• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

متحد، منظم اور بیداررہیں کیوں کہ اِن دنوں ملک کےسارے تعلیمی اورتربیتی اِدارےفرقہ پرستوں کی زد پرہیں

Updated: August 12, 2024, 5:21 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

سِول سروسیز یعنی یو پی ایس سی کے بعد موجودہ غیر دُور اندیش اور فرقہ پرست حکومت کی زد میں جو دوسرا اِدارہ آچکا ہے، وہ ہے: پلاننگ کمیشن۔

This government institution is also a guest for a few days now. Photo: INN
یہ سرکاری ادارہ بھی اب بس کچھ دنوں کا مہمان ہے۔ تصویر : آئی این این

سِول سروسیز یعنی یو پی ایس سی کے بعد موجودہ غیر دُور اندیش اور فرقہ پرست حکومت کی زد میں جو دوسرا اِدارہ آچکا ہے، وہ ہے: پلاننگ کمیشن۔ ۱۵؍مارچ ۱۹۵۰ء کو قائم اس اِدارے کو موجودہ حکومت نے کسی سے کوئی رائے طلب کے بغیر تحلیل کر دی اور اس کی جگہ پر ایک نیا اِدارہ ’نیتی آیوگ‘ تشکیل دیا۔ ایسا کرنے کی واحد وجہ ہمیں یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس کا نام بدلنا تھا۔ موجودہ حکومت پر یہ خبط سوار ہے کہ مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کے قائم کئے گئے تمام اِداروں کو ساورکر، دین دیال اپادھیائے اور شیاما پرساد مکھر جی وغیرہ سے منسوب کیا جائے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پلاننگ کمیشن کو سنجیدہ طبقہ ہمیشہ ایک باوقار ادارہ سمجھتا رہا ہے لہٰذا اس میں الیکشن کے ’بلبلے‘ اور ’غبّاروں ‘کی کوئی گنجائش نہیں تھی البتہ موجودہ حکومت کی ’نیتی آیوگ‘ میں جن اسکیموں کو شامل کیا گیاہے وہ ملاحظہ کیجئے: ڈیجیٹل انڈیا، ۷؍سالہ ویژن، ۱۵؍سالہ روڈ میپ، سووچھ بھارت ابھیان اور اِسکِل ڈیولپمنٹ وغیرہ۔ اس اِدارے کے اغراض و مقاصد کو بیان کرنے کے لئے ایسے ایسے بھاری بھر کم اور ثقیل الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے کہ ہم بھی چکرا گئے کہ آخرپکوڑے بیچنے کا مشورہ دینے والی سرکار کے پاس اس قدر فہم و ادراک کہاں سے آگیا؟ پر دھان سیوک نے اپنے نئے ادارے ’نیتی آیوگ‘ کی ایک ’خوبی‘ یہ بھی گِنائی کہ اس کے ذریعے دنیا کے اہم افراد کو مختلف موضوعات پر لیکچر دینے کیلئے مدعو کیا جائے گا۔ انہیں لگا کہ یہ کوئی بہت بڑی تحقیق ہے کہ ان کی ’من کی بات‘ کی طرح اب ’جگ کی بات‘ بھی ہو جایا کرے۔ انہیں اُن کے مشیران میں سے کسی نے یہ تک نہیں بتایا کہ اس ملک کے درجنوں چیمبر آف کامرس دنیا بھر کے اہم ترین مقررین ومفکرین کو ہمیشہ مدعو کرتے رہتے ہیں، اس میں نئی بات کیا ہے؟ 

یہ بھی پڑھئے:کیا اب سول سروسیز میں تقرری کا عمل بھی تہہ و بالا کیا جائے گا؟

دوسرا اِدارہ جس کو سنگھ پریواری حکومت ختم کرنا چاہتا ہے وہ ہے: یو نیورسٹی گرانٹس کمیشن۔ حکومت یہ کہتی ہے کہ اب اس کا نام ہائر ایجوکیشن کمیشن آف انڈیا ہوگا۔ در اصل اب سے قبل یو جی سی کی پالیسی سازی میں دانشوروں اور ماہرینِ تعلیم کا بھی عمل دخل ہوا کرتا تھا اب یہ اِدارہ وزارت انسانی وسائل فروغ کے راست ما تحت ہوگا یعنی اب اس کا بھی بھگوا کرن ہوجائے گا! یو جی سی کو ختم کرنے کا ایک واضح مقصد اعلیٰ تعلیمی اداروں کو تجارتی منڈی میں تبدیل کرنا بھی ہے۔ یہ تبدیلی اس حد تک ہوسکتی ہے کہ اگر کسی کورس کی فیس دس ہزار روپے سالانہ ہے تو اسے سیدھے ایک لاکھ روپے کر دینا ہے تا کہ کوئی غریب طالب علم اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخل ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہ پائے۔ 
تعلیمی محاذ پر آج کس قدر سنجیدگی برتی جاتی ہے، اُس کا اندازہ اس بات سے کرلیجئے کہ پردھان سیوک سمیت کئی وزراء کی اپنی ڈگریاں بھی مشکوک رہی ہیں۔ ان سب کے نتیجے میں آج ۱۴۰؍کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں تعلیمی محاذ پر صورتِ حال بے حد ابتر ہے۔ معاشی محاذ پر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے ذریعے جو کہرام برپا ہے وہ دکھائی دے رہا ہے البتہ آج تعلیمی نظام تو آئی سی یو میں چلا گیا ہے اور اس ملک کے ہرباخبر شہری کو اس کا بھرپور احساس ہو چکا ہے۔ ملاحظہ کیجئے اِن پانچ برسوں میں تعلیمی نظام کی صورت حال کو :
(۱)’جھوٹ کا پھیلاؤ‘ موجودہ حکومت کی یہ واحد پالیسی جب سامنے آئی تو صرف سنگھ پریواری ذہنیت کے ماہرین ہی اس حکومت کے ساتھ دکھائی دینے لگے لہٰذا انتہائی قابل نیوکلیائی سائنس داں انیل کا کوڈ کر اور دہلی آئی آئی ٹی کے ڈائرکٹر رگھوناتھ سیو گاؤ کر جیسے لائق ماہرین تعلیم نے استعفیٰ دینے میں اپنی عافیت سمجھی۔ اس صورت حال کا حکومت کو ذرّہ برابر تاسف تک نہیں اور کیوں کر ہوتا ؟ جو حکومت اپنے پہلے ۵؍برسوں میں ایک بارہویں پاس ٹی وی اداکارہ کو ملک بھر کے سارے ریسرچ اسکالر اور محققین کا سر براہ بنادے اُس حکومت سے کیا اُمّید کی جاسکتی ہے۔ 
(۲) ’و کاس‘ یعنی ترقی کا دعویٰ کرنے والی یہ حکومت ان دس برسوں میں تعلیم کا بجٹ ہرسال کم کرتی گئی اور یہ کمی کچھ اس حد تک کردی گئی کہ ۲۵۔ ۲۰۲۴ء کیلئے اسے تعلیم کی مدمیں معمولی اضافہ کرنا پڑا۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کابجٹ ۹۳۰۰؍ کروڑ سے گھٹا کر صرف ۲۹۰۰؍ کروڑ روپے کر دیا۔ سرو شکشا ابھیان کیلئے ۵۵؍ ہزار کروڑ کی مانگ تھی لیکن اُس کی صرف نصف رقم ہی منظور کی گئی۔ 

یہ بھی پڑھئے:’’مغل انتظامیہ کے تحت مندروں کو حکومت کا تحفظ حاصل تھا اور دیکھ بھال میں تعاون بھی‘‘

