• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

تعلیمی نظام میں بدنظمی، بے ضابطگی اور بدعنوانی کا بہترین حل: عوامی بیداری اور جمہوری احتجاج

Updated: July 15, 2024, 4:36 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

نیٖٹ امتحان کے نتائج نے تعلیمی نظام کی بدعنوانی کو ظاہر کر دیا ہے، ایسے میں ’لیڈروں‘ سے سوال ضرورکیا جانا چاہئے۔

The nationwide protest of students on the NET issue is going on. Photo: INN
نیٹ معاملے پرطلبہ کا ملک گیراحتجاج جاری ہے۔ تصویر : آئی این این

کسی بھی مہذّب، ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک کے تعلیمی نظام میں ہمیشہ طالب علم کو مرکزیت حاصل ہوتی ہے تاکہ تعلیمی نظام کے سارے عناصر صرف طالب علم کی چوطرفہ شخصیت سازی میں لگ جائیں۔ افسوس کہ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے۔ یہاں پرسیاست، سیاسی ہتھکنڈے اور سیاسی مزاج غالب ہے اورکچھ اس حد تک کہ سیاستداں تعلیمی پالیسیاں بھی نہ صرف مرتّب کرنے لگے ہیں بلکہ اُنھیں دانشوروں پر تھوپنے بھی لگے ہیں۔ اس اندھیر نگری کی صرف ایک مثال کافی ہے کہ کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بننے کیلئے اُس کی تعلیمی لیاقت، ریسرچ، تحقیقی مقالے اور تجربہ وغیرہ کی بڑی چھان پھٹک ہوتی ہے لیکن کسی ریاست کی تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں پر کسی پارٹی ورکر کو گورنر بناکر اُن کا باس یعنی چانسلر بنادیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے گزشتہ دہائی میں اس ملک کے تعلیمی نظام کی کیفیت بالکل ناگفتہ بہ ہوچکی ہے۔ 
تعلیمی نظام، خصوصاً مقابلہ جاتی امتحانات کے محاذ پر آج بے ضابطگی اور بدنظمی کا دَور دورہ ہے اور اِس کی حالیہ مثال نیٖٹ امتحان ہے۔ ملک کے میڈیکل داخلہ امتحان (نیٖٹ) کی شفّافیت گزشتہ چند برسوں سے مشکوک رہی ہے البتہ اس سال اس کی بے ضابطگی بلکہ بدعنوانی جگ ظاہر ہوگئی ہے۔ اس امتحان کا نتیجہ ظاہر ہونے کے ان ۴۵؍دِنوں میں ہم سے پرنٹ اور سوشل میڈیا کے چند نمائندوں نے اظہارِ خیال کا اصرار کیا لیکن ہم خاموش رہے۔ وجہ یہ تھی کہ ہماری قوم کا معاملہ دوسری قوموں سے مختلف ہے۔ دوسری قوموں میں دوسری تیسری نسل اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے اور ہمارے یہاں لگ بھگ نصف صدی کی جد وجہد کے بعد اُس کی پہلی نسل بڑی مشکل سے اعلیٰ و جدید تعلیم کی جانب راغب ہوئی ہے۔ مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت کرنے اور مقابلہ کرنے کا حوصلہ بڑھانے میں ہمیں کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اگر ہمارے طلبہ یہ سوچنے لگے کہ مقابلہ جاتی امتحانات فراڈ ہوتے ہیں، اس میں صرف بدعنوانی ہوتی ہے توپھر وہ ان امتحانات میں دلچسپی لینے سے رہے اور ہر امتحان کو اگر وہ مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے تو یہ ہماری قوم کابڑا شدید نقصان ہوگا۔ البتہ آج ہم میڈیکل داخلہ امتحان نیٖٹ کے حوالے سے کچھ دوسرے پہلوئوں پر گفتگو کرنا چاہیں گے اور اِس سلسلے میں تعلیمی نظام کے ذمہ داروں سے جواب طلب کریں گے۔ 
اس سال نیٖٹ امتحان کے نتیجے کا معاملہ عدالت میں چیلنج کیا جاچکا ہے اور وہاں پر گفتگو ہورہی ہے کہ ۶۹؍طلبہ کو۷۲۰؍میں سے ۷۲۰؍ نمبرات کیسے حاصل ہوئے؟ اُن میں سے اکثر دوتین امتحانی مراکز کے کیسے رہے؟ اُن میں سے کچھ طلبہ نے امتحان لگ بھگ ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر جاکر کیوں دیا؟ ۷۱۸؍یا ۷۱۹؍نمبرات تو کسی کو مل ہی نہیں سکتے وہ کیسے حاصل ہوئے؟ وغیرہ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا ہم بھی انتظار کر رہے ہیں۔ البتہ ہم ان سارے سوالات سے ہٹ کر نیٖٹ امتحان اور اِس سے طریقۂ کار پر سوالات کرنا چاہیں گے:

یہ بھی پڑھئے: وہ دن یقیناً آئے گا جب لڑکے بھی تعلیم کے تئیں سنجیدہ ہوں گے اور سماج کا بگڑا توازن سنبھل جائے گا

(۱) میڈیکل داخلہ امتحان نیٖٹ میں شریک ہونے والے لگ بھگ سارے طلبہ اپنی اپنی ریاست کے دسویں /بارہویں بورڈ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور نیٖٹ کا نصاب سی بی ایس ای بورڈ کا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ وہ لاکھوں طلبہ راتوں رات سی بی ایس ای پیٹرن کے نصاب کو کیسے قبول کرسکتے ہیں ؟
(۲)کیا ماہرین نے اس کا جائزہ لیا ہے کہ ریاستی بورڈ سے نکل کر محض مہینے بھر میں وہ طلبہ اتنے بڑے داخلہ امتحان کیلئے کیسے تیارہوسکتے ہیں ؟
(۳)نویں /دسویں جماعت ہی سے پورے ملک میں سی بی ایس ای یا دوسرا کوئی نصاب یکساں طور پر پڑھانے کا خیال ان ماہرین کوکیوں نہیں آیا؟ اِن ماہرین کو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ کم از کم جونیئر کالج کا پورے ملک کا نصاب یکساں کیا جائے؟
(۴) ملک بھر کے کسی بھی جونیئر کالج میں نیٖٹ امتحان کا ایک لفظ بھی پڑھایا نہیں جاتا۔ اب اگر کسی طالب علم کو نیٖٹ کے امتحان میں شریک ہونا ہے تو اس کیلئے کوچنگ کلاس میں داخلہ لے کر لاکھوں روپے کی فیس اداکرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہمارا الزام یہ ہے کہ اس قسم کا امتحانی نظام ترتیب دینے کی واحد وجہ یہ ہے کہ کوچنگ کلاسیز کی دُکانوں کو بڑھاوا دیا جائے؟ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا وزارت تعلیم کوچنگ کلاسیز کاروبارمیں براہِ راست ملوث ہے؟
(۵)جب بارہویں سائنس کے نتیجے پر ہی میڈیکل میں داخلہ ہوا کرتا تھا تب بھی کوچنگ کلاسوں کا وجود تھا البتہ آج یہ اربوں کھربوں روپے کی انڈسٹری بن چکی ہے۔ موجودہ ای ڈی/آئی ٹی حکومت سب کی ’خبر گیری‘ کر رہی ہے البتہ کوچنگ کلاس مافیا پر کسی چھاپے کی خبر نہیں آتی۔ کیا سب کچھ ’ٹھیک ٹھاک‘ ہے اور’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ ہورہا ہے؟
(۶) نیٖٹ /جے ای ای امتحانات کا نصاب اُس طرز کا ہے جس سے ۹۵؍ فیصد طلبہ نامانوس ہیں اسلئے کوچنگ کلاس ناگزیر ہوچکے ہیں۔ ملک کے باوقار کالج پہلے اس نظام پر واویلا مچاتے رہے البتہ چند برسوں میں تھک ہار کر وہ بھی اس ’نظام‘ کاحصہّ بن گئے اور اُن کالجوں نے اپنے ادارے کو اِنٹی گریڈیڈ کالج بنا دیا یعنی اُنھوں نے کسی کوچنگ کلاس کی دکان اپنے کالج میں کھولنے کی اجازت دے دی۔ اب تو یہ سمجھنے میں بھی دشواری ہوتی ہے کہ کالجوں میں کوچنگ کلاس چل رہے ہیں یا کوچنگ کلاسیز میں کالج!
(۷)اِن کوچنگ کلاس والوں کی دھاندلیاں آج جگ ظاہر ہیں۔ کیا صرف حکومت اس سے ناواقف ہے کہ کسی نمایاں کامیابی والے طالب علم کو ایک دوکروڑروپے کی رشوت تک دی جاتی ہے کہ وہ اعلان کرے کہ اس نے فلاں کلاس سے کوچنگ لی ہے۔ اِسی لیے نیٖٹ /جے ای ای کے رزلٹ کے دوسرے دن اس طرح کے مضحکہ خیز اشتہارات دکھائی دیتے ہیں کہ ٹاپر طالب علم پر نصف درجن کوچنگ کلاس والے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ان کے یہاں پڑھ کر اوّل مقام حاصل کیا ہے۔ 
(۸)ہماراایک اہم سوال اس امتحان کے نصاب کو ترتیب دینے والوں سے ہے کہ (الف) میڈیکل کے داخلہ امتحان میں فزکس (طبیعات) کی کیا ضرورت ہے؟ (ب) طب کی کون سی برانچ میں فزکس کا استعمال ہوتا ہے؟ (ج) کیا فزکس کا مضمون اس میں اسلئے رکھا گیا ہے کہ وہ بچّوں پر گراں گزرے اور اُن کو ذہنی طورپر ٹارچر کیا جاسکے؟ (د) امتحانی نصاب اور پرچے کے مرتّبین شاید یہ دلیل دیں کہ فزکس میں اسمارٹ سوالات پوچھے جاسکتے ہیں جس میں بہت ذہانت یا حاضر دماغی درکار ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا بائیولوجی(حیاتیات) میں ا سمارٹ سوالات نہیں پوچھے جاسکتے؟ اگر یہ مرتّبین کہتے ہیں کہ بائیولوجی میں اسمارٹ سوالات مرتّب نہیں کئے جاسکتے تو اُنھیں ڈوب مرنا چاہئے کیوں کہ اُس مضمون میں بھی اس درجے وسعت ہے کہ ہر سال دو سو نئے سوالات تو ہم ہی اُنھیں مہیّا کراسکتے ہیں۔ (و)ہمارا سوال یہ بھی ہے کی فزکس میں ۴۵؍ سوالات میں ۳۰۔ ۳۵؍سوالات عددی ہوتے ہیں، کیوں ؟ کل کہیں کوئی یہ بھی مشورہ دے سکتا ہے کہ ریاضی (میتھ میٹکس) کو بھی میڈیکل داخلہ امتحان (نیٖٹ) میں شامل کیاجائے؟ 
(۹)ہمارا ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ یہ نیٖٹ امتحان کا پرچہ مرتّب کرنے والوں کی ذہنی صحت کا جائزہ لیا جاتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ مرتّبین اُن ناکام لوگوں کی جھُنڈ ہے جن کو اپنے زمانے میں ڈاکٹر بننا تھا مگر وہ ناکام ہوئے۔ وہ ناکامی اُن کے لاشعور پر حاوی ہے اسلئے اُنھوں نے طے کیا کہ نیٖٹ کا پرچہ اس قدر مشکل مرتّب کیا جائے کہ کوئی ڈاکٹر بن ہی نہ پائے؟ اس پر تحقیق ضروری ہے۔ 
(۱۰)کووِڈ ۱۹؍کے دوران ہمارے ملک کے طبّی نظام کی قلعی کھول چکی ہے، ہمیں کتنے سارے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے لہٰذا میڈیکل کالجوں کی تعداد موجودہ تعداد کے دوگنی ہونی ضروری ہے۔ حکومت چند ایک کالج کھولتی ہے البتہ دھنا سیٹھوں اور شکشن سمراٹوں کو کالج کھولنے کی اجازت دیتی ہے جس میں ایم بی بی ایس میں داخلے کیلئے ایک کروڑ خرچ آتا ہے اور ایم ڈی /ایم ایس کیلئے تین چار کروڑ یعنی عام آدمی اپنے بچّے کو وہاں داخلہ دلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ 
خواتین و حضرات! اس اندھیر نگری کا علاج کیا ہے؟ احتجاج، عوامی احتجاج، راستوں پر، سڑکوں پر، جو ووٹ مانگنے آتے ہیں اُن کے گھروں پر۔ یہ ملک کی صحت کا معاملہ ہے اور تعلیمی نظام کا بھی، اس کیلئے ’بھارت بند‘ کا اہتمام بھی بہت مناسب اقدام ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK