ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ کہیں ہم اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے راغب کرنے کے بجائے اپنی ساری اینرجی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکنے میں تو ضائع نہیں کر رہے؟
EPAPER
Updated: June 16, 2024, 1:27 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ کہیں ہم اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے راغب کرنے کے بجائے اپنی ساری اینرجی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکنے میں تو ضائع نہیں کر رہے؟
بیٹے کو بڑھاپے کی لاٹھی نہ سمجھیں :
ہمارے معاشرے کا معاشی نظام صدیوں سے کچھ ہم نے ایسا ڈیزائن کیا ہے کہ اُس میں بیٹے کا عام نام ہے: بڑھاپے کی لاٹھی !ماں باپ اُسے کسی صورت میں ڈسٹرب کرنا نہیں چاہتے کہ وہ اُن کے بڑھاپے کا آسرا ہے، سہارا ہے۔
اس ضمن میں والدین سب سے پہلی اوراہم بات یہ یاد رکھیں کہ صرف اور صرف اللہ رزّاق ہے۔ کوئی اور رزّاق ہو ہی نہیں سکتا، آپ کی اولاد بھی نہیں لہٰذا جب نادانی میں وہ کہتے ہیں کہ اُن کے بیٹے بڑھاپے کی لاٹھی ہیں، سہارا ہیں یعنی ان کے بیٹے پالنہار ہیں، رزّاق ہیں یہ تو کہنا نہیں چاہتے؟ دوسری بات یہ کہ اپنے بیٹوں کو ہر طرح سے کھلی چھوٹ دے کر، اُس کے ہر غلط معاملے پر بھی مجرمانہ خاموشی کو اپنا کر آخر اپنے بڑھاپے کے لئے کیسی دیمک زدہ لاٹھی پر تکیہ کر رہے ہیں ؟ آٹھ دس سال کی عمر ہی میں وہ ساری غلط عادتیں اپنا چکا ہے کیونکہ وہ جان چکا ہے کہ گھر میں وہ کسی کی آنکھ کا تارہ ہے اور کسی کا راج دُلارا۔ والدین کے بڑھاپے میں پھر لاکھوں روپے کمانے والا بیٹا بھی بادل ناخواستہ چند ہزار روپے دے دیتا ہے۔ جن کے دو چار بیٹے ہوتے ہیں وہ تو یہ طے کرتے ہیں کہ والدین کو ایک بیٹا راشن دے گا، دوسرا دوائی، تیسر الائٹ کا بل، چوتھا کپڑ ا لتّا، تربیت و تعلیم کے فقدان کی بنا پر یہ حال ہے ’بڑھاپے کی لاٹھیوں ‘ کا !
ہم اپنی اینر جی کہاں ضائع کر رہے ہیں ؟
شہروں میں شاید یہ ہمیں زیادہ واضح نظر نہ آئے مگر سیکڑوں قصبوں ، گاؤں ا ور دیہاتوں کی خاک چھاننے کے بعد ہم نے تو یہ مناظر دیکھے ہیں :
’’جسے پڑھنا چاہئے وہ تو پڑھ نہیں رہا ہے۔ کتنا سمجھاتی ہوں اِسے، مگر پڑھتا ہی نہیں۔ امتحان کے دِنوں میں بھی دوستوں کے ساتھ گھومنے جاتے رہتا ہے۔ بیٹی پڑھ رہی ہے۔ محنت سے پڑھ رہی ہے۔ اب اُس کا پڑھ کر کیا فائدہ؟ بیٹے کو پڑھنا چاہئے نا !‘‘
’’امّی، امتحان قریب ہے، ذرا مجھے پڑھائی کرنے دو۔ ‘‘
’’پڑھ لے۔ مگر اتنا جو پڑھ رہی ہے تو آگے کیا نوکری کرے گی ؟ ہمارے پورے خاندان میں کسی نے آج تک نوکری کی ہے؟ نوکری کرنے کا کوئی رواج ہے ہمارے یہاں ؟ روٹی کے توے پر جلتی رہے گی تمہاری ڈگری۔ ‘‘
’’امّی مجھے ڈسٹرب ہو رہا ہے، پڑھائی کرنے دو۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: تعلیم میں لڑکوں کی عدم دلچسپی اور معاشرے کا بگڑتا توازن : آخر اس کا حل کیا ہے؟
’’ہاں، پڑھ لے.... بھائی نہیں پڑھ رہا اُس کا کوئی دُکھ نہیں اِسے۔ اتنا سارا پڑھ کر گویا رشتہ تیارہے اس کیلئے۔ پندھرویں، سترویں تک پڑھی لڑکیوں کی عمر ۳۲؍۳۵؍سال ہوئی ابھی تک رشتہ نہیں آیا۔ اُن کی کہانی اپنی دادی کی زبانی سُن۔ ‘‘
’’امّی دو دن بعد امتحان ہے، مجھے پڑھنے دو۔ ‘‘
’’تمہاری امّی جھوٹ نہیں کہہ رہی، گاؤں میں ۳؍ لڑکیوں نے۱۵؍ کلاس پاس کی اور۲؍ نے۱۷؍۔ دونوں کی شادی ہوئی ایک کی رِکشا ڈرائیور سے، دوسرا چوراہے پر اِسٹوو چھتری مرمّت کرتا ہے، آگے تیری مرضی۔ ‘‘
’’دادی، پلیز مجھے پڑھنے دیجئے۔ میں ہاتھ جوڑتی ہوں ‘‘
’’ہاتھ جوڑنے کے بجائے وہ ہاتھ اُٹھا کر پوچھ اوپر والے سے کہ تجھے لڑکی کیوں بنایا۔ ‘‘ (۲؍ ماہ بعد )
’’دو ماہ کے انتظار کے بعد رزلٹ آگیا‘‘
’’کیا آیا بہو۔ سُنائو تو۔ ‘‘
’’وہی ڈھاک کے تین پات۔ ہمارے صاحبزادے کو ملے۴۵؍ فیصد نمبر اور بیٹی کو پورے ۹۰؍فیصد‘‘
’’یہ ایسا کیسے ہو گیا ؟‘‘
’’ایسا ہی تو ہوتے آیا ہے، کیوں پتہ نہیں۔ ‘‘
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ سوچئے خواتین و حضرات !ہمارے بیٹوں کی لاپروائی، کوتاہی اور غفلت ہمارے لاشعور (بلکہ شعور پر بھی)اس قدر حاوی ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں کی تعلیمی میدان میں پیش رفت کو برداشت نہیں کر پارہے ہیں۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ کہیں ہم اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے راغب کرنے کے بجائے اپنی ساری اینرجی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکنے میں تو ضائع نہیں کر رہے ہیں ؟ ہماری اِن خلاف فطرت حرکتوں اور عاقبت ناشناسی کا جو نتیجہ ہر جگہ سامنے آرہا ہے وہ یہی ہے بیٹی ۹۰؍ فیصد نمبر لے رہی ہے اور بیٹا بالکل آدھے !
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں۔ چند فیصد لڑکیاں جو یا تو فطری کند ذہن ہیں یا جنہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے کہ زیادہ پڑھ لکھ کر رشتہ نہیں آئے گا، صرف وہی ڈراپ آؤٹ ہو رہی ہیں۔ البتہ لڑکوں میں اسکول ہی سے ڈراپ آؤٹ ہونے کا تناسب خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ وہ تو بھلا ہو حکومت کا کہ اُس نے ہر کسی کو آٹھویں جماعت تک پاس ہونے کا موقع دے دیا۔ نئی تعلیمی پالیسی کی وجہ سے آج ہندوستان میں پیدا ہوتے ہی یہ خوشخبری مل جاتی ہے کہ وہ اسکول جائے نہ جائے، آٹھویں پاس کا سرٹیفکیٹ تو اُسے مل ہی جائے گا۔
حکومت کی اس عجیب و غریب وغیر منطقی پالیسی ہی کی بنا پر آج سارا ہندوستان آٹھویں پاس ہے اور آدھا ہندوستان نویں فیل ! اس آٹھویں پاس پالیسی سے سب سے زیادہ خوش ہماری قوم کے والدین ہو چکے ہیں کہ واہ کیا حکومت ہے اور اُس کی پالیسی، بال واڑی/ کے جی میں بچّے کا داخلہ کرو اور سید ھے نویں جماعت میں جانے کے بعد اسکول کا رُخ کرو۔ اس آٹھویں پاس پالیسی سے سبھی طلبہ متاثر ہوئے البتہ سب سے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں ہمارے لڑکے۔ اُن کی ایک بڑی اکثریت نویں جماعت میں آکر نام لکھنا اور پہاڑے یاد کرنا سیکھ رہی ہے۔
لڑکوں کے ڈراپ آؤٹ ہونے کی اہم وجوہات
اسکول سے لڑکوں کے ڈراپ آؤٹ ہونے کی اہم وجوہات آخر کیا ہیں ؟ سنئے ! ایک لڑکا گھر سے اسکول جا رہا ہے اور لڑکی بھی۔ لڑکا اپنے دائیں دیکھتا ہے۔ اُسے سوڈا واٹر کے بوتل کے ڈھکن بنانے والی ایک فیکٹری نظر آتی ہے۔ اُس فیکٹری کے دروازے پر ایک سائن بورڈ لگا ہے۔ لکھا ہے: ڈھکن بنانے کا کام کرنے کیلئے مزدور چاہئے۔ روزانہ ۲۰۰؍روپے ملیں گے۔ کام سکھایا جائے گا۔ وہ حساب لگاتا ہے، آٹھویں کلاس میں ہے مگر اسے اتنا حساب آتا بھی ہے کہ وہ ماہانہ چھ ہزار روپے کمائے گا۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ بستہ اُٹھاکر پھینک دے۔ وہ سوچتا ہے ویسے بھی اسے اس بستے کی کتابوں سے نفرت ہے۔ حساب، جغرافیہ، سائنس یہ سب تو اُسے سمجھ میں بھی نہیں آتے۔ پھر وہ سو چتا ہے کہ ریاضی، سائنس و تاریخ کے بجائے وہ بوتل کے ڈھکّن بنانے کا ہنر سیکھے گا کہ اس میں فوری کمائی ہے اور اس کے والدین کی خواہش بھی پوری ہو رہی ہے کہ کم عمری ہی میں وہ کمانے لگا۔ گھر سے اسکول جاتے ہوئے لڑکے کو دوسری جانب کوئی زری کا کارخانہ نظر آتا ہے، ۲۰۰؍ روپے روزانہ کی کمائی کا بورڈ وہاں بھی آویزاں ہے۔ تھوڑا آگے پہنچا تو اُسے فٹ پاتھ پر ایک ہم عمر لڑ کا کپڑے بیچتے نظر آتا ہے۔ دو چار گاہک وہاں نظر آنے پر اُسے پھر اپنے بستے سے مزید نفرت ہونے لگتی ہے۔ وہ تھوڑا آگے بڑھتا ہے تو اُسے ایک ہوٹل میں اُس کا ہم عمر لڑ کا ٹِپ لیتے دکھائی دیتا ہے۔ کسی طرح وہ اسکول جاتا ہے، کلاس میں کتاب کھولے بیٹھا ہے، اُستاد کو وہ دیکھ رہا ہے مگر اس کی آواز اُس کے کانوں میں داخل ہی نہیں ہورہی کیونکہ اس کے ذہن میں فیکٹری، ہوٹل، کارخانے، پاورلوم کی گھڑ گھڑاہٹ اُس کے کانوں میں گونجنے لگتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا ’مستقبل‘ وہیں محفوظ ہے۔