(۳) آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہےجب حکومت کا ریسرچ اسکالروں پر عتاب نازل ہوا ہے۔ دراصل حکومت نے اِرادہ کیا ہے کہ ایم فل کو دیئے جانے والا ماہانہ ۵؍ہزار روپے اور پی ایچ ڈی کو دیا جانے والا ماہانہ ۸؍ہزار روپے کا مشاہیرہ بند کر دیا جائے۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیمی اداروں کو دی جانے والی سرکاری مدد ( سود سمیت ) قرض کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ حال ہی میں مرکزی حکومت نے آئی آئی ٹی کو۲۰۶۶؍ کروڑ روپے کا قرض منظور کیا ہے۔ اس کا سُود طلبہ سے وصول کیا جانے کا منصوبہ ہے لہٰذا آئی آئی ٹی کے طالب علم کی سالانہ فیس۹۰؍ ہزار سے بڑھا کر سیدھے دولاکھ روپے کر دی گئی تا کہ طالب علم کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر حکومت کیلئے سود وصول کرے۔ 
(۴) صرف مرکزی حکومت نہیں بلکہ حکمراں پارٹی کی جن ریاستوں میں حکومتیں ہیں، وہاں پر بھی حال بہت بُرا ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ حکومت کے ۱۵؍ ہزار اسکولوں کو عمل بند کر دے گی کیونکہ حکومت کیلئے وہ گھاٹے کا سودا ہے۔ مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت نے ۱۳۹۰۰؍ اسکولوں کی لسٹ تیار کر لی ہے کہ اُن اسکولوں کو موقع ملتے ہی بند کیا جائے گا کیونکہ اُن کے اساتذہ کوتنخواہ دینے کے لئے حکومت کی تجوری میں پیسہ نہیں ہے۔ 
(۵)یو نیورسٹی گرانٹس کمیشن میں کل ۷۱۰۶؍پوزیشن میں ۶۰۰۰؍ جگہیں خالی ہیں۔ حکومت کے پاس فنڈ نہیں ہے اسلئے ان خالی جگہوں کے اشتہار دینے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ اس بناء پر حکومت نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو آزاد کرنا شروع کیا ہے یعنی ۶۰؍ سے زائد نجی اداروں کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ اب وہ ادارے اپنے ’دُکھ سکھ‘ کے ذمہ دار ہوں گے یعنی اُنہیں بے تحاشہ فیس لینے کا بھی حق ہوگا۔ اس کا مطلب ہوگا کہ انہیں اپنا خود کا امتحان منعقد کرنے اور اپنی ڈگریاں دینے وغیرہ کی پوری آزادی ہوگی۔ 
(۶) پسماند ہ اقوام کے طلبہ کے اقامتی اسکولوں پر بھی اب بجلی گری ہے کیونکہ۸؍ ہزار کروڑ سے زیادہ کی رقم اِن اداروں اور قیام گاہوں کو ادا نہیں ہوئی ہے۔ یہ حکومت اقلیتوں کی اسکالرشپ سے بھی جی چُرا رہی ہے۔ اس ضمن میں قوانین کچھ اس قدر سخت کئے گئے ہیں کہ نصف سے زائد رقم حکومت کی تجوری میں واپس چلی جائے۔ 
(۷)اس حکومت کے دَور میں ایک اور دلچسپ واقعہ ہوا۔ حکومت نے اپنی پسند کے دس اعلیٰ تعلیمی اداروں کو’ بہترین‘ ادارے قرار دیا۔ اُن میں سے ایک ادارہ وہ بھی ہے جو موجودہ حکومت کے نور نظر ایک بڑے صنعت کار نے بنانے کا صرف اعلان کیا ہے حالانکہ وہ ادارہ ابھی وجود میں نہیں آیا، ابھی تک اُس کے پاس زمین تک نہیں ہے مگر حکومت نے اُسے’بہترین ادارہ‘ قرار دے دیا ہے۔ 
(۸) اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی کوئی بھی ترقی اس زعفرانی حکومت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی لہٰذا اُس نے مرکز کا ایک بڑا اقلیتی ادارہ مولانا آزاد ایجوکیشن فائونڈیشن کو تحلیل کردیا تاکہ مسلمان اپنے تعلیمی ادارے قائم نہ کرپائیں اور پہلے ہی سے قائم شدہ اقلیتی تعلیمی اداروں کی پیش رفت مکمل طورپر رُک جائے۔ کیا یہ بھی لنچنگ کی ایک شکل نہیں ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK