پچھلے ہفتے سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب وہی ہوا جس کا دھڑکا تھا۔ ایران نے اسرائیل پر فضائی حملہ کردیا۔
EPAPER
Updated: April 21, 2024, 3:54 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
پچھلے ہفتے سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب وہی ہوا جس کا دھڑکا تھا۔ ایران نے اسرائیل پر فضائی حملہ کردیا۔
پچھلے ہفتے سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب وہی ہوا جس کا دھڑکا تھا۔ ایران نے اسرائیل پر فضائی حملہ کردیا۔ ۳۵۰؍ سے زائد ڈرون اور راکٹ داغے گئے، جن میں سے بیشتر کو آئرن ڈوم (فضائی حملہ کا پتہ لگاکر اسے ناکام بنانے کا نظام) نے ناکام بنایا۔ کچھ راکٹوں نے اسرائیلی علاقوں کو متاثرکیا۔ بتایا جارہا ہے کہ اسرائیل کو خاصا مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اتنا کچھ ہوجانے کا اثر تھا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا ’گرماگئے‘۔ تبصرے بازیوں کا طویل سلسلہ چل پڑا۔ حملے کے حامیوں کا موقف تھا کہ جو ہوا ٹھیک ہوا۔ ایران نے جرأتمندی دکھائی اور فلسطینیوں کا ساتھ دیا۔ وہیں ایک طبقے کا خیال تھا کہ یہ رسمی کارروائی ہے۔ ایران نے کسی کا بدلہ نہیں لیا بلکہ اس نے دمشق میں اپنے سفارت خانے پر ہونے والے حملے کا جواب دیا ہے۔ امن پسندوں کو یہ فکر ستائے جارہی تھی کہ یہ لڑائی طول پکڑگئی تو کیا ہوگا۔ قابل ذکر ہے کہ سوشل میڈیا کے بہت سے قلمکاروں جنہیں ’لکھاڑوں ‘ بھی لکھ سکتے، کو’کانسپریسی تھیوریز‘ پروسنے کا موقع مل گیا۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں۔ وہاٹس ایپ، ایکس اور فیس بک پر گھمسان کا رن مچا۔ کہیں کہیں تو فریقین اپنی بات منوانے پر ایسے اڑگئے کہ گمان ہوا کہ کہیں ان میں ہی نہ’جنگ‘ چھڑجائے۔ یقیناً ہے آپ کی نظروں سے بھی ایسی پوسٹس گزری ہوں گی۔
جنگ سے یاد آیا کہ ملک بھر میں انتخابی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ لوک سبھا الیکشن کے پہلے مرحلے کے تحت ۱۹؍ اپریل کو ۱۰۲؍ سیٹوں کے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ای وی ایم میں محفوظ ہوگیا ہے۔ شکر ہے کہ انتخابات پرامن رہے، لیکن سوشل میڈیا پر طرح طرح کی شکایتیں دیکھنے کو ملیں۔ کہیں کسی نے الزام لگایا کہ رائے دہندگان کو دستاویز کی جانچ کے نام پر ڈرایا گیا، کہیں کسی نے شکایت کی کہ امیدوار کے نام اور نشان والی ووٹر سلپ دی گئی۔ تشہیری مہم کے متعلق بھی کافی باتیں ہورہی ہیں۔ بی جے پی کے ایکس اکاؤنٹ سے رائے دہندگان کیلئے ایک اپیل کی گئی، جس میں رام مندر کی تصویر کے ساتھ درج تھا کہ’’ ووٹ دینے جارہے ہیں تو یہ ضرور یاد رکھئے گا‘‘۔ اس پر کافی ہنگامہ مچا۔ لوگوں نے الیکشن کمیشن کو ٹیگ کرکے ضابطہ اخلاق کی دہائی دی۔ علی شان جعفری نے ایک مِیم پوسٹ کر کے الیکشن کمیشن کو ٹیگ کیا۔ یہ مِیم ’گینگز آف واسع پور‘ کا مشہور سین ہے جس میں منوج واجپئی ایک کردار کا چہرہ پکڑے کہہ رہے ہیں ’دیکھ.... دیکھ نا‘۔ حیدرآباد سے بی جے پی کی امیدوار کے مادھوی لتا کا ایک ویڈیو وائرل ہوا جس پر کافی تنقید و اعتراض کیا گیا۔ آلٹ نیوز کے محمد زبیر نے لکھا کہ ’’بی جے پی کی حیدرآباد سے امیدوار کومپیلا مادھوی لتا رام نومی کے جلوس میں ایک مسجد کی سمت اشارے سے تیر چلارہی ہیں جبکہ الیکشن کمیشن، الیکشن کمیشن کے ترجمان، چیف الیکٹورل آفیسر تلنگانہ اب تک جاگے نہیں ہیں۔ ‘‘ خبر ہے کہ مادھوی لتا اب صفائی دیتی پھررہی ہیں کہ ان کا یہ اشارہ مسجد کی طرف نہیں تھا۔ اب حقیقت کیا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن لگتا ہے کہ ووٹ کیلئے پارٹی اور امیدوار اسٹنٹ بازی اور بیان بازی سے باز نہیں آئیں گے۔
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ :عامر میاں کی ’ایک سو ساٹھ‘ کی پکار
صاحبان، قدردان! رنگ لوگوں کا بدلے یا لوگو کا، باتیں تو دونوں صورتیں میں ہوتی ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ پچھلے ہفتے دوردرشن کے انگریزی اور ہندی نیوزچینل کے’لوگو‘کا رنگ بدل گیا ہے۔ اس کے سرخ سے زعفرانی ہوجانے پر لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کہیں۔ پرسار بھارتی کے سابق سی ای او، سبکدوش آئی اے ایس افسر اور ٹی ایم سی کے رکن پارلیمان جواہرسرکار نے اسے سب سے زیادہ محسوس کیا۔ انہوں نے ایکس پر لکھا کہ’’قومی براڈ کاسٹر دوردرشن نے اپنے تاریخی لوگو کا رنگ بدل کر زعفرانی کردیا ہے۔ ایک سابق سی ای او کے ناطے میں اس کے بھگواکرن کو فکرمندی سے دیکھ رہا ہوں اور محسوس کررہا ہوں۔ یہ اب پرسار بھارتی نہیں بلکہ پرچار بھارتی بن گیا ہے۔ ‘‘
بیباک صحافی رعنا ایوب نے تبصرہ کیا کہ’’ سب سے بری بات یہ ہے کہ اب ایسی باتیں ہمیں حیران کن نہیں لگتیں۔ ‘‘شکتی مان نامی صارف نے طنز کیا کہ’’ ملک کے سارے نیوز چینلوں کی خبروں کا رنگ ہی بھگوا ہوتا ہے تو دوردرشن کا لوگو کون سی بڑی بات ہے۔ ‘‘ رماکانت سمانترے نے لکھا کہ ’’دوردرشن کا یہ ناقابل قبول اقدام ہے۔ ڈی ڈی نیوز کا لال سے بھگوا ہوجانا تشویشناک ہے۔ اس سے کیا پیغام جاتا ہے؟ بھگواکرن؟‘‘قلمکار اور ٹی وی پرزینٹر اَنربان بھٹا چاریہ نے تبصرہ کیا کہ’’الیکشن سے ٹھیک پہلے دوردرشن کا لوگو بھگوا کردیا گیا، ہم نارتھ کوریا بننے کی راہ پر ہیں۔ ‘‘حسب معمول دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے افراد نے اس اقدام کی حمایت کی۔ ایسی تمام پوسٹس کا متن تقریباً ایک سا تھا، جواز یہی تھا کہ لوگو کا رنگ بدلنا معمول کی بات ہے۔
جاتے جاتے’فیک نیوز‘کی کارستانی سنتے جائیں۔ یہ معاملہ آئی پی ایل سے متعلق ہے۔ کچھ ویب سائٹس نے خبر اڑائی کہ ممبئی انڈینس کے سلامی بلے باز اور سابق کپتان روہت شرما آئندہ سیزن میں کنگز الیون پنجاب کا حصہ بنیں گے۔ افواہ خبر بن کر وائرل ہوگئی۔ بات بڑھتی دیکھ ٹیم کی مالک پریتی زنٹا کو آگے آنا پڑا۔ انہوں نے ایکس پر وضاحت کرتے ہوئے خبررساں اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں بنا تصدیق کے کچھ بھی شائع نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ابھی تک تو ہمارے سامنے فیک نیوز کا ہی مسئلہ تھا لیکن اب ڈیپ فیک بھی ایک سنگین ’سمسیّا‘بنتی جارہی ہے۔ عامر خان کی ایک پرانی ویڈیو کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اسی تناظر میں اداکار رنویر سنگھ نے ایکس پوسٹ کے ذریعہ لوگوں کو مشورہ دیا کہ’’ڈیپ فیک سے بچو دوستوں ‘‘۔ خیر، آپ میں سے جو ڈیپ فیک نہیں جانتے ان کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ اصل تصاویر یا ویڈیو میں کانٹ چھانٹ کرنا اور اے آئی کی مدد سے اس میں اضافہ کردینا ڈیپ فیک کہلاتاہے۔ پرانے وقتوں میں کسی دانشمند نے کہا تھا کہ’’ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی‘‘ اگر وہ آج ڈیپ فیک دیکھتا تو ضرور کہتا کہ ’’ہر دکھائی دینے والی چیز حقیقت نہیں ہوتی۔ ‘‘