سپریم کورٹ کو اپنی نگرانی میںماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہئےجو بشمول ’نیٹ‘ سارے امتحانات کیلئے اُصول و ضوابط مرتّب کرے۔
EPAPER
Updated: July 28, 2024, 5:26 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
سپریم کورٹ کو اپنی نگرانی میںماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہئےجو بشمول ’نیٹ‘ سارے امتحانات کیلئے اُصول و ضوابط مرتّب کرے۔
فی الوقت مُلک کا تعلیمی نظام ایک بڑے بحران سے گزر رہا ہے۔ دراصل ہم نے آزادی کے بعد جس تعلیمی نظام کو اپنایا وہ ایک طرح سے بے روح و بے جان ہی تھا۔ یہاں روح سے مُراد اخلاقیات و اقدار کی تعلیمات اور جان کا مطلب احتسابی نظام، یعنی امتحانی سسٹم ہے۔ پتہ نہیں ہمارے سیاستدانوں اور نوکرشاہوں کو امتحانی نظام سے کیا بیر ہے کہ وہ اس کو بے مقصد و بے فیض قرار دے دیتے ہیں، اسلئے اسکول میں آٹھویں جماعت تک کے امتحانات پر پابندی عائد کرتے ہیں اور پروفیشنل کورسیز کے امتحانات کو تجارت بنانے پر آمادہ ہیں۔ اس سال (میڈیکل داخلہ امتحان) نیٖٹ امتحان کے طریقۂ کار اور رزلٹ کے بعد مُلک کےکئی مقابلہ جاتی امتحانات کی شفافیت پر سارے سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ آج ہمارا تخاطب ’سسٹم‘سے ہے جسے حکومت اور عدلیہ کہا جاتا ہے:
(۱) نیٖٹ امتحان کے ضمن میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سُنایا کہ نیٖٹ کا امتحان دوبارہ نہیں ہوگا، ہمیں تو اس فیصلے میں اور ایودھیا کے فیصلے میں بڑی مماثلت نظر آئی۔ (وکالت کے طلبہ متوجہ ہوں ) ایودھیا کا فیصلہ یہ تھاکہ ’’ ۲۲؍دسمبر ۱۹۴۹ء کی درمیانی رات کو شر پسندوں نے بابری مسجد میں زبردستی مورتیاں رکھ دیں، شیلا نیاس ہوا، وہ غلط تھا، ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کاانہدام ایک بڑا جرم تھا، وہاں کوئی مندرنہیں تھا مگر چونکہ یہ ’آستھا‘ کا معاملہ ہے اسلئے وہاں رام مندر بنانے کی ہم اجازت دے رہے ہیں ‘‘نیٖٹ امتحان ۲۴ءکے تعلق سے عدالت نے فرمایا: ’’پرچہ لیٖک ہوا، ساری دھاندلیاں کرنے کیلئے امتحانی مراکز کا انتخاب کیا گیا۔ تفتیشی ایجنسیوں نے چند مجرموں کو گرفتار بھی کیا، زائد نمبرات دینے میں بھی ناانصافی ہوئی مگر یہ امتحان دوبارہ نہیں ہوگا۔ ‘‘
(۲)رافیل، پیگاسیس، ۵؍جی جیسے گھپلے حیرت انگیز طور پر عدالتوں کی چشم پوشی کی وجہ سے دب گئے۔ کیا اس مُلک کا عدلیہ قوم کے مستقبل یعنی طلبہ اور تعلیمی نظام میں ہونے گھپلوں کو اُسی طرح سے نظر انداز کرنا چاہتا ہے۔ نئی نسل احتجاج بلکہ بغاوت پر بھی اُتر آئے گی اس کا اندازہ قابل منصفوں کو ہوگا ہی کیوں کہ بلاشبہ اُنھوں نے عالمی آئین کے ساتھ ساتھ عالمی تاریخ بھی پڑھ رکھی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ایک ڈراما...اسکول کا پہلا دن
(۳)نیٖٹ اور جے ای ای امتحان ہی کے بارے میں سوچئے کہ آخر نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) جیسی کوئی پرائیویٹ ایجنسی اس امتحان کا انعقاد کرنے کیلئے تشکیل کیوں دی گئی؟ صرف قومی شاہراہوں کے پُل آج کل نہیں گِر رہے ہیں بلکہ ملک کی تعلیمی شاہراہیں بھی ٹوٹ رہی ہیں۔ اُس پر عدلیہ کیوں کر خاموش رہ سکتی ہے؟
(۴) اس ایجنسی نے عدالت میں یہ بلند بانگ دعویٰ کیا کہ ان دونوں امتحانات کے تعلق سے کم و بیش سات سطحی تحفظی نظام ہے۔ اسلئے پرچہ لیک ہونے کا کوئی امکان نہیں لیکن دوسرے ہی لمحے اُس ایجنسی نے یہ اعتراف بھی کیا کہ سوالیہ پرچے ایک آٹو رِکشا میں بھیجے گئے تھے۔ سرکاری وکیل کی اس بات کیلئے بھی سرزنش کی جانی چاہئے تھی کہ ۲۰۱۶ء میں حکومت نے ملک کے سپاہیوں کو دہشت گردوں کے علاقے پلوامہ میں پیدل روانہ کردیا گیا تھا جہاں ۲۰؍سپاہی شہید ہوگئے، ایسے میں ہائی لیول کے امتحانات کے سوالیہ پرچے بھی آٹو رکشہ میں بھیجنے کی روایت پڑ گئی۔
(۵)عدلیہ نے این ٹی اے کے اس ’معصوم‘جواب پر کیوں کر یقین کرلیا کہ پرچہ صرف دوچار قصبوں ہی میں لیٖک ہوا۔ کیا عدالت کو سٹیلائٹ کمیونیکیشن اور سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے جو پرچہ آئوٹ ہوگیا وہ چند سیکنڈ میں لاکھوں افراد تک پہنچ گیا ہوگا اور سی بی آئی کی کئی گرفتاریاں اس کو ثابت بھی کرتی ہیں۔
(۶) سیاستداں ایک فریب میں بڑے ماہر ہوتے ہیں، جیسے ہی اُن کی کوئی جعل سازی یا گھپلہ ظاہر ہوگا ویسے ہی وہ عوامی اشتعال کو روکنے کیلئے کسی انکوائری کمیشن یا کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کردیتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ عوام کی یادداشت بڑی مختصر ہوتی ہے۔ تفتیشی رپورٹ آنے تک عوام سب کچھ بھول جائیں گے۔
(۷) سیاستدانوں کی زندگی کا محور و مرکز ہوتا ہے ـ:ووٹ۔ اُن کا حساب کتاب بالکل آسان ہے، نیٖٹ امتحان دینے والے ۲۴؍لاکھ طلبہ یعنی اُن کے ۴۸؍لاکھ والدین یعنی کُل ۷۲؍لاکھ نفوس یعنی ووٹرس! اُس سے کیا فرق پڑتا ہے ملک بھر میں ۹۷؍کروڑ ووٹرس ہیں۔ اِن سیاست دانوں میں نہ احساس ہے، نہ شعور ہے اور نہ ہی ویژن کہ اِن ۲۴؍لاکھ طلبہ کے ہاتھ میں ۱۴۰؍کروڑ انسانوں کی صحت کا انحصار ہے۔
(۸) عوام کا غم و غصّہ کم کرنے کیلئے وزارت تعلیم نے بڑی عجلت میں پبلک اگزام ایکٹ ۲۰۲۴ء بناڈالا۔ اُس کی رُو سے چھوٹے موٹے خطا کار تو پکڑے جائیں گے مگر بڑی مچھلیاں ہرگز پکڑی نہیں جائیں گی۔ دوم یہ کہ اس ایکٹ میں چند امتحانات کو شامل کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ملک کا سارا امتحانی نظام اس ایکٹ کا پابند ہوجاتا!
(۹)سپریم کورٹ نے کئی دِنوں کی شنوائی میں نیٖٹ کے موجودہ امتحان اور اُس کے نتیجے کے ضمن میں باتیں سُنیں البتہ مستقبل کیلئے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا حالانکہ سپریم کورٹ کو اپنی نگرانی میں ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہئے تھی جو سارے امتحانات کیلئے اُصول و ضوابط مرتّب کرتی۔ مثلاً:
(الف) اس امتحان میں جب معروضی یا آبجیکٹیو سوالات پوچھے جاتے ہیں تو وہ طویل عبارتوں پر ہرگز مشتمل نہیں ہونے چاہئیں۔ سوالات ایسے ہوں کہ ہر سوال کو پڑھنے میں زیادہ سے زیادہ ۱۵؍سیکنڈ درکار ہوں، سمجھنے میں ۱۵؍سیکنڈ اور حل کرنے میں ۱۵؍سے ۳۰؍سیکنڈ۔
(ب) غلط سوالات ہر گز مرتّب نہ ہوں، اگر کوئی کرتا ہے تو اُس ممتحن کو صرف جرمانہ نہیں کم از کم تین ماہ کی جیل بھی ہو کیوں کہ ایک غلط سوال کو حل کرنے میں تین سوالات حل کرنے کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ سوال اگر غلط ہے تو اس کے پورے نمبر سارے طلبہ کو دیئے جائیں۔ اس بار تو امتحانی ایجنسی کے ذریعہ طلبہ کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنے کیلئے ایسے سوال بھی پوچھے گئے جن کے دو درست جواب ہوں، گویا یہ یوجی کے امتحانات پی جی یاریسرچ لیول کے ہوں۔
(ج) آئندہ یہ طے ہو کہ اگر کوئی طالب علم امتحان گاہ میں دیری سے پہنچے تو اُس کو گریس یعنی انعامی نمبرات نہ دئیے جائیں ورنہ ملک بھر میں سارے طلبہ امتحان گاہ میں تاخیر سے پہنچنے کا حربہ اپنائیں گے۔
(د)اس بار نیٖٹ کے امتحان میں رینک (درجہ) کا معاملہ بھی ایک واضح جعلسازی نظر آرہا ہے۔ ہمیں شک یہ بھی ہے کہ اس امتحان کے نتیجے میں مصنوعی ذہانت کا استعمال تو نہیں کیا گیا خصوصاً رینک طے کرنے میں۔ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ شید خطرے کا سائرن ہے۔
(و) آخر کیا وجہ ہے کہ اس سال نیٖٹ کے امتحان میں ۷۲۰؍میں سے ۶۵۰؍نمبرات حاصل کرنے والے بھی اگلے سال پھر اس امتحان میں شریک ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ؟
(ہ)نیٖٹ، جے ای ای، یوپی ایس سی، اسٹاف سلیکشن اورکیٹ جیسے امتحانات نے کوچنگ مافیائوں کو جنم دیا ہے۔ اِن پر گرفت کیلئے اب کیا کیا اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں اُس کی تفصیل عوام کو معلوم ہونا ضروری ہے۔
(۱۰)سرکاری’ماہرین‘ تعلیم کواُن کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ اس ملک میں لاتعداد سنجیدہ اور قابل افراد موجود ہیں وہ سرجوڑ کر سوچیں کہ کیا وجہ ہے کہ نیٖٹ کے موجودہ نظام میں ہر سال ایک لاکھ طلبہ ڈاکٹر تو بن رہے ہیں مگر ہر سال دس لاکھ طلبہ ذہنی مریض بھی بن رہے ہیں۔
(۱۱) اِن امتحانات میں تین چار بار شریک ہونے والے نوجوانوں کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانے کیلئے کوئی تحقیقی کمیٹی کی تشکیل دینے کیلئے بھی حکومت کے پاس سرمایہ نہیں ہے؟ کھربوں روپے کے الیکٹورل بونڈ میں سے چند ایک بونڈ بیچ کر بھی تحقیق ہوسکتی ہے کہ۴۔ ۴؍ بار اس امتحان میں شریک ہونے والے طلبہ کی ذہنی حالت کیا ہوتی ہے؟