• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کیا اب سول سروسیز میں تقرری کا عمل بھی تہہ و بالا کیا جائے گا؟

Updated: August 04, 2024, 5:38 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے اقتدار پر قابض موجودہ حکومت کے اقتدار میں آ تے ہیکچھ باتوں کا اندازہ ہوگیا تھا۔

The method of selection of officers by UPSC is proper, it should be maintained. Photo: INN
یوپی ایس سی کے ذریعہ افسران کے انتخاب کا طریقہ مناسب ہے، اسے بحال رہنا چاہئے۔ تصویر : آئی این این

ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے اقتدار پر قابض موجودہ حکومت کے اقتدار میں آ تے ہیکچھ باتوں کا اندازہ ہوگیا تھا۔ جیسے یہ کہ یہ لوگ (الف) آئین کی دفعہ ۲۹؍ اور۳۰؍ پر حملہ کریں گے جس کی روسے اس ملک کی اقلیتیں اپنے کردار کے تعلیمی ادارے قائم کر سکتی ہیں (ب) پرائمری اسکول سے لے کر پوسٹ گریجویٹ تک کے نصاب کا بھگوا کرن کریں گے (ج) این سی ای آرٹی، یوپی ایس سی، اسٹاف سلیکشن کمیشن اور ہیومن ریسورسیز جیسے دیگر بنیادی شعبوں پر منظم طریقے سے شب خون مارا جائے گا۔ اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ گنجوں کو ناخن مل گئے تو وہ ساری حدیں پار کردیں گے.... اور وہی ہوا۔ آج کے حالات کی تاریخ جب کبھی لکھی جائے گی تو یہ بات بھی لکھی جائے گی ہے کس طرح ایمر جنسی کے اعلان کے بغیر سارے میڈیا پر دہشت طاری کردی گئی تھی۔ 
سنگھ پریواری مفکرین برسہا برس سے اپنا ہوم ورک کر رہے تھے لہٰذا انھوں نے نصابی کتابوں میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے اور سِوِل سروسیز میں اپنے پکے اور کمیٹیڈ نو جوانوں کو داخل کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا اور اس کیلئے دن رات ایک کردیا۔ اس حکومت نے اپنے گزشتہ ٹرم ہی میں یہ اعلان کردیا تھا اور اس کیلئے اخبارات میں اشتہارات بھی دیئے گئے تھے کہ اب ملک کے دس شعبوں میں جوائنٹ سیکریٹری، ڈائریکٹر اور ڈپٹی سیکریٹری کے عہدے پر جو تقرریاں ہوں گی، اس کیلئے پبلک سروِس امتحان کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس اعلان پر بیدار مغز افرادا ور اداروں نے سخت احتجاج بھی کیا تھا۔ ۲۰۲۴ء کا عام الیکشن حالانکہ زعفرانی ٹولہ ہار چکا ہے لیکن جوڑ توڑ کی مدد سے وہ ایک بار پھر مرکز پر قابض ہوگیا ہے۔ ایسے میں اپنا زعفرانی ایجنڈا پائےتکمیل تک پہنچانے کا جنون اس ٹولے پر اس قدر سوار ہے کہ ہر جمہوری ادارے کو اپنی مرضی سے چلانے کی پوری پوری کوشش کی جارہی ہے۔ اس ملک میں سِوِل سروسیز کے نظم پر منظم ڈاکہ ڈالنے کا منصوبہ تیار ہے۔ اسی حوالے سے موجودہ حکومت سے ہم کچھ سوالات پوچھناچاہتے ہیں :
(۱) یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحان اور اس کے ذریعے منتخب ہونے والے ٹیلنٹ پر برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو بھی اعتبار تھا۔ اُس وقت برطانیہ بُلاکر کمپنی کے انتہائی قابل و ذہین بورڈ آف ڈائرکٹرس جب ہندوستانیوں کے انٹرویو لیتے تھے تب ان کی ذہانت و قابلیت کا اعتراف کر کے آئی سی ایس کی سندد یا کرتے تھے۔ اب سَنگھ پریوار کو ہندوستانی ٹیلنٹ پر بھروسہ نہیں رہا یا اس پر یوار نے قابلیت کو ناپنے کا اپنا کوئی دوسرا پیمانہ مقرر کرلیا ہے ؟ اور یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ’پیمانہ‘ ناگپور میں ایجاد وہوا ہے۔ 
(۲) ہم یہ مانتے ہیں کہ سِوِل سروسیز کے امتحان میں کامیاب ہونے والے افراد سے بھی زیادہ قابل افراد ملک میں موجود ہیں مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایسے افراد کو حکومت بطور مشیر استعمال کیوں نہیں کرتی؟ وہ سارے قابل اور ذہین افراد یقیناً اپنی منہ مانگی قیمت پر حکومت کو مشورے دیں گے لیکن وہ حکومت کی پالیسیاں کیوں کر مرتّب کر سکتے ہیں ؟ دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ ہر شعبے کے ماہرین کی مجلسِ مشاورت تشکیل دے کر وہ مجلسِ عاملہ کو اپنے تمام مشورے اور سجھائو دیتی ہے البتہ ہر ملک میں سِوِل سروسیز کے ذریعے منتخب افراد ہی پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: مُلک کے تعلیمی اور امتحانی نظام میں شفافیت لانے کیلئےعدلیہ کا کردار

(۳) حکومتِ وقت کی نیّت پر ہمیں شک اسلئے بھی ہے کہ وہ لیٹرل اینٹری سے منتخب افراد کو سیکریٹری کے درجہ پر مقرر کیوں نہیں کرتی؟ انھیں سیدھے جوائنٹ سیکریٹری کیوں بنانا چاہتی ہے؟ کیا وہ نہیں جانتی کہ جوائنٹ سکریٹری جو پالیسیاں بناتے ہیں، وہ سیدھے قانون کی شکل اختیار کرتے ہیں ؟ وہ یقیناً جانتے ہیں اور سچائی یہ ہے کہ وہ یہی چاہتے ہیں۔ 
(۴) گزشتہ دہائی کے ریکارڈ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے یقین ہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت یہ صرف جھانسا دے رہی ہے کہ وہ لیٹرل اینٹری سے انتہائی قابل افراد کا تقرر کرنے والی ہے۔ دراصل وہ یہ چاہتی ہے کہ انتہائی ’قابل‘ افراد صرف سَنگھ پریوار ہی سے منتخب کئے جائیں۔ سنگھ پریوار نے ایسے ہی افراد کو چُن چُن کر مرکزی کابینہ میں بھیجا ہے جن کی کوالیفکیشن صرف ایک ہی تھی کہ وہ مسلمانوں کی دل آزاری کر سکتے ہیں بلکہ اُن کا جینا مشکل کرسکتے ہیں۔ ہمیں کچھ تعجب نہیں ہوگا اگر لنچنگ کے ماہر گئورکشکوں کو حکومت جو ائنٹ سکریٹری کے کلیدی عہدے پر مقرر کردے۔ 
(۵) ہمیں علم ہے کہ اس سے قبل لیٹرل اینٹری سے قابل افراد جیسے منموہن سنگھ، سیمپیٹروڈا، اہلو والیہ، بندن، شری دھرن اور ہردیپ پوری کو مشاورتی کونسل میں داخلہ دیا گیا مگر وہ سارے کے سارے غیر سیاسی افراد تھے جنھوں نے اپنی فیلڈ سے متعلق ہی کام کیا اور حکومت کے اُمور میں کوئی دخل اندازی نہیں کی لیکن موجودہ حکومت سے ایسی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس کا ٹریک ریکارڈ دیکھنے کے بعد اس طرح کے خدشات ہیں کہ زراعتی منسٹری کا جوائنٹ سیکریٹری اُس ’بابا‘ کو مقرر کردیا جائے جو اس حکومت کے دَور میں جڑی بوٹیاں بیچ بیچ کر ارب پتی بن گیا ہے یا معاشی معاملات کا مشیر بیسیوں ڈوبتے بینکوں کے چیئر مین کو بنادیا جائے۔ سائنسی اُمور کیلئے اس منسٹرکو منتخب کیا جائے جس نے کہا تھا کہ پہلی پلاسٹک سرجری کسی دیوتا کو ہاتھی کو سونڈ پیوند کرنا تھا یا ما حولیات پر مشیر اُس ’روحانی‘ گُروکو بنادیا جائے جن پر ماحولیات کو نقصان پہنچانے کیلئے سپریم کورٹ نے پانچ کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا اور جنھوں نے بڑی ڈھٹائی سے وہ جرمانہ ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 
(۶) حکومت ان اہم شعبوں میں چور دروازے سے جوائنٹ سیکریٹریوں کی تقرری پرائیویٹ سیکٹر کمپنیوں کے تجربہ کار افراد کا کرنا چاہتی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ کھرب پتی افراد کی مٹھی بھر کمپنیوں کو اس سے براہِ راست فائدہ پہنچانا ہے۔ ہر کمپنی والا اپنے ماہر بلکہ انتہائی شاطر شخص کو جوائنٹ سیکریٹری بنانے کیلئے بیتاب ہوگا، چاہے یہ تقرری پھر بلیک مارکیٹ میں فی تقرری ایک آدھ ہزار کروڑ روپے سے طے ہو کیوں کہ اس طرح کارپوریٹ کے اُس شخص کی حکومت کی ہر فائل تک پہنچ ہوگی۔ عموماً کارپوریٹ کمپنیاں جاسوسوں کے ذریعے ڈرتے ڈرتے حکومت کے راز حاصل کرتی تھیں، اب تو ان کا جاسوس جوائنٹ سیکریٹری کا لیبل لئے ساری فائلوں کے موبائیل کے ذریعے دن دہاڑے تصویریں لے گا اور پلک جھپکتے ہی اپنی کمپنی کو بھیجتا رہے گا۔ اگر کوئی کارپوریٹ ہاؤس ایک ہزار کروڑ کی رشوت کے ذریعے بھی اپنا نمائندہ جوائنٹ سیکریٹری کے طور پر تقرر کرانے میں کامیاب رہا تب بھی اُس کمپنی کو ایک لاکھ کروڑ کے سارے راز حاصل کرنے میں کامیابی ہو گی اور پھر ان کے خلاف انکوائری کمیشن مقرر ہوگا مگر تب تک وہ سارے جوائنٹ سیکریٹریز کسی بیرونی ملک میں پناہ لے چکے ہوں گے۔ 
(۷) جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے پر تقرری کیلئے پی ایچ ڈی ضروری ہے۔ اس ملک میں سَنگھ پریوار کی سر پرستی میں درجنوں یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ ایسے میں اُن یونیورسٹیوں سے اپنے کیڈر کیلئے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرنا کون سا مشکل کام ہے؟ 
(۸) سِوِل سروس کیلئے اب تک کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ امیدواروں کو پریلیمنری، مین اور انٹرویو کے ذریعے منتخب کیا جائے اور ریاستی پبلک سروس کے ذریعے ایک تہائی افراد کا انتخاب ہوگا۔ آج ملک بھر میں دس ہزار آئی اے ایس افسران کی ضرورت ہے، لیکن صرف ساڑھے چھ ہزار ہی کاانتخاب کیا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ؟ ان دونوں لیول پر ذہین اور قابل افراد دستیاب ہیں پھر یہ چور دروازہ کھولنے کیلئے حکومت کیوں بے تاب ہے؟
اس دھاندلی پر ہر شخص کو، طالب علم، والدین، اسا تذہ اور تعلیمی اداروں کو تحریر، تقریر، دھرنا، بند اورمورچہ و غیرہ کے ذریعے احتجاج کرنا ہے کیوں کہ ملک کی پالیسیاں مرتّب کرنے والے افراد کے براہِ راست انتخاب سے اس ملک کی لگ بھگ ہر پالیسی متاثر ہوگی جس میں مساوات اور سیکولرزم کی بنیادی پالیسی بھی شامل ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK