غیرمسلم اداروں کے تحت جاری اسکولوں میں اسلامی عقائد کی فکر نہیں کی جاتی۔ ان اسکولوں میں پڑھنے والے اور عام طلبہ کے لئے بھی تعطیلات ایسا بہترین موقع ہے جب وہ دینی احکام سیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ والدین کو اس جانب خصوصی توجہ دینا چاہئے۔
EPAPER
Updated: May 03, 2024, 1:45 PM IST | Dr Mufti Tanzim Alam Qasmi | Mumbai
غیرمسلم اداروں کے تحت جاری اسکولوں میں اسلامی عقائد کی فکر نہیں کی جاتی۔ ان اسکولوں میں پڑھنے والے اور عام طلبہ کے لئے بھی تعطیلات ایسا بہترین موقع ہے جب وہ دینی احکام سیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ والدین کو اس جانب خصوصی توجہ دینا چاہئے۔
انگریزی تاریخ کے اعتبار سے مئی ایسا مہینہ ہے، جس میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں گرمائی تعطیلات کے نام سے تقریباً ڈیڑھ مہینے چھٹی دی جاتی ہے۔ اکثر طلبہ اس طویل تعطیلی ایام کو بے مقصد گزار دیتے ہیں، زیادہ سے زیادہ اپنے دوست واحباب، رشتہ داروں یا سرپرستوں کے ساتھ سیر وتفریح کا پروگرام بنایاجاتا ہے، مشہور مقامات کو دیکھنے، اورتقریبات میں شرکت کرنے نیز کھیل کود کے ذریعے ذہنی آسودگی حاصل کی جاتی ہے۔ کوشش رہتی ہے کہ پورے سال تعلیمی نظام کی پابندی سے دل ودماغ پر جو تھکاوٹ ہے وہ کافور ہوجائے اور آئندہ سال تازہ دم ہو کر علمی سفرکا آغاز کرنے کے لائق ہوسکے۔ اسی پروگرام کی ترتیب اور اس کی انجام دہی میں یہ طویل مدت گزر جاتی ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا۔
ان ہی باتوں کے پیش نظر ہمارے بزرگوں نے سر پرستوں کو ہدایت دی ہے کہ گرمائی تعطیلات میں اپنے بچوں کے دین واخلاق کو بہتر بنانے کی سعی کریں، صاحبِ حیثیت افراد خود اپنے گھروں میں ایسے علماء اور مربی کا انتظام کریں جو بہتر اور مخلصانہ انداز میں ان کی تربیت کرسکیں ورنہ بعض ملی ودینی اداروں کی جانب سے اجتماعی طور پر تربیتی کیمپوں میں انہیں شریک کرائیں۔ اس سے طلبہ کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی معرفت حاصل ہوگی، ضروری حد تک اسلامی طور طریقے اور اس کے اصول وآئین سے واقف ہوں گے۔
یہ بھی پڑھئے: ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگوں کو نماز پڑھانے کے لئے امام نہیں ملےگا
مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا سرمایہ ایمان اور عمل صالح ہے۔ ایک شخص اگر انجینئر، ڈاکٹر اور پروفیسر ہوجائے یا اپنی دنیوی محنت کے نتیجے میں اچھے عہدے کا مالک بن جائےلیکن وہ اسلامی تعلیمات اور ضروری احکام سے ناواقف ہو، انبیاء، صحابۂ کرام، خلفائے راشدین اور بزرگوں کی سیرت کو وہ نہ جانتا ہو تو ایسے علم اور عہدے کا کیا حاصل؟دنیا کی چند بہاریں دیکھنے کے بعد آخرت کی زندگی شروع ہوگی تو وہ ناکام اور نامراد ہوگا ؛ حالاں کہ یہی ابدی زندگی ہے۔ بلاشبہ دنیوی علوم و فنون اور عصری تعلیم جائز ہی نہیں ؛ بلکہ اس کا سیکھنا حالات کا اہم تقاضا ہے تاہم یاد رکھنا چاہئے کہ ایک مسلمان پر سب سے پہلے ایسی تعلیم کا حصول لازم ہے، جو بندوں کو خدا سے مربوط کرسکے اور دین اسلام سے اجنبیت ختم ہو۔ قرآن کریم میں جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ یہ تھی’’پڑھئے اپنے اس رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ ‘‘(العلق :۱) پیدا کرنا اور پھرساری نعمتوں سے نوازنا یہ عظیم احسان ہے جو سارے احسانات سے برتر ہے لہٰذا جس خدانے یہ احسان کیا ہے، سب سے پہلے اس کو راضی کرنے والی تعلیم حاصل کی جائے تاکہ بعد میں دنیوی علوم وفنون اور علو مراتب سے ایمان وعقائد میں کوئی فرق نہ آسکے۔ اگر بچپن میں اس کا انتظام نہ ہوا، یا غفلت کے سبب اس کی طرف توجہ نہ کی گئی تو جب بھی اس کا موقع ملے فوری طور پر اس کا نظم کیا جانا چاہئے۔
والدین اور سرپرستوں کو چاہئے کہ اپنی اولاد کے ایمان وعقائد، دین واخلاق اور ان کے اسلامی تشخص کی بقاء کی فکر کریں۔ یہ فکر دنیا اور اس کے اسباب ووسائل کی فکر پر غالب رہنی چاہئے کہ یہی دنیا وآخرت میں سرخروئی اور حقیقی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ جس طرح ایک شخص اپنی اولاد کے مستقبل کے بارے میں ترقیاتی پروگرام ترتیب دیتا ہے اوراس کی تکمیل کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے تاکہ اس کے بعد بچے راحت کی زندگی گزار سکیں، ٹھیک اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ اپنی اولاد کے ایمان کی بقاء اور دین و اخلاق سے متعلق سوچنا چاہئے کہ ان کے بعد ان کی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کس طرح کی جائے۔ قیامت میں باپ سے اولاد کے متعلق سوال کیا جائے گاکہ تم نے بچوں کو کیا تعلیم دی اورکیسا ادب سکھایا؟ہر ماں باپ سے اولاد کے ایمان وعقائد کے بارے میں پوچھا جائے گا، اس لئے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا، علم دین سکھانا اور اسلامی آداب سے مزین کرنا بہت ضروری ہے۔ جس نے اپنی اولاد کو ادب سکھایا، اسلامی تہذیب اور اسلامی تعلیمات سے آراستہ کیا اس نے گویا ان کو لازوال نعمت عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ’’والدین کا بہترین عطیہ اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت ہے۔ ‘‘
قرآن نے مسلمانوں کو اپنے ساتھ اپنے کنبہ اور گھر والوں کو بھی آگ کے ایندھن سے بچانے کی فکر پیدا کرنے کی تلقین کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اے ایمان والو!تم اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ ‘‘ (التحریم:۶)
یہ حقیقت ہے کہ آج (غیرمسلم) عصری درسگاہوں میں دین واخلاق کی تعلیم نہیں ہے جس کے سبب ان اداروں میں پڑھنے والے مسلم طلبہ اسلام کے بنیادی احکام اور ابتدائی تعلیمات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں خواہ وہ کسی کلاس میں پڑھتے ہوں اسلئے ایسے اداروں میں پڑھنے والے بچوں کیلئے دینی تعلیم کا انتظام والدین اور سرپرستوں کو ہی کرناہوگا۔ اسی کے ساتھ مختلف جماعتوں، تنظیموں اور سماجی ادارو ں کی جانب سے بھی اس کا نظم کیاجاناچاہئے۔ گرمائی تعطیلات میں طلبہ کو دین واخلاق، اسلامی تہذیب وتاریخ سے روشناش کرانے کی اجتماعی یا انفرادی جو بھی کوششیں ہوں، لائق تحسین اور قابل قدر ہیں۔ اس سے بہتر سماج کی تشکیل میں کافی مدد ملے گی کیوں کہ یہی نوجوان اور طلبہ مستقبل کے قائد اور معمار ہیں۔ جس ذہنیت کے ساتھ ان کی پرورش اور تربیت کی جائے گی مستقبل میں وہی تاریخ کا اہم باب ہوگا۔