متھن نے جس طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری زبان استعمال کی، وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کی نظر میں قانون و آئین کی کوئی اہمیت نہیں ہے
EPAPER
Updated: November 10, 2024, 12:27 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
متھن نے جس طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری زبان استعمال کی، وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کی نظر میں قانون و آئین کی کوئی اہمیت نہیں ہے
متھن چکرورتی نے فلمی زندگی میں کئی طرح کے کردار ادا کئے ہیں۔ اداکاری کے لحاظ سے وہ ایک اوسط درجے کے اداکار ہیں لیکن ڈانس میں ان کی مہارت کے سبھی قائل رہے ہیں۔ انھوں نے۳۰۰؍ سے زیادہ فلموں میں اداکاری ہے جن میں ہندی ، بنگالی، اڑیہ، بھوجپوری اور دیگر زبانوں کی فلمیں شامل ہیں۔وہ فلمی دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ ‘ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ متھن نے اپنے فلمی کریئر میں کچھ منفی کردار بھی نبھائے ہیں۔ ایسی ہی ایک فلم ’جلاد‘ میں ویلن کا کردار ادا کرنے پر انھیں ۱۹۹۶ء میں فلم فیئر اور اسکرین ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ان کا فلمی کریئر جب رو بہ زوال ہوا تو انھوں نے سیاست میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ترنمول کانگریس میں شامل ہو کر وہ راجیہ سبھا تک پہنچے لیکن ۲۰۱۶ء میں انھوں نے ایوان بالا کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد انھوں نے بی جے پی جوائن کرلی اور یہاں سے ان کی دوسری سیاسی پاری کاآغاز ہوا۔ اس پارٹی سے وابستہ ہونے کے بعد ان کی شخصیت کا وہ روپ ظاہر ہوا جو اُن کے وجود کی اصلیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس وقت وہ بھگوا پارٹی میں نمایاں مقام حاصل کرنے کیلئے جو کچھ کر رہے ہیں وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ یہی ان کی اصلیت ہے جس پر ان کی فلمی شہرت نے پردہ ڈال رکھا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: فسادات کے اسباب و نتائج کا جائزہ انسانی بنیادوں پر لینا چاہئے
متھن نے گزشتہ ۲۷؍ اکتوبر کو کولکاتا میں بی جے پی کے منچ سے جو کچھ کہا ،وہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ نکسلی موومنٹ سے ان کی سابقہ وابستگی کے اثرات پھر سے ان کی شخصیت پر ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اس پروگرام میں مرکزی وزیر داخلہ اور بی جے پی کے دیگر قدآور لیڈروں کی موجودگی میں متھن نے بنگال میں آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اقتدار کے حصول کیلئے جس عزم کا مظاہرہ کیا، اس میں سیاسی شعور سے زیادہ ان کی وہی فطرت نمایاں ہورہی تھی جو اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے تشدد کی راہ پر چلنے کو بھی جائز سمجھتی ہے۔ متھن نے جس طرح مغربی بنگال کے مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری زبان استعمال کی وہ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ ان کی نظر میں قانون اور آئین کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اپنے خطاب میں انہوں نے ریاست کی ’مسند‘ حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی کرنے کا عزم ظاہرکیا۔ انھوں نے کئی بار ’کچھ بھی کریں گے‘ کا فقرہ دہرایا اور پھر فخریہ انداز میں یہ بھی کہا کہ وہ وزیر داخلہ کی موجودگی میں ’کچھ بھی کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں‘ اور اس ’کچھ بھی کرنے ‘ میں بہت سارے معنی پوشیدہ ہیں۔ آخر میں متھن نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اس کچھ بھی کرنے سے مراد مسلمانوں کے خلاف تشدد برپا کرنا ہے۔
متھن نے اپنی اُس اشتعال انگیزی کا دفاع کرتے ہوئے ترنمول کانگریس کے ایک لیڈر کے ایک بیان کا حوالہ دیا جس میں مبینہ طور پر ہندوؤں کے خلاف اسی طرح کی باتیں کہی گئی تھیں۔ انھوں نے اس لیڈر کا نام تو نہیں لیا لیکن ان کا اشارہ شاید ہمایوں کبیر کی طرف تھا۔ ہمایوں کبیر نے لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران اپنی ایک تقریر میں اسی طرح کی بات کہی تھی جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ان پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ہمایوں کبیر نے اس وقت یہ وضاحت کی تھی کہ انھوں نے یوپی کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کے اس بیان کے جواب میں یہ بات کہی تھی جس میں آدتیہ ناتھ نے ہندو ووٹروں سے سماجی تفریق والے ۸۰؍ اور ۲۰؍ کے فارمولے پر عمل کرنے کو کہا تھا۔متھن کے ۲۷؍ اکتوبر کے بیان کے بعد غیر جانبدار میڈیا اور سماجی سالمیت کے پیروکاروں کی جانب سے اس بات پر تشویش بھی ظاہر کیاگیا کہ وزیر داخلہ کی موجودگی میں اس سن رسیدہ اداکار نے بنگال کے نوجوانوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کی راہ پرچلنے کا جو مشورہ دیا اس سے ریاست میں نظم ونسق کا مسئلہ سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔متھن کی اشتعال انگیزی پر وزیر داخلہ جس انداز میں مسکرا رہے تھے، اس سے یہ لگتا ہے کہ ان کے نزدیک نظم و نسق کو برقرار رکھنے کی بہ نسبت بنگال میں بی جے پی کی سرکار بنانا ہی ان کا ہدف ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں نے جس طرح سیاست میں تشدد کو ایک جزو کی حیثیت عطا کردی ہے اس کے مد نظروزیر داخلہ سے یہ توقع کرنا ہی بے معنی ہے کہ وہ متھن یا ان جیسے دیگر عناصر کی اشتعال انگیزی پر کوئی رد عمل ظاہر کریں گے۔ ان ۱۰؍ برسوں میں بھگوا پارٹی کے لیڈروں کی انتخابی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ بیشتر نے اسی طرز کی باتیں کرکے ہندو ووٹروں کو اپنے حق میں ووٹ دینے کی حکمت عملی اختیار کی ہے اور خود وزیرداخلہ کا بھی یہی پسندیدہ انتخابی حربہ رہا ہے۔آجکل مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں بھی یہی حربہ استعمال کیا جارہا ہے۔لوک سبھا الیکشن کے بعدبی جے پی کو اندازہ ہو گیا ہے کہ اس کے جھوٹے وعدوں کا رنگ اترنے لگا ہے لہٰذا اب شدت کے ساتھ یہ حربہ استعمال کیا جانے لگا ہے۔
دائیں بازو کی اس منافرت آمیز سیاسی حکمت عملی کواقتدارپرست میڈیا ادارے بڑے شدو مد کے ساتھ عوام تک پہنچا رہے ہیں۔اس وقت ملک کے بیشتر آئینی ادارے اقتدار کی مرضی کے تابع ہو گئے ہیں جس کی سب سے نمایاں مثال الیکشن کمیشن کا وہ رویہ ہے جو بی جے پی لیڈروں کی ایسی اشتعال انگیزی کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب انتخابات میں ان موضوعات کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہ گئی جن کا براہ راست تعلق عوامی بہبود اور ترقی سے ہے۔ کانگریس اور دیگر پارٹیاں اس سلسلے میں جو کوششیں کر رہی ہیں، اقتدار پرست میڈیا ان کوششوں پر بڑی چالاکی سےپردہ ڈالنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ اقتدار اور میڈیا کی اس ملی بھگت نے نہ صرف الیکشن کو عوامی مسائل سے بڑی حد تک لاتعلق بنا دیا ہے بلکہ اس کی وجہ سے سماج میں نفرت اور تشدد کا بازار بدستور گرم ہے ۔ ایسے ماحول میں متھن جیسوںکی اشتعال انگیزی صورتحال کو مزید تشویش ناک بنا سکتی ہے۔
ملک میں دائیں بازو کی سیاست کے قدم جما لینے سے جو شعبہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے ساتھ برہنہ ہو ا ہے وہ اس ملک کی فلم انڈسٹری ہے۔اس سیاسی فضا کے حصار میں آنے کے بعد فلمی دنیا کے سیکولر ہونے کا بھرم بھی جاتا رہا اور اب انڈسٹری میں ایسے نام نہاد فنکاروں کی خاصی تعداد ہو گئی ہے جو فسطائیت کے حامی ہیں۔ ان میں سے بیشتر خود کو صرف سیاست داں ہی نہیں بلکہ سیاسی دانشور بھی سمجھنے لگے ہیں۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ ہندوستانی سیاست کو بخوبی سمجھنے کیلئے جو دیدہ وری درکار ہے اس سے ان نام نہاد سیاسی دانشوروں کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ان کی حیثیت صرف اس مہرے کی سی ہے جو برسر اقتدار سیاسی پارٹی کے نفرت آمیز سیاسی ایجنڈے کو اپنی عوامی مقبولیت کے دم پر سماج میں رائج کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بی جے پی ان کی اس حیثیت بھرپور فائدہ بھی اٹھا رہی ہے۔
فلمی دنیا سے وابستہ ایسے نام نہاد فنکار فسطائی عناصر کے ہاتھوں کا کھلونااسلئے بن گئے ہیں کہ انھیں ان تفتیشی ایجنسیوں کا ڈربھی ستا رہا ہوگا جن ایجنسیوں نے اپوزیشن کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔متھن نے فلمی دنیا سے جو دولت کمائی اس کے ذریعہ اب وہ ہوٹل بزنس کر رہے ہیں۔ ان کے ’مونارک گروپ آف ہوٹلس‘ کی جنوبی ہند میں خاصی شہرت ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ای ڈی اور سی بی آئی کی زد میں آنے سے بچے رہنے کیلئے اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی میں اس طرح کی باتیں کر رہے ہوں لیکن اس طرح کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام کا عندیہ ظاہر کرنا بہرحال ایک اہم قانونی مسئلہ ہے جس پر ان اداروں کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کا اولین فرض قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے۔متھن نے اپنے نفرت انگیز بیان میں ترنمول پارٹی کے جس لیڈر کا حوالہ دیا اس کے خلاف ممتا بنرجی کے ذریعہ کوئی کارروائی نہ کرنے پر افسوس بھی ظاہر کیا لیکن اب ان کی یہ شکایت بھی ختم ہو گئی ہوگی کیوں کہ عوام کو تشدد کی تحریک دینے والے ایسے بیان پربھی نہ صرف ممتا بنرجی خاموش ہیں بلکہ مرکزی وزیر داخلہ اپنی خفیف مسکراہٹ سے ان کی تائید بھی کر تے رہے۔