یہ کہنا کہ بیٹیاں اسی صورت میں محفوظ رہ سکتی ہیں جبکہ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیاں برسر اِقتدا ر ہوں، ان کی ذہنی قلاشی کو ظاہر کرتا ہے۔
EPAPER
Updated: November 18, 2024, 3:00 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
یہ کہنا کہ بیٹیاں اسی صورت میں محفوظ رہ سکتی ہیں جبکہ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیاں برسر اِقتدا ر ہوں، ان کی ذہنی قلاشی کو ظاہر کرتا ہے۔
سیاست سے جب عوامی موضوعات غائب ہو جاتے ہیں توسیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے نیتاؤں کی زبان سے بہت کچھ ایسا نکلنے لگتا ہے جو مہذیب سماج میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ پارلیمانی الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران بی جےپی لیڈروں نےاکثریتی طبقے کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کے خلاف جو سطحی باتیں کہی تھیں ، اب جھارکھنڈ، مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں کے ضمنی انتخابات کی ریلیوں میں بیانات کی سطح اس سے بھی نیچے پہنچ گئی ہے۔ منگل سوتر، مٹن اور مچھلی سے آگے بڑھ کر اب بیٹوں کی عصمت کو انتخابی ریلیوں کا موضوع بنا دیا گیا ہے۔ بھگوا لیڈروں کا کہنا ہے کہ اگر اقتدار، حزب اختلاف کو مل گیا تو بیٹیاں محفوظ نہیں رہیں گی۔ اس الزام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیٹیاں اسی صورت میں محفوظ رہ سکتی ہیں جبکہ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیاں بر سر اقتدا ر ہوں۔ ملک میں خواتین کی حفاظت کے حوالے سے گزشتہ دس برسوں کا ڈیٹا جو حقیقت بیان کرتا ہے وہ اس زعفرانی دعوے کو جھوٹا ثابت کرتا ہے، اس کے باوجود انتخابی ریلیوں میں جس طرح اس موضوع پر زور دیا جارہا ہے وہ سماج خصوصاً خواتین کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی کا نمونہ ہے۔
انتخابی مہم میں عوامی مسائل اور موضوعات پر مذہبی اور سیاسی منافرت زدہ بیانات کو ترجیح دینا دائیں بازو کی سیاسی حکمت عملی کا ناگزیر جزو رہا ہے۔ ۲۰۱۴ء سے اسی حکمت عملی کو بروئے کار لا کر بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیاں الیکشن میں کامیابی حاصل کرتی رہی ہیں۔ اس طرز سیاست پر عمل پیرا لیڈر عوامی مسائل کا ذکر برائے نام کرتے ہیں اور اس ذکر میں بھی بیشتر باتیں جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں۔ جب ان باتوں کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے تو انھیں ’انتخابی جملہ ‘ کہہ کر جوابدہی کو سرے سے ختم کر دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب عوام بھی اسے ہی ملک کا سیاسی مقدر سمجھ بیٹھے ہیں ، اسی لئے نیتاؤں کے کسی بھی لغو اور بیہودہ بیان پر رد عمل ظا ہر نہیں کرتے۔ حالانکہ انتخابی جمہوریت میں اقتدار پر کسی ایک پارٹی کا اجارہ نہیں ہوتا اور یہی وہ عمل ہے جو ملک و معاشرہ کو ان ممکنہ خرابیوں اور بدعنوانیوں سے محفوظ رکھتا ہے جس کا براہ راست اثر عوام کے معیار زندگی پر پڑتا ہے۔ بی جے پی کے ذریعہ جس طرح بیٹیوں کی حفاظت کو سستا سیاسی موضوع بنادیا گیا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔
یہ بھی پڑھئے:فلمی پردے کا ہیرو سیاسی اسٹیج پر ویلن کی زبان بولنے لگا
اس ضمن میں ان حقائق پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو موجودہ سماجی نظام میں خواتین کے مقام و مرتبہ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ عورتیں صرف مردوں کے حکم (جائز اور ناجائز) کی پابند ہوں ۔ جدید تعلیم میں ان کی فعال شراکت نے انھیں سوچنے ، سمجھنے کی وہ صلاحیت عطا کر دی ہے کہ وہ زندگی کے بعض شعبوں میں مردوں سے آگے نکل چکی ہیں۔ ملک کی موجودہ تعلیمی صورتحال بھی اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ لڑکیوں کی کارکردگی بیشتر لڑکوں سے بہتر ہوتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کیلئے یہ کہنا کہ اگر اپوزیشن کو اقتدار حاصل ہوا تو ان کی عصمت محفوظ نہیں رہے گی ، بی جے پی لیڈروں کے ذہنی افلاس کو ظاہر کرتا ہے۔ ان نیتاؤں کے اس دیوالیہ پن سے زیادہ افسوس اس پر ہے کہ ایسی غیر انسانی اور بیہودہ باتیں سن کر ریلیوں میں شامل ہجوم تالیاں بجاتا ہے۔ عوام کے اس رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دائیں بازو کے سیاسی لیڈروں نے ان کی سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت کو ہی معذور کر دیا ہے۔
بیٹیوں کی حفاظت کیلئے فکرمندی ظاہر کرنے والے بھگوا لیڈروں کو انتخابی فائدے کیلئے ایسے حساس موضوع پر کچھ کہنے سے قبل نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکی ان تفصیلات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں خواتین کے خلاف جرائم کے معاملات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ این سی آر بی کے اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے جرائم کے معاملات انہی ریاستوں میں زیادہ ہوئے ہیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اس ضمن میں خاص طور سے یو پی ، راجستھان، مدھیہ پردیش کے علاوہ دہلی اوربنگال میں خواتین کے خلاف جرائم کے معاملات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان میں اول الذکر تین ریاستوں میں بی جے پی بر سراقتدار ہے۔ این سی آر بی کی سالانہ رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم پر قابو پانے میں وہ ریاستی حکومتیں ناکام ثابت ہوئی ہیں جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے۔ این سی آر بی کے علاوہ ٹھامسن ریوٹرس فاؤنڈیشن کی ۲۰۱۸ء کی سروے رپورٹ میں ہندوستان کو خواتین کیلئے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شامل کیا گیا تھا۔ ایسی صورت میں بیٹیوں کی حفاظت کیلئے فکر مند بھگوا لیڈروں کو اپوزیشن پر نشانہ سادھنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔
خواتین کے خلاف جرائم کے معاملات میں اضافہ ایک طرف جہاں سماج کی بے حسی کو اجاگر کرتا ہے وہیں سیاسی سطح پر بھی ایسے نیتاؤں کی تعداد کچھ کم نہیں جو اس طرح کے معاملات میں ملوث ہوں۔ اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس اینڈ نیشنل الیکشن واچ نامی تنظیم کے سروے میں یہ کہا گیا ہے کہ اس وقت مرکز اور ریاستی ایوانوں میں ۱۳۰ ؍ سے زیادہ اراکین ایسے ہیں جو اس طرز کے معاملات میں ملوث رہے ہیں۔ اس معاملے میں بھی اعداد وشمار کے لحاظ سے بی جے پی سر فہرست ہے۔ اس پارٹی سے وابستہ عوامی نمائندوں کے خلاف ایسے۴۴؍ کیس درج ہیں۔ تعجب اس پر ہے کہ ان حقائق کی موجودگی میں بھی بی جے پی لیڈر بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ اپوزیشن پارٹیوں کے متعلق خواتین کو خوف زدہ کر رہے ہیں۔
’ناری شکتی اور سمان‘کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والے بی جے پی لیڈروں کی اس سلسلے میں مصنوعی فکر مندی صرف انتخابی فائدہ کی حد تک محدود ہے۔ اگر خواتین کی حفاظت کیلئے یہ پارٹی واقعی سنجیدہ ہوتی تو صرف زبانی جمع خرچ کے بجائے ایسے ٹھوس اقدامات کو ترجیح دیتی جو اس مسئلے کے تدارک میں کارگر ثابت ہوتے۔ گزشتہ دنوں انتخابی ریلیوں میں وزیر اعظم نے بھی اس موضوع پر اپنے انداز میں بہت کچھ کہا۔ عوام کو درپیش مہنگائی اور بے روز گاری جیسے مسائل پر بات کرنے کے بجائے ایسے مصنوعی موضوعات کی مسلسل تکرار کرنے والے وزیر اعظم یہ بھول گئے کہ ان کی آبائی ریاست گجرات میں خواتین کی ابتر اور تشویش ناک صورتحال کو اجاگر کرنے والی خبر بھی گزشتہ سال سامنے آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ۳۰؍ ہزار سے زیادہ گجراتی خواتین لاپتہ ہیں۔ گجرات میں بھی بی جے پی ہی بر سر اقتدار ہے۔
آنجہانی سنندا پشکر کو ۵۰؍ کروڑ کی گرل فرینڈ اور سونیا گاندھی کو کانگریس کی وِدھوا کہنے والے وزیر اعظم ان دنوں جس طرح بیٹوں کے تحفظ کیلئے فکر مند ی ظاہر کررہے ہیں اسے دیکھ کر بہ یک وقت حیرت اور افسوس ہوتا ہے۔ حیرت اس پر کہ اگر واقعی بیٹوں کے تئیں عزت و احترام کا سچا جذبہ ان کے دل میں موجزن ہے تو سنندا پشکر ، سونیا گاندھی اور ممتا بنرجی کیلئے نازیبا القاب کا استعمال چہ معنی دارد؟ افسوس اسلئے کہ ایسے حساس سماجی موضوع کو جس انداز میں انتخابی ریلیوں میں بیان کیا گیا وہ کسی طور سے بھی مہذب سماج کے شایان شان نہیں ہے۔ اپوزیشن سے خائف بی جے پی لیڈروں کی ایسی بیہودہ بیان بازی کو وہی خواتین مسترد بھی کر سکتی ہیں جنھیں یہ اندازہ ہے کہ بھگوا لیڈروں کے یہ بیانات صرف ووٹ حاصل کرنے کا ایک حربہ ہیں۔
ابھی چند دنوں قبل یوپی کے پیلی بھیت سے ایسی دل دہلا دینے والی خبر سامنے آئی جو بیٹیوں کی حفاظت کیلئے فکر مند بھگوا لیڈروں کی اصلیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس خبر کے مطابق پیلی بھیت ضلع کے پورن پور اسمبلی حلقے سے بی جے پی ایم ایل اے بابو رام پاسوان کے چچا زاد بھائی پھول چند کو کچھ دبنگوں نے اس قدر زد و کوب کیا کہ ان کی موت ہو گئی۔ یہ حادثہ اسلئے پیش آیا کہ یہ غنڈے پھول چند کی پوتی کو جبراً اٹھالے جانا چاہتے تھے۔ اپنی پوتی کو ان غنڈوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش میں پھول چند کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ایک سروے کے مطابق ملک میں دلت خواتین کی آبرو ریزی کے معاملات میں ۲۰۱۵ء کے بعد سے ۴۵؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ایسے سنگین مسئلے کے حوالے سے اپوزیشن کو ہدف بنانے کے بجائے اس کے ٹھوس تدارک پر غور کرنا اور قانون کے نفاذ میں کسی بھی طرح کے تعصب سے بالاتر ہو کر خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہئے۔