• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’وہ آواز جو ہمارے بچپن اور جوانی کی یادوں کا حصہ ہے،چلی گئی!‘‘

Updated: February 25, 2024, 4:03 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

بھنوں اوربھائیوں!سوشل میڈیا راؤنڈاپ کی نئی قسط کیساتھ ہم آپ کے روبرو  ہیں۔ کالم کی شروعات جس فقرہ سے کی گئی ہے اس کا سبب آپ جانتے ہی ہیں۔

 Ameen Sayani. Photo: INN
امین سیانی۔ تصویر : آئی این این

بھنوں اوربھائیوں!سوشل میڈیا راؤنڈاپ کی نئی قسط کیساتھ ہم آپ کے روبرو  ہیں۔ کالم کی شروعات جس فقرہ سے کی گئی ہے اس کا سبب آپ جانتے ہی ہیں۔ اس ہفتے مشہور ریڈیو پرزینٹر امین سیانی دنیا سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے ریڈیو سیلون اور پھر آل انڈیا ریڈیو کے ذریعہ کروڑوں دلوں پرکئی دہائیوں تک راج کیا۔ ان کی مخملی آواز اور منفرد انداز کے لوگ دیوانے تھے۔منگل کو جب ان کے انتقال کی روح فرسا خبر عام ہوئی تو ایک دنیا مغموم ہوئی۔ ایکس، فیس بک  پر تعزیتی پیغامات کا نہ تھمنے والا سلسلہ چل پڑا۔ کسی نے انہیں  ریڈیوکنگ کہا تو کسی نے آواز کا جادوگر۔ معروف اداکار منوج باجپئی نے لکھا کہ ’’امین سیانی جی الوداع! بہت شکریہ ہمارے بچپن کو اپنی آواز اور سنگیت کی دنیا سے سجانے کیلئے۔ ’’بہنوں اور بھائیوں یہ بناکا گیت مالا ہے۔‘‘یہ لائن ہمیشہ کانوں میں رہے گی....‘‘ اشوک کمار پانڈے نے لکھا کہ ’’وہ آواز جو ہمارے بچپن اور جوانی کی یادوں کا حصہ ہے،چلی گئی!آپ کی آواز ہندوستان کی آواز ہے امین سیانی صاحب، آپ چلے گئے لیکن یہ ہمیشہ رہے گی۔‘‘ انوراگ چترویدی نے لکھا کہ ’’بہت کم لوگ لوگوں کو علم ہوگا کہ امین سیانی کے والدین تحریک آزادی اور مہاتما گاندھی کے ساتھ کافی قریب سے جڑے تھے۔ ان کی والدہ کلثوم سیانی ایک ذہین مدیرہ اور متحرک سماجی خدمتگار تھیں۔‘‘ ابھی ملک اس صدمہ سے اُبھرا بھی نہیں تھا کہ اگلے دن سینئر قانون داں فالی ایس نریمان کے انتقال کی خبر آئی۔ اس سانحہ ارتحال پر بھی رنج و غم کا ظہار کیا گیا۔ لیگل اسکالر فیضان مصطفیٰ نے لکھا کہ ’’ملک کے ضمیر کے محافظ فالی ایس نریمان ہمارے درمیان نہیں رہے ،انہوں نے ۱۹۷۵ء میں ایمرجنسی کے نفاذ پر احتجاجاً ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا، سپریم کورٹ پر تنقید کیلئے بھی وہ کبھی نہیں ہچکچائے۔ ان کی رحلت قانون برادری کیلئے عظیم نقصان ہے...‘‘ایم آئی ایم سربراہ بیرسٹراسدالدین اویسی نے لکھا کہ ’’ہندوستان نے ایک بڑا قانون داں کھودیا،اب کوئی دوسرا فالی ایس نریمان نہیں ہوسکتا۔‘‘
 پچھلے ہفتے کی شروعات میں کمل ناتھ کے کانگریس چھوڑنے کی افواہیں زوروں پر تھی۔حال یہ تھا کہ میڈیا کے تیزطراررپورٹر ان کی رہائش گاہ پر زعفرانی جھنڈا لگنے اور نکلنے سے ان کا سیاسی رخ طے کررہے تھے۔ جبکہ سوشل میڈیاکے ’مِیمرس‘ اس معاملے کو ہنسی ٹھٹول میں  اڑا رہے تھے۔’’ گئے گئے ،نہیں گئے ‘‘کی صورتحال کو کلاسک موجیٹو نامی صارف نےایک احتجاج کے منظر سے بیان کیا جس میں ایک شخص کو مظاہرین(جنہیں کانگریس کا نام دیا گیا) بیریکیڈ سےپارکرانے کی کوشش کررہے ہیں وہیں دوسری جانب سے پولیس پارٹی(جنہیں بی جے پی کا نام دیا گیا)  مظاہرین کی طرف دھکیل رہی ہے۔ جتیندر سویرل نے سیاستدانوں  کے ’پالہ بدلی‘ پر یوں تبصرہ کیا کہ ’’سیاست میں کب کون کس کا ہوجائے یہ صرف بھگوان ہی جانتا ہے۔اسلئے سب کے بن کر رہیں، پتہ نہیں کب ضرورت پڑجائے۔‘‘اے زینب لکھتی ہیں کہ ’’کانگریس کو ایک بڑے فیصلے کی ضرورت ہے، اوروہ یہ کہ جس پر بھی شک ہے کہ وہ جاسکتا ہے،اس کو خود ہی  نکالے ۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔‘‘
 صاحبان قدردان !ساغر خیامی کا یہ شعر آپ نے سنا ہی ہوگا ’’نفرتوں کی جنگ میں دیکھو تو کیا کیا کھو گیا /سبزیاں ہندو ہوئیں بکرا مسلماں ہو گیا ‘‘اب تو معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ ریا ہے۔ مغربی بنگال کے ایک چڑیا گھر کا قضیہ ہی لے لیجئے۔ بنگال سفاری پارک میں  موجود ’اکبر‘ نامی شیر اور’سیتا ‘ نامی شیرنی کے ناموں پر ہنگامہ ہوگیا۔ وی ایچ پی نے کولکاتا ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ شیرنی کا نام تبدیل کیا جائے۔ عدالت نے ریاستی انتظامیہ سے بازپرس کی تو بتایا گیاکہ یہ نام تو تریپورہ زواتھاریٹی نے رکھا تھاجہاں سے یہ جوڑا لایا گیا ہے۔ یہ معاملہ سوشل میڈیا گلیاروں میں زیر بحث رہا۔ ایس ایم دیشمکھ نامی صاحب نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’’نام میں کیا رکھا ہے؟ شیکسپیئر کے اس سوال پر بھی سوال ہے۔ اگر نام میں کچھ نہ ہو تا اکبر اور سیتا کے ناموں پر ’’رامائن‘‘ نہ ہوتی۔ پھر کورٹ کو بھی مداخلت نہ کرنی پڑتی۔ مطلب یہ کہ نام میں بہت کچھ ہے۔‘‘پترلیکھا نامی خاتون نے لکھا کہ ’’گجرات کی گیر سینکچوری میں پانچ سو سے زائد شیرجن کے نام اکبر یا سیتا نہیں تھے، پچھلے پانچ سال میں ہلاک ہوگئے۔ افریقہ سے لائے گئے شیر وں کی بھی موت ہوگئی؟ کوئی ان کیلئے آنسو نہیں بہارہا؟‘‘

یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’پہلے ہی موقع میں سرفراز نے دکھا دیا کہ وہ کیا کرسکتے ہیں‘‘

  یوپی میں پولیس بھرتی اور آر او - اے آراو امتحانات میں مبینہ پیپرلیک پرکافی ہنگامہ مچا ہواہے۔ لکھنؤ،آگرہ سمیت کئی شہروں  میں احتجاج کیا گیا۔ اس پر سوشل میڈیا پر بھی  تنقیدیں و تبصرے کئے جارہے ہیں۔راجیش ساہو نے لکھا کہ ’’پولیس بھرتی کاامتحان رد ہونا نوجوانوں کیلئے بڑاسردردہے۔ ایک تو پانچ سال بعد بھرتی کا موقع آیا ، وہ بھی مکمل نہیں ہوا۔اب پھر سے تیاری،بھاگ دوڑ۔وزیراعلیٰ یوگی کی مدت کار میں اب تک ۹؍پیپر لیک ہوئے ہیں،ایک بار دھاندلی اور ایک بار غلط پیپر کی تقسیم ۔ طلبہ کو فقط صاف شفاف امتحان چاہئے۔‘‘پربھاکر مشرا نے معنی خبر تبصرہ کیا کہ ’’ہوسکتا ہے اب ان نوجوانوں کی پروفائل فوٹو اور رِنگ ٹون بدل جائے۔‘‘ لکھنؤ میں ایک دل شکستہ امیدوارنے کسی میڈیا چینل کو بیان دیا کہ ’’رام راجیہ کی بات کرتے ہیں، ایودھیا سے آیا ہوں،ایک سال سے امتحان کی تیاری کررہا ہوں، کب صبح ہورہی ہے کب شام ہورہی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ آج تک دال فرائی کرکے نہیں کھایا ہوں۔ نمک ڈال دیا، ہلدی ڈال دیا اور کھالیا۔ ایک ہی سپنا تھا کہ وردی لوں گا۔اب کیا منہ لے کر گھر جاؤں، زندگی ایک دم خراب ہوگئی ہے...‘‘دیپک لامبا نے مذکورہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’یہ سن کر کلیجہ ہل رہا ہے، سوچ کر دیکھئے جس کے گھر دال فرائی نہیں ہوپارہی ہے، ایسے بچوں  کے گھر والے کیسے زندگی کاٹتے ہوں گے؟‘‘ 
 جائزہ کیلئے اب چار سطریں ہی رہ گئی ہیں اور بچے کچھے موضوعات  ہاتھ دھرے ٹھوڑی ٹکائے  منتظر ہیں کہ انہیں بھی اس کالم میں جگہ مل جائے۔ ہمارے پاس ان کیلئے ایک ہی جواب ہے، وہی مشہورmeme’’اگرہم کریں تو کریں کیا، بولے تو بولیں کیا؟‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK