• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایک ڈراما...اسکول کا پہلا دن

Updated: July 21, 2024, 5:19 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

موجودہ تعلیمی نظام، حکومتی پالیساں، سماجی عدم توازن اور اس تعلق سے والدین اور اساتذہ میں پایا جانے والا رویہ ملک اور ملّت دونوں کیلئے ایک لمحۂ فکریہ ہے، زیر نظر ڈراما اسی کا اظہار کرتا ہے۔

It is very important for students to come to school. Photo: INN
طلبہ کا اسکول میں آنا بہت ضروری ہے۔ تصویر : آئی این این

( پردہ اُٹھتا ہے، ایک کلاس روم کا منظر)
راشد: معلوم ہی نہیں ہوا کب نویں کلاس میں آگئے۔ 
نذیر:  اس لئے بھی نہیں کہ گزشتہ آٹھ برسوں تک کوئی امتحان دیا ہی نہیں اور نویں میں آگئے۔ 
ناصر:  ہاں بھئی مزہ آگیا۔ اگر آٹھویں تک سالانہ امتحان ہوئے ہوتے تو میں توہر سال دو تین مضامین میں لڑھک ہی گیا ہوتا، پھر ابّا کی کمنٹری سننی پڑتی۔ 
راشد:  جانتے ہیں کیا ہوا؟پہلی سے آٹھویں جماعت تک کے لگ بھگ سارے بچّے رزلٹ لینے اسکول آئے ہی نہیں۔ 
ناصر : سُنا ہے وہ رزلٹ کارڈ آج ہمیں دیا جائے گا۔ 
جمیل : اور نہیں بھی دیئے تو کیا فرق پڑتا ہے، ہم نویں جماعت میں تو آہی چکے ہیں۔ ( سبھی قہقہہ لگاتے ہیں )
راشد:  ارے چھٹیوں کے قصّے سُنائو یار، کیا کیا چھٹیوں میں ؟
ناصر : اس بار کی چھٹیاں تو سائبر کیفے میں گزریں۔ 
نذیر : میں بھی پورا دن ویڈیو گیمز کھیلتا رہا۔ مزہ آ گیا، نئے نئے گیمز مارکیٹ میں آئے ہیں۔ 
ناصر:  کچھ گیمز تو ایسے آئے ہیں جن میں کوئی ہارتا ہی نہیں۔ ہمیشہ ہماری ہی جیت ہوتی ہے۔ 
جاوید  میں تو اِن چھٹیوں میں سنگا پور گیا تھا۔ 
جمیل:  سنگا پور؟ بدلا پور گئے ہوں گے (قہقہہ )
جاوید :  اس لئے سنگا پور کا ٹکٹ بتانے لے آیا ہوں، یہ دیکھو۔ ( سبھی ٹکٹ دیکھنے لگتے ہیں )

یہ بھی پڑھئے: تعلیمی نظام میں بدنظمی، بے ضابطگی اور بدعنوانی کا بہترین حل: عوامی بیداری اور جمہوری احتجاج

ناصر:  ہاں یار! بڑی بات ہے۔ ہم لوگ مہابلیشور پنچ گنی کے لئے ضد کرتے رہے تو ابّا کا جواب آتا تھا، خود کمائواور پھر جاؤ گھومنے کے لئے۔ 
نذیر:  اچھا یہ بتاؤ جاوید تم سنگا پور سے کیا لائے ہو؟
جاوید:  یہ دیکھو چھتری، میوزیکل چھتری۔ کھولتے اور بند کرتے وقت میوزک سنائی دیتی ہے۔ 
نذیر: ( چھتری کھولتے بند کرتے ہوئے ) ہاں یار، واہ۔ عجیب چھتری ہے۔ 
راشد:  خدا کرے آج بارش نہ آئے کیونکہ میں نے آج چھتری نہیں لائی ہے۔ 
نذیر:  کیوں ؟
راشد: امّی کسی ٹرسٹ میں گئی ہیں وہاں چھتری ملنے والی ہے۔ 
سلیم : کوئی بات نہیں راشد، اگر بارش آئی تو آج کے دن تم میری چھتری لے لیناکیوں کہ میرے پاس رین کوٹ بھی ہے۔ 
راشد:  البتہ میرا گھر آتے ہی چھتری واپس کردینا کیونکہ مجھے کوئی اعتراض نہیں البتہ گھرکے بڑے لوگ کہتے رہتے ہیں کہ اپنی چیزیں دوسروں کو مت دیا کرو۔ 
جمیل:  میں نے تو نئے سال کی ساری کتا بیں اور بیاضیں بھی خرید لائی ہیں۔ 
رفیق: مجھے تو کم از کم ایک مہینہ انتظار کرنا پڑے گا کتابوں اور بیاضوں کے لئے۔ کیونکہ میری امّی نے ایک ٹرسٹ میں عرضی دی ہے۔ وہاں ٹرسٹیوں نے بتایا کہ ایک مہینے سے پہلے تو کتا بیں اور بیاضیں ملنے والی نہیں۔ 
سلیم: اچھا۔ 
رفیق:  پہلے یونٹ میں بغیر کتابوں کے ہی تیاری کرنی پڑے گی۔ 
(اتنے میں ٹیچر کلاس میں داخل ہوتی ہیں اورسبھی بچّے اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاتے ہیں )
ٹیچر: بچّو!میں تم لوگوں کی کلاس ٹیچر ہوں۔ 
کچھ طلبہ:  السلام علیکم ٹیچر۔ 
ٹیچر : گُڈ، مارننگ بولو..... تم لوگ اردو میڈیم میں پڑھ رہے ہومگر ہم چاہتے ہیں کہ اردو میڈیم اور انگلش میڈیم کا فرق مٹ جائے اس لئے تم لوگ گڈ مارننگ، گڈ ایوننگ کہا کرو۔ 
سبھی بچّے (کورس میں ): یس مِس۔ 
ٹیچر: اب اس سال سے تم لوگوں کے امتحان بھی ہونے والا ہے۔ نویں جماعت تک تو سب پہنچے ہو۔ ابھی سے سن لو، نویں میں ۲۰۰؍ طلبہ ہیں۔ ابھی ہم لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ صرف ۵۰ تا ۶۰؍ بچوں کو ہی نویں پاس کر کے دسویں میں بھیجنے والے ہیں۔ باقی نویں جماعت ہی میں رہنے والے ہو۔ 
سلیم : یعنی نویں کا رزلٹ ابھی سے تیار ؟
ٹیچر:  بالکل۔ اس لئے سُن لو، ہم سارے بچّوں کونویں میں پاس کر کے اپنے اسکول کا ایس ایس سی کا رزلٹ خراب نہیں کر سکتے۔ 
سلیم:  یعنی ساراملک آٹھویں پاس اور آدھاملک نویں فیل۔ 
ٹیچر:  زبان درازی مت کرو۔ ابھی تم لوگوں کو اپنا نام بھی لکھنے نہیں آرہا ہوگا اور پھر بھی نویں جماعت میں پہنچے ہو تو شکر کرو۔ 
سلیم: مِس آپ کی باتوں سے ہمیں ٹینشن آرہا ہے۔ میرے ابّا پی ٹی اے کے ممبر ہیں وہ بتارہے تھے کہ اب ٹیچر کو ٹینشن آنے والی باتیں نہیں کہنی چاہئے۔ 
ٹیچر: ( نرمی سے ) میں ٹینشن والی بات نہیں کر رہی ہوں۔ آپ لوگوں کو ٹینشن آرہا ہے تو سوری۔ آئندہ ایسی بات نہیں کروں گی۔ میں تو آپ لوگوں سے یہی کہہ رہی تھی کہ اگرکھیل کود وغیرہ سے فرصت ملے تو اس سال پڑھائی بھی کر لینا۔ 
سلیم:  ہاں یہ ٹھیک ہے۔ 
(اتنے میں اسکول کے احاطے میں زور زور سے جھگڑے کی آوازیں آنی شروع ہوتی ہیں۔ ایسا ہنگامہ مچ جاتا ہے کہ سبھی طلبہ و اساتذہ اپنے اپنے کلاس سے باہر آجاتے ہیں، دیکھا کہ دوتین والدین ہیڈ مسٹریس کے ساتھ اُلجھ رہے ہیں )
ہیڈ مسٹریس :  اب جب کہ آپ کے بچّے آٹھویں سے نویں میں پہنچ گئے ہیں تو انہیں آگے پڑھنے دو۔ 
چار پانچ والدین ایک ساتھ:  ہمیں کچھ نہیں سننا ہے۔ ہمارے بچّوں کو ہمیں نہیں پڑھانا ہے۔ ہمارے گھر میں چولہا نہیں جل رہا ہے۔ ہمارے بچے زری کا کام سیکھ رہے تھے، روز کے پچاس روپے لے کرآتے تھے۔ آپ لوگوں کے اسکول سے ہمیں کیا ملنے والا ہے؟
ہیڈ مسٹریس:  ہم کتابیں، بیاضیں، یونیفارم اور ہر مہینے تین کلو گیہوں مفت تو دے ہی دیں گے۔ 
والدین:  (ایک ساتھ ) : اُس سے کیا ہم سبھوں کے پیٹ بھریں گے؟ہم آج اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لے ہی جائیں گے
اسکول سپر وائزر ( ہیڈ مسٹریس سے):  میڈم، ان پانچ طلبہ کو اسکول کو خارج کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، کوئی ٹیچر بھی کم نہیں ہوگا، کوئی ڈویژن بھی بند نہیں ہوگی۔ گرانٹ بھی کم نہیں ہونے والی، ساتویں پے کمیشن کے مطابق ہر ایک کو تنخواہ ملنے والی ہے، اسلئے اگر یہ اسکول سے اپنے بچوں کے نام خارج کرتے ہیں ، تو انہیں جانے دو، ان کے جانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ 
ہیڈ مسٹریس : بہت خوب (چپراسی سے ) بُلاؤ ان پانچوں والدین کے بچّوں کو اور اسکول سے باہر جانے بولو۔ جب اسکول پر کوئی آنچ نہیں آنے والی، ہم اساتذہ کی تنخواہ میں کوئی کمی نہیں ہونے والی، تب یہ بچے اسکول میں رہیں نہ رہیں، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ؟ 
(پانچوں بچّے بستہ کندھے پر لٹکائے آہستہ آہستہ اسکول سے باہر نکلنے شروع ہوتے ہیں۔ اسٹیج پر روشنی کم ہوتی جاتی ہے اور پردہ گرتا جاتا ہے )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK