• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

والدین کیلئے لڑکوں کی فطرت اور اُن میں ترجیحات کی لاعلمی کو سمجھنا ضروری ہے

Updated: June 23, 2024, 1:45 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

اگر آپ کے بیٹے آپ کا کہا نہیں مانتے اور دوستوں کی بات سنتے ہیں تو آپ اپنے بچوں کے دوست بن جائیں،مسئلہ حل ہو جائے گا۔

Children benefit less from mobile, ruin their future more. Photo: INN
موبائل سے بچے فائدہ کم اٹھاتے ہیں، اپنا مستقبل زیادہ برباد کرتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

بیٹوں کا ذہن بھٹکتا ہے، بیٹیوں کا نہیں، ایسا کیوں ؟
لڑکی اپنے گھر سے جب اسکول جاتی ہے، وہ دائیں دیکھتی ہے نہ بائیں۔ لڑکوں کے برعکس وہ بالکل سیدھی چلی جاتی ہے لہٰذا اس کا ذہن نہیں بھٹکتا۔ وہ اپنی آنکھیں اُس وقت اوپر کرتی ہے جب اسکول کی عمارت اُسے نظر آتی ہے۔ اسکول سے گھر لوٹتے وقت بھی اُس کا یہی حال رہتا ہے۔ تو جناب لڑکوں کے اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُن کے سامنے اسکول کا کوئی متبادل ہے یا وہ متبادل ڈھونڈ لیتا ہے۔ لڑکی کسی متبادل کو تلاش ہی نہیں کرتی کیونکہ اسکول جا کر اُس کا مقصد پڑھنا ہے کمانا نہیں۔ لڑکے کے شعور ولا شعور میں یہ خیال نمایاں ہے کہ اسکول جاکر کمانا ہی ہے تو کیوں نہ ابھی سے کمانا شروع کریں۔ 
 اسکول سے لڑکوں کے ڈراپ آؤٹ ہونے کی بڑی وجہ ہمارے محلوں کے نُکّڑ ہیں۔ ہمارے لڑکے بڑی آزادی کے ساتھ ان نکّڑوں پر جاتے رہتے ہیں بلکہ والدین اپنے بیٹوں سے ’نجات‘ حاصل کرنے کے لئے انہیں نکڑوں پر جانے کی ترغیب و حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں کہ جتنی دیر تک گھر سے باہر رہے گا اتنی دیر تک والدین کی پریشانی کم رہے گی۔ 
اللہ کا بڑا شکر ہے کہ ہمارے محلوں میں لڑکیوں کے کوئی نکّڑ نہیں ہیں لہٰذا لڑکیوں کے پاس اپنے گھر اور والدین کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اُن کی کچھ سہیلیاں ہوتی ہیں مگر اُن کے تعلق سے ساری معلومات گھر والوں کو رہتی ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے گھروں میں جاتی بھی ہوں گی مگر نکڑوں پر ہرگز نہیں۔ ثابت یہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان تعلیم کے ضمن میں جو توازن بگڑا ہے اُس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے یہی نُکّڑ ہیں۔ 
اپنے بیٹوں کے ضمن میں والدین پہلی غلطی یہ کرتے ہیں کہ جب وہ پہلی پہلی مرتبہ نکّڑوں کا رُخ کرتے ہیں تب انھیں نہیں روکتے یہ کہہ کر کہ ’’ابھی تو بچّہ ہے۔ ‘‘ پھر ان کے نکّڑوں پر جانے کی وجوہات بھی گڑھتے رہتے ہیں :’’ تفریح کیلئے جا رہا ہے‘‘...’’ ذہن تازہ کرنے جارہا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ دراصل ہمارے لڑکوں کے نکّڑوں پر جاتے رہنے کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ انہیں اپنے گھروں میں گھٹن محسوس ہو تی ہے۔ بعض گھروں میں ڈسٹرب ازدواجی زندگی کی تپش آج ہمارے معاشرے میں بڑی شدّت سے محسوس کی جارہی ہے۔ اُس بھٹّی میں بچّوں کا مستقبل اور گھر کا سکون جل کر خاک ہو جاتا ہے۔ لڑکیاں سارے معاملات کو دیکھ کر، سمجھ کر بھی خاموش رہتی ہیں، لڑکے چونکہ فطری طور پر بغاوت پر آمادہ رہتے ہیں، ان کے سامنے ایک آپشن موجود ہے کہ وہ گھر سے باہر جا سکتے ہیں ، سو وہ نکّڑوں کا رُخ کرتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: تعلیم کیلئے لڑکوں کو ترجیح دینے کےمعاملے میں معاشرے کو اپنے رویے پرنظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے

اکثر والدین ہمیں یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے بیٹے ہماری بات نہیں مانتے بلکہ ہم سے زیادہ وہ اپنے دوستوں کا کہا مانتے ہیں۔ دراصل والدین کے اس شکایت بھرے سوال ہی میں اس کا جواب پوشیدہ ہے کہ اگر آپ کے بیٹے آپ کا کہا نہیں مانتے اور دوستوں کی بات سنتے ہیں تو آپ اپنے بچوں کے دوست بن جائیں، مسئلہ حل ہو جائے گا مگر والدین کی نام نہاد اَنا آڑے آتی ہے کہ ہم تو والدین ہیں، دوست کیسے بن سکتے ہیں البتہ اس نکّڑ والے مسئلے کا حل یہی ہے کہ وہاں نکّڑوں پر جا کر دوستوں کے ساتھ اپنے جو’دُ کھ درد‘ وہ بانٹ رہا ہے، وہ اپنے گھر میں والدین کے ساتھ بانٹے۔ 
ہمارے بیٹے جو نکّر آبادکر رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بیٹوں کا دو سروں سے موازنہ کرتے رہتے ہیں۔ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہر بچے کی ذہنی استطاعت مختلف ہوتی ہے۔ جڑواں بچوں کی بھی ذہنی استطاعت یکساں نہیں ہوتی لہٰذا رشتہ داروں یا پڑوسیوں کے ذہین بچوں سے موازنہ کرتے رہنے اور اس کیلئے اپنے بچوں کو مسلسل کوستے رہنے سے حاصل تو کچھ نہیں ہوتا بلکہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ ان کی صلاحیتیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ بیٹا بیزار ہوکر گھر چھوڑ کر نکّڑوں کر رُخ کرتا ہے۔ ہم اس مسئلے کی جڑ میں جانے کے بجائے چیختے، چلّاتے اور گھر کو، کبھی کبھی محلے کو بھی سر پر اُٹھاتے رہتے ہیں۔ یہاں والدین سے ایک بڑی غلطی یہ ہوتی رہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں کے سامنے ہی اُن کی بے عزتی کرنے لگتے ہیں اور انہیں اور ان کے دوستوں کیلئے نازیبا کلمات استعمال کرتے ہیں۔ ۱۲؍ سال سے بڑالڑ کا جو اپنے دوستوں کو اب سب کچھ سمجھنے لگا ہے، اُن سے رائے مشورے تک لینے لگا ہے، اُن کی بے عزتی اور ان کے سامنے اپنی بے عزتی دونوں ہی چیزیں برداشت نہیں کرتا، اس کی وجہ سے اب وہ لگ بھگ باغی بن جاتا ہے۔ 
رفتار: وائے فائی، موٹر بائیک اور کرکٹ کی گیند کی!
لڑکوں کی فطرت کو پہلے سمجھئے۔ مختلف وجوہات کی بناء پر وہ لڑکیوں سے مختلف ہوتے ہیں اور اب جب کہ زندگی کی رفتار بے حد تیز ہوگئی ہے۔ روشنی کی رفتار کو سب سے تیز سمجھا جاتا تھا، اب اُس سے کئی گنا زیادہ تیز ہواکی لہروں پر زندگی دوڑ رہی ہے، لڑ کے اُس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ انہیں رفتار پسند ہے۔ رفتار کے وہ دیوانے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے وہ رفتار کے خواب دیکھتے ہیں۔ اُن کے اعصاب پر سوار ہے : رفتار۔ انہیں سب سے زیادہ ر فتار پسند ہے موٹر سائیکل کی!۱۴۔ ۱۵؍ سال کی عمر ہی سے وہ اپنے والدین سے موٹر سائیکل طلب کرتے رہتے ہیں۔ لائسنس ملتا ہے ۱۸؍ سال کی عمر میں البتہ مسلم محلوں میں ۱۳۔ ۱۴؍ سال کے لڑکے موٹر سائیکل چلانے کے، پولیس سے، بزرگوں سے حجّت و تکرار کرنے کے مناظر عام ہیں۔ کچھ والدین جو صاحب حیثیت ہوتے ہیں ان کا پیار اپنے ’خاندان کے چراغوں ‘ کیلئے کچھ اس قدر اُمڈ آتا ہے کہ وہ لاکھوں روپے کے موٹر بائیک بھی ان کیلئے خرید لیتے ہیں اور پھر ان لڑکوں کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا، ان کے دماغ پر اور نہ ہی ان کی رفتار پر۔ 
ایک فلم کا مشہور مکالمہ ہے۔ ہیرو اپنے بھائی سے کہتا ہے: ’’میرے پاس جائیداد ہے، گاڑی ہے، بنگلہ ہے، تمہارے پاس کیا ہے ؟‘‘ بھائی کہتا ہے: ’’میرے پاس ماں ہے۔ ‘‘ آج کل کے نوجوان صرف یہ کہہ کر نازاں، شاداں اور مطمئن ہیں : ’’میرے پاس اسمارٹ فون ہے اور روزانہ کا ۲؍جی بی ڈیٹا۔ ‘‘اس درجہ دیوانگی ہے اسمارٹ فون، اُ س کے سارے ایپس اور سوشل میڈیا کے تعلق سے۔ 
کورونا کی یہ دین اب ہر فیملی کا ایک رُکن بن گیا ہے اور ہیڈ آف دی فیملی یعنی خاندان کا سر بر اہ بنتے جارہا ہے۔ ہمارے بچے، نوجوانان اور گھر کے سبھی افراد اس کی ایپس سے ہدایات لینا شروع کر دیتے ہیں اور ہمارے گھروں کا حال کیا ہے ملاحظہ فرما میں:
(۱)’’ بیٹا، ایک شرط پر اسمارٹ فون دوں گی تم کو، تمہیں امتحان میں ۹۰؍ فیصد سے زائد نمبرات حاصل کرنے ہیں ‘‘( بیٹا ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس ٹارگیٹ تک پہنچتا ہے مگر اس کے بعد اس کی تعلیمی و ذہنی تباہی کا گراف کا سفر نچلی سمت میں شروع ہو جاتا ہے)
(۲) ’’اچھا بہترین اسمارٹ فون تم کو دیں گے البتہ بیٹا وعدہ کرو اس کا غلط استعمال نہیں کرو گے‘‘(یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ آپ اپنے بیٹے کی جیب میں ایک نیوٹرون بم رکھ دیں اوراس سے کہیں بیٹا اس کا صحیح سے استعمال کرو)
(۳)’’تم پڑھائی وغیرہ اچھے سے کرو گے نہیں تو تمہارا موبائیل ہم چھین لیں ‘‘ ( آپ کا بیٹا فوراً کتاب ہاتھ میں لیتا ہے کہ موبائیل چھین لیا جائے گا۔ والدین یہ نہیں سوچتے کہ اس اسمارٹ فون کے کچھ زہر یلے ایپس کا وہ ایسا عادی بن چکا ہے کہ اُس کا کتاب کھولنا، پڑھنا یا اچھے نمبر حاصل کرنا بھی بے معنی بن جاتا ہے ) 
(۴)’’تمہارے دوست یہاں آنے نہیں چاہئیں۔ ہمیں دکھائی بھی دینے نہیں چاہئیں ‘‘( آپ کا بیٹامطمئن ہے کیونکہ اب اس کے دوست دو چار نہیں، درجنوں ہیں۔ ان میں سے کوئی گھر پر نہیں آرہا ہے، سب موبائیل سے جڑے ہوئے ہیں اور اس حد تک جُڑے ہوئے ہیں کہ سارے دوست و احباب ایک دوسرے کی حرکات و سکنات سے پوری طرح ربط میں ہیں )۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK