کچھ فلمی فنکاروں نےملک کے بنیادی تصور میں نفرت اور تشدد کے اُس رنگ کو ملا دیا ہے جو ہندوستان جیسے تہذیبی و ثقافتی تنوع کے حامل ملک کیلئے نقصاندہ ہے۔
EPAPER
Updated: March 17, 2024, 11:59 AM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
کچھ فلمی فنکاروں نےملک کے بنیادی تصور میں نفرت اور تشدد کے اُس رنگ کو ملا دیا ہے جو ہندوستان جیسے تہذیبی و ثقافتی تنوع کے حامل ملک کیلئے نقصاندہ ہے۔
۲۰۲۰ء کے بعد سے اس ملک میں تاریخ کو مسخ کرنے کی ایک مہم سی چل پڑی ہے۔ اس مہم کا خاص مقصد ہندوستان کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرنا اور آزادی کی جد و جہد میں قومی اتحاد کی حمایت کرنے والے لیڈروں کی امیج کو خراب کرنا ہے۔ سیاسی سطح پر اس مہم کے تحت دائیں بازو کی پارٹیاں عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش مسلسل کر رہی ہیں کہ آزادی کے حصول میں نمایاں کردار ادا کرنے والے مہاتما گاندھی اور ان سے فکری ہم آہنگی رکھنے والے کانگریس کے دیگر کئی لیڈر وں کی وجہ سے ’اکھنڈ بھارت‘ کا تصور ریزہ ریزہ ہو گیا۔ ان سیاسی لیڈروں کے یہ مسخ شدہ تاریخی تصورات عوام کے ان حلقوں میں حقیقت کے طور پر رائج بھی ہو جاتے ہیں جنھیں تاریخ کی پیچیدگیوں کا شعور نہیں ہوتا۔ اب سماج میں ان افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو علم سے زیادہ اطلاع پر انحصار کرتے اور اسی اطلاع کو حتمی صداقت تسلیم کر لیتے ہیں ۔ یہ طبقہ ہی دراصل تاریخ کے مسخ شدہ تصورات کی تشہیر میں اہم آلہ کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے بعض افراد فلم انڈسٹری میں بھی پائے جانے لگے ہیں جو نہ صرف سنیما کے پردے پر مسخ شدہ تاریخ کو پیش کرتے ہیں بلکہ غنڈہ گردی بھی کرتے ہیں۔
اس سچائی سے انکار مشکل ہے کہ اب فلم انڈسٹری میں دانشوری کی رمق دھندلی پڑتی جارہی ہے۔ اب اس انڈسٹری میں ان عناصر کا بول بالا ہے جو ہر بات میں اقتدار کے گن گاتے ہوں۔ یہ عناصر کبھی پروڈیوسر، کبھی ڈائریکٹر، کبھی اداکار، کبھی موسیقار، گلوکار اور کبھی نغمہ نگار کے طور پر سامنے آتے ہیں اور ان فنون کے اظہار میں ہر آن اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اقتدار کی جی حضوری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ فلموں کے متعلق ایک عام تصور یہ ہے کہ ان کے ذریعہ سماج میں محبت اور اخوت کے رجحان کو فروغ ملتا ہے لیکن اب اقتدار پرست فلمی فنکاروں نے اس تصور میں نفرت اور تشدد کے اس رنگ کو ملا دیا ہے جو ہندوستان جیسے تہذیبی و ثقافتی تنوع کے حامل ملککیلئے نقصاندہ ہے۔ ان فنکاروں نے فلم ناظرین کی جمالیاتی حس کی تسکین کا سامان فراہم کرنے کے بجائے انھیں اس جذباتی ہیجان میں مبتلا کرنے والی فلمیں بنائیں جو وطن عزیز کے امن و اتحاد کی سازگار فضا کو منفی طور پر متاثر کرتی ہیں۔
فلموں کے ذریعہ تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا ایک مقصد سیکولر افکار کے حامل ان لیڈروں کی امیج خراب کرنا ہے جنھوں نے آزادی کی جد و جہد میں اتحاد بین المذاہب کی حمایت کی تھی۔ اس ضمن میں خصوصاً ہندو اور مسلمان کو ایک مرکز اتحاد پر لانے میں مہاتما گاندھی نے جو فعال کردار ادا کیا تھا، وہ ان عناصر کو قطعی ناپسند ہے جن کی پرورش دائیں بازو کے شدت پسند افکارو نظریات کے زیر سایہ ہوئی ہے۔ یہ عناصر زندگی کے مختلف محاذوں پر سیکولر افکار کی مخالفت کو اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں اور انہی میں سے چند ایک اس وقت بالی ووڈ میں بہت فعال نظر آرہے ہیں ۔ رندیپ ہڈا نامی ایک فلمی اداکار بھی ان دنوں اپنے ناقص تاریخی گیان کو حقیقت کی شکل میں پیش کرنے میں بہت فعال ہو گیا ہے۔ اس کی فعالیت کی وجہ وہ فلم ہے جس میں اس نے اداکاری کی ہے۔ اس فلم کانام ’سواتنتر ویر ساورکر‘ ہے۔ رندیپ نے اس فلم میں ساورکر کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ فلم ممکنہ طور پر ۲۲؍ مارچ کو ریلیز ہوگی۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کے تناظر میں ساورکر کا کردار متنازع رہا ہے اور مورخین کی اکثریت یہ تسلیم کرتی ہے کہ انھوں نے حصول آزادی میں کوئی ایسا نمایاں کارنامہ انجام نہیں دیا تھا کہ جس کی وجہ سے ان کا شمار مجاہدین آزادی میں ہو لیکن اب جب سے ملک میں دائیں باز و کی سیاست نے زور پکڑا ہے اس تصور کو برعکس صورت میں پیش کرنے پر دامے، درمے، سخنے پورا زور لگایا جا رہا ہے۔ اور بات صرف ساورکر تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بابائے قوم کا قتل کرنے والے گوڈسے کی مدح میں بھی کھلے عام قصیدے پڑھے جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:ملبوسات پر شاہ خرچی کا بڑھتا رجحان اور اقتصادی مسائل
رندیپ ہڈا کی مذکورہ فلم کا جوٹیزر ریلیز ہوا ہے اس میں ساورکر کو مجاہد آزادی اور مادر وطن کے ایک ایسے خادم کے طور پر دکھایا گیا ہے جس نے ملک کی عظمت اور وقار کے تحفظ کیلئے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ اگر ساورکر کے اس فلمی روپ کی حقیقت، تاریخی شواہد سے دریافت کی جائے تو ان کی جو تصویر نظر آئے گی وہ اس سے بالکل برعکس ہے۔ فلم ناظرین کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اسکرین پر نظر آنے والے واقعات کو حقیقت تسلیم کر لیتا ہے اور اقتدار کی پروپیگنڈہ مشنری اسی کا فائدہ اٹھاکر ایسی فلمیں بناتی ہے جو دائیں بازو کے افکار و نظریات کی تشہیر میں معاون ثابت ہوں ۔ رندیپ ہڈا کی یہ فلم بھی دراصل اسی پروپیگنڈہ کا ایک جزو ہے جسے پارلیمانی انتخابات سے قبل ریلیز کر کے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ ساورکر کی سوانح سے واقفیت رکھنے والوں کی جانب سےمسلسل اس فلم کی مخالفت کی جارہی ہے کیونکہ فلم میں بعض ایسے مناظر پیش کئے گئے ہیں جو نہ صرف ساورکر کو ایک بلند قامت مجاہد آزادی ثابت کرتے ہیں بلکہ اس طرز پیشکش میں ان عظیم لیڈروں کی شخصیت بھی متاثر ہوئی ہے جنھوں نے ملک کی آزادی کیلئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا تھا۔ فلم میں ساورکر کی قد آوری کو ثابت کرنے کیلئے واقعات کو اس طور سے پیش کیا گیا ہے جن سے سردار بھگت سنگھ، کھدی رام بوس اور سبھاش چندر بوس جیسے لیڈروں کی عظمت پر حرف آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی فلم ساز کو یہ آزادی اور اختیار ہے کہ وہ تاریخی حقائق کو اپنی خواہش کے مطابق جس طور سے چاہے اس طرح پیش کر سکے؟
اس سوال پر غور کرنااسلئے بھی ضروری ہے کہ کیونکہ گزشتہ کچھ برسوں میں بالی ووڈ کے اقتدار پرست عناصر نے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ملک کی تاریخ اور اس کے سماجی و تہذیبی کردار کے ساتھ تحریف و ترمیم کا جو رویہ روا رکھا ہے وہ مجموعی طور پر ملک کی عالمی شناخت کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ساورکر کی مدح و ستائش پر مبنی یہ فلم جب الیکشن سے قبل ریلیز ہوگی تو اس کے ذریعہ ان غلط فہمیوں کو پھر ہوا دینے کی کوشش ہوگی جن کی رو سے مہاتما گاندھی نے ملک کی آزادی میں کوئی ایسا نمایاں کردار ادا نہیں کیا تھا جس کی بنا پر ان کی عظمت کے ترانے گائے جائیں ۔ اس فلم کی تشہیری مہم ان دنوں زوروں پر ہے اور رندیپ مختلف چینلوں پر انٹرویو دیتے نظر آرہے ہیں ۔ ناظرین کو اپنی فلم کی تاریخی اہمیت سے واقف کرانے کی غرض سے جو باتیں وہ کہہ رہے ہیں ان میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن پر حرف گیری کی جا سکتی ہے۔ ان باتوں کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے لیکن رندیپ بہ زعم خود اپنی تاریخ دانی کا اظہار اس طرح کر رہے ہیں جیسے انھیں ۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷ء کی سیاسی اتھل پتھل اور تاریخی پیچیدگیوں کا مکمل ادراک ہے۔ اسی زعم میں انھوں نے گاندھی جی کی کردار کشی کرنے والا یہ بیان دے دیا کہ اگر گاندھی آزادی کی مہم میں شامل نہ ہوتے تو یہ ملک ۱۹۴۷ء سے ۳۵؍ سال قبل آزاد ہو گیا ہوتا۔ بہ ظاہر یہ ایک عام بیان نظر آتا ہے لیکن اس کی تاریخی حیثیت اور حساسیت کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
اپنی فلم اور اپنے خود ساختہ تصورات کو حقیقت ثابت کرنے کے جوش میں رندیپ اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ گئے ہیں ۔ ساورکر کی انگریزوں سے معافی مانگنے کے سلسلے میں رندیپ کا یہ کہنا ہے کہ جو کوئی بھی ایسا کہتا ہے وہ تھپڑ کا مستحق ہے۔ ساورکر کو سواتنتر ویر کے بجائے معافی ویر کہنے والوں کو تھپڑ مارنے والی یہ بات رندیپ نے ایک سے زیادہ مرتبہ کہی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقتدار کی پروپیگنڈہ مشنری میں شمولیت نے انھیں وہ حوصلہ عطا کردیا ہے کہ وہ تاریخی حقائق و شواہد کی مطلق پروا نہیں کرتے اور اگر ان حقائق و شواہد کی رو سے تاریخ پر بات کرے تو اسے نچلا بٹھانے کیلئے وہ تشدد کا سہارا لینا بھی غلط نہیں مانتے۔ یہ لنچنگ والی وہی ذہنیت ہے جو اَب سٹرکوں سے آگے بڑھ کر فلمی دنیا تک پہنچ گئی ہے۔ فلمی صنعت سے متعلق ان افراد کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے جو فلموں کو امن و اتحاد کی پیغام رسانی کا ایک موثر ذریعہ مانتے ہیں ۔ فلم ناظرین کو بھی ایسی فلموں اور ایسے اداکاروں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے جو اپنےمفاد کیلئے نہ صرف تاریخی حقائق کو مسخ کرتے ہیں بلکہ ملک کی مجموعی سیاسی و سماجی شناخت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