  تھاپر نے پرشانت کو ان کی ہماچل الیکشن کی بھوشیہ وانی یاددلادی جو غلط ثابت ہوئی تھی۔  اس پر پرشانت آگ بگولہ گئے،  انہوں  نے تھاپر سے بدتمیزی کی اور ویڈیو ثبوت مانگا۔  تھاپر نے بھی ’تو سیر تو میں سواسیر ‘ کے مصداق مزید سوالات پوچھے۔  پرشانت کا گلا سوکھا اورانہوں نے ایک گلاس پانی پی لیا۔  اب اتنا کچھ ہو تو پھر چار لوگ چار باتیں  تو کریں  گے ہی۔  ایکس پرنگار پروین نے چٹکی کاٹی کہ’’پرشانت کشور جھوٹ بول کر بچنے کی کوشش کررہے تھے لیکن یہ بھول گئے کہ سامنے صاحب کو پانی پلانے والا صحافی بیٹھا ہے....‘‘ پریانشو کشواہا نے لکھا کہ’’دوستی بنے رہے پارٹ ٹو‘‘پیوش ببیلے نے لکھا کہ ’’پرشانت کشور جو حرکت کررہے ہیں اسے بہار میں  تھیترئی اور بندیل کھنڈ میں  دوندنا کہتے ہیں۔  پہلے جھوٹ بولنا اور پکڑے جانے پر ڈھیٹ پن دکھانا۔ ان سب کے چہرے سے نقاب اتررہا ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ :’’جملے بازی میں ہم بھی شامل ہوگئے ...‘‘

خیر ہم آگے بڑھتے ہیں۔  بھوجپوری اسٹار اور بی جے پی لیڈر منوج تیواری کی بات کرتے ہیں۔ منوج آجکل اپنے مختلف بیانات کے سبب ’چرچا‘ میں  ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کا ایک جملہ ٹرینڈکررہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حال کے کچھ انٹرویوز میں منوج روانی میں جواب تو دے گئے لیکن جب خود کو پھنستا ہوا پایا تو کہہ دیاکہ’’تھوڑا میں  اس میں  کنفیوز ہورہا ہوں ‘‘اپورا بھارواج نے ایسی ہی ایک کلپ شیئر کرکے’دبنگ ‘ فلم کا مشہور مکالمہ لکھا کہ ’’منوج کنفیوز ہوگئے ہیں  کہ سانس کہاں  سے لیں اور.....‘‘اس ویڈیو میں  منوج نے رپورٹر سےکہا کہ ’’تیسرے کاریہ کال میں اس چھیتر کے ہر گھر کی قیمت ۳؍گنا کر دیں  گے۔ ‘‘ رپورٹر نے کہا’’یہ تو غلط ہوجائےگا!‘‘ منوج نے کہا ’’کیوں ؟‘‘ رپورٹر نے کہا’’مان لیجئے آپ کے پوروانچل سے لوگ یہاں  (دہلی)آتے ہیں،  وہ تو کبھی گھر ہی نہیں  خرید پائیں  گے‘‘ تو منوج نے کہا کہ’’’’تھوڑا میں  اس میں  کنفیوز ہورہا ہوں ساحل‘‘ رپورٹر نے اگلا سوال کیا’’آپ ۸۰؍کروڑ لوگوں  کو کیا کرتے ہیں ؟‘‘ منوج نے کہا ’’مفت میں  اناج دیتے ہیں ‘‘رپورٹر نے کہا’’۲۵؍ کروڑ  لوگوں  کو آپ نے غریبی کی نچلی سطح سے نکال دیا ہے،  مطلب یہ کہ ’’۱۸۰؍ میں سے ۱۰۵؍کروڑ لوگ اب بھی غربت میں  جی رہے ہیں۔ ‘‘ منوج نے صفائی دینے کی کوشش کی لیکن پھر پھنس گئے، انہیں پھر مجبوراًکہنا پڑا: ’’تھوڑا میں  اس میں  کنفیوز ہورہا ہوں۔ ‘‘ان کی ریلی کا ایک دیگر ویڈیو بھی گردش میں  ہے جس میں گاڑی پر سوار رپورٹر منوج سے پوچھ رہا ہے کہ’’بی جےپی کے کچھ لیڈر آئین بدلنے کی بات کرتے ہیں ‘‘اس پر منوج نےکچھ لمحوں کیلئے توقف کیا اور پھرجواب گول کرکے گاڑی کے ڈرائیور سے مخاطب ہوگئے کہ’’ارے یہ کہاں جارہے ہو؟ روکو اور گاڑی موڑو..‘‘ یہ شیئر کرنے والے راجیش ساہو نے تبصرہ کیا کہ ’’سمودھان بدلنے کی بات بعد میں پہلے گاڑی روکو اور راستہ بدلو‘‘۔  
 وزیراعظم مودی کے انتخابی جلسوں کے بیانات پر کافی ہنگامہ آرائی ہے۔ اس کڑی میں  ایک اور بیان جڑگیا ہے۔  انہوں  نے سنیچر کو ایک جلسے میں  اپوزیشن پر حملہ کرتے ہوئےکہا کہ’’انڈیا الائنس کو اپنے ووٹ بینک کی غلامی کرنی ہے تو کرے،  ان کو وہاں  جاکر مجرا کرنابھی ہے تو کرے،  میں  ایس سی،  ایس ٹی اوبی سی آرکشن کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوں ...‘‘یہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے پوروش شرما نے لکھا کہ ’’چھٹے مرحلے کا نتیجہ‘‘کانگریس لیڈر الکالامبا نے لکھا کہ’’م سے منگل سُوتر،  مچھلی،  مندر،  مسجد،  مٹن کے بعد اب صاحب کےشبدکوش( لغت) سے ’مُجرا‘ نکلا ہے۔  یہ ایسا شبدکوش ہے جس میں فضول(یات) اور پولرائزیشن پیداکرنے والے سارےشبد لکھے ہیں،  لیکن ’مہیلا سرکشا‘،  ’مہنگائی‘ اور ’مُدے‘ غائب ہیں۔ ‘‘ اویشیک گوئل نے لکھا کہ ’’یہی بات اپوزیشن کا کوئی لیڈر کہہ دیتا تو پورا نوئیڈا میڈیا مُجرا کرنے لگتا.....‘‘
 ڈاکٹرمونیکا سنگھ نے شملہ میں  ہوئی بھاجپا کی ایک ریلی کی کلپ شیئر کی اور لکھا کہ’’سچائی بیان کرتا ہوا ایک معصوم اندھ بھکت‘‘ اس ویڈیو میں  ایک صاحب گلے میں بی جے پی کا پٹکا ڈالے کہہ رہے ہیں  کہ’’جب جب مودی آئے ہیں، ہم بہت خوش ہوئے ہیں، ہماری زندگی کا یہ سب سے بڑھیا پَل ہے۔ ‘‘رپورٹر نے پوچھا’’کچھ کام کیا ہے(ایم پی) سریش کمار کشیپ نے؟‘‘ تو وہ صاحب بولے’’ کام کی بات کی جائے تو ہمارے یہاں  یہ ہواہی نہیں۔ ۲۰؍ سال ہوگئے بی جے پی کو آکر...‘‘
  جاتے جاتے ایک اور وائرل ویڈیو کا حال سنتے جائیں۔  دہلی کے ایک پولنگ بوتھ پر ووٹ دینے کیلئے آنے والی ایک دادی کا ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے گردش کررہا ہے،  ان کے ایک ہاتھ میں واکنگ اسٹک ہے اوردوسرا ہاتھ ایک پولیس اہلکار کے کندھے پر ہے،  انہیں  چلنے میں  مشقت ہورہی ہے، سانسیں  پھول رہی ہیں،  لیکن وہ قدم بڑھاتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ ’’مودی.... پہلے اپنا گھر دیکھ لے،  ایسا مت کر،  بچوں  کو نوکری کھول دے۔  راہل گھوم رہا ہے،  کانٹریکٹ لگارکھا ہے۔  نوکریاں  نہیں  ہیں، بچوں  کیلئے نوکری نہیں ہے۔ ‘‘ ووٹ دے کر باہر نکلتے ہوئے بھی انہوں  نے ایسا ہی کچھ کہا۔  اپرنا اگروال نے دادی کا یہ ویڈیو شیئر کیا جس میں کہہ رہی ہیں ’’ڈاکٹر،  ٹیچر ان کو نوکریاں  دلواؤ،  بھکمری ہوگئی ہے۔  کانٹریکٹ ختم کرواؤ۔ ‘‘ دادی کا یہ پیغام کوئی سمجھے نہ سمجھے، ارباب اقتدار کو سمجھناچاہئے۔ کیونکہ یہ دیوانے کی بڑ نہیں  وقت کی پکار ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK