ایک رپورٹ کے مطابق سماج میں ملبوسات پر زیادہ پیسے خرچ کرنے کا رجحان اب رجحان کی حد سے آگے بڑھ کر جنون میں تبدیل ہوچکا ہے۔
EPAPER
Updated: March 10, 2024, 2:19 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
ایک رپورٹ کے مطابق سماج میں ملبوسات پر زیادہ پیسے خرچ کرنے کا رجحان اب رجحان کی حد سے آگے بڑھ کر جنون میں تبدیل ہوچکا ہے۔
ہندوستانی سماج میں مختلف مدوں کے تحت ہونے والے اخراجات کے متعلق وزارت شماریات کی جانب سے گزشتہ دنوں ایک سروے رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ملک گیر سطح پر عوام کے درمیان اشیائے خورد و نوش سے زیادہ ان اشیاء پر خرچ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو اشیاء ظاہری رکھ رکھاؤ اور چمک دمک کو پرشکوہ بنائے رکھتی ہیں۔ ملک کے شہری اور دیہی علاقوں میں اس بڑھتے رجحان کے سبب نہ صرف اقتصادی مسائل روز بہ روز پیچیدہ صورت اختیار کرتے جارہے ہیں بلکہ اس کے سبب زندگی کے ان دیگر شعبوں میں بھی صورتحال بہت اطمینان بخش نہیں ہے جن کا براہ راست تعلق انسان کی ذہنی وجسمانی قوت اور توانائی سے ہوتا ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری کی جانے والی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک کے دیہی علاقوں میں غذائی اشیاء پر خرچ میں ۹؍فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ غیر غذائی اشیاء پر خرچ میں تقریباً۷؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح شہری علاقوں میں یہ تناسب تقریباً۴؍ فیصد اور ۵؍فیصد ہے۔ غیر غذائی اشیاء پر ہونے والے خرچ میں بھی زیادہ تر اُن اشیاء پر خرچ کیا گیا جو مادی شکوہ میں اضافہ نیز تفریح طبع کے مواقع فراہم کرنے والی اشیاء ہیں۔ ان اشیاء میں سر فہرست ملبوسات ہیں۔
اس رپورٹ میں حقائق چونکہ اعداد وشمار میں پیش کئے گئے ہیں لہٰذا اس کے معتبر ہونے پر جلد ہی یقین آجاتا ہے اور سچائی بھی یہی ہے۔ ویسے اگر کوئی اس طرح کی رپورٹ جاری نہ کی گئی ہوتی تب بھی اس حقیقت کو مسترد نہیں کیا جا سکتا تھا کہ سماج میں ملبوسات پر زیادہ پیسے خرچ کرنے کا رجحان اب رجحان کی حد سے آگے بڑھ گیا ہے۔ بعض علاقوں اور بعض گھرانوں میں یہ رجحان کسی حد تک جنون میں تبدیل ہو چکا ہے۔ چونکہ بازار پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے اور عوامی زندگی کے بیشتر معاملات کو اقتصادیات سے اس قدر مربوط کر دیا گیا ہے کہ اب سال کے ۳۶۵؍ دنوں میں کوئی نہ کوئی تقریب یا پروگرام کے انعقاد کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔ بہ ظاہر یہ تقاریب سماجی وا نسانی اقدار کو پروان چڑھانے اور معاشرتی فلاح و ترقی کے نئے امکان کی تلاش سے منسوب ہوتی ہیں لیکن ان مخصوص ایام کیلئے سرمایہ داروں کی جانب سے جو ماحول سازی کی جاتی ہے وہ عوام کو کچھ نہ کچھ خریدنے پر آمادہ کرتی ہے۔ عوام کی یہ آمادگی اس صارفی کلچر کو فروغ دیتی ہے جس میں شاہ خرچی کو قناعت پر فوقیت حاصل ہے۔ چونکہ یہ کلچر اشیاء مرکوز ہے لہٰذا کائنات کے تمام مظاہر اور موجودات کوبشمول انسان صرف ایک شے سمجھتا ہے۔ یہی فکر معمولات حیات میں ظاہر داری کو ایک سوشل اسٹیٹس سمجھتی ہے اور اس معاملے میں دوسروں پر برتری حاصل کرنے کیلئے ان مادی اشیاء کے حصول کو زندگی کیلئے لازمی قرار دیتی ہے جو زندگی کے ظاہر رکھ رکھاؤ کو پر شکوہ بناتی ہیں۔ اس کلچر کا اثر ہے کہ آج سماج میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جواپنی قوت خرید کو ملحوظ رکھے بغیر مہنگے لباس، گاڑیاں، مکان کی تزئین کاری اور دیگر مادی اشیاء کے حصول کو زندگی کیلئے سمجھتے ہیں۔ ان اشیاء میں بھی خاص طور سے ملبوسات پر زیادہ پیسے خرچ کرنے کا رجحان متوسط اور نچلے متوسط طبقہ کا لازمہ بن گیا ہے۔
جس سروے رپورٹ کا حوالہ ابھی پیش کیا گیا اس میں صرف یہی نہیں کہا گیا ہے کہ ملک کے دیہی و شہری علاقوں میں مہنگے ملبوسات کی خرید میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اس سے زیادہ توجہ دینے والی بات یہ ہے کہ غذائی اشیا کو خریدنے کے رجحان میں کمی آئی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عوام کو اب اپنی صحت سے زیادہ اپنے ملبوسات پر خرچ کرنے میں دلچسپی پیدا ہو گئی ہے اور یقینا یہ صورتحال کسی بھی سماج کے ذہنی افلاس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ سچائی محتاج دلیل نہیں ہے کہ جسمانی طور سے صحتمند انسان ہی فہم و دانش کے معاملے میں بھی چاق و چوبند رہتا ہے۔ اب اگر کوئی معاشرہ اس سچائی کو درکنار کر کے صرف ملبوسات اور عارضی آسائش والی اشیاء پر ہی فریفتہ ہو تو بہ آسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سماج میں اقدار حیات کی کیا صورت ہوگی ؟
یہ بھی پڑھئے: کیا راہل کی محنت لوک سبھا انتخابات میں رنگ لاسکے گی؟
اس وقت دنیا کا معاشی نظام جو صورت اختیار کرتا جارہا ہے اس میں اب متوسط طبقہ کا دائرہ روز بہ روز محدود ہوتا جارہا ہے اور اس طبقہ کے بیشتر افراد غربت کی حدود میں داخل ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا کے چند ایک ترقی یافتہ ممالک کو چھوڑ کر بیشتر ملکوں میں نہ تو فی کس آمدنی کی شرح اطمینان بخش ہے، نہ ہی عوام کا معیار زندگی ایسا ہے جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ وہ آسودہ حال ہیں۔ ایسی صورت میں غیر غذائی اشیاء کی خرید پر زیادہ پیسے خرچ کرنے کے رجحان کو کسی طور بھی عقلمندی نہیں کہا جا سکتا۔ عوام سوشل اسٹیٹس کے خود ساختہ تصور کو برقرار رکھنے کیلئے اپنی محنت کی کمائی کا بڑا حصہ مہنگے ملبوسات کو خریدنے میں لگا دیتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ فکر مندی کی بات یہ ہے کہ ان ملبوسات کا استعمال بھی بہت کم مدت تک کرتے ہیں۔ صارفیت نے اشیاء سے متعلق فرسودگی کے جس تصور کو سماج میں رائج کر دیا ہے اس کے سبب اب بیشتر افراد کسی کپڑے کو زیادہ دنوں تک پہننے کو کسر شان سمجھتے ہیں۔ یہ رجحان صرف روزمرہ استعمال ہونے والے کپڑوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ خاص موقعوں کیلئے خریدے جانے والے ملبوسات بھی ایک یا دو مرتبہ سے زیادہ نہیں پہنے جاتے۔ متمول طبقہ اگر یہ رویہ اختیار کرے توبات کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے لیکن اب صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ ان طبقات میں بھی یہ رجحان عام ہوتا جارہا ہے جو زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کی خاطر دن رات محنت کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ رپورٹ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ معمولات حیات میں کن امور کو ترجیح حاصل ہے اور عوام اپنی زندگی کو کس انداز میں گزارنا چاہتے ہیں۔ ترقی اور خوشحالی کا خواہاں سماج تعلیم اور صحت کو اولین ترجیح دیتا ہے کیوں کہ یہی وہ دو شعبے ہیں جو سماج کے اقتصادی معیار کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر اس تناظر میں بات کی جائے تو ہندوستانی معاشرہ واضح طور تضاد کا شکار نظر آتا ہے۔ ایک طرف تو ترقی اور خوشحالی کی تمنا اور دوسری جانب صرف ظاہرداری پر ہی سارا پیسہ خرچ کر دینے کا رجحان۔ صحت اور تعلیم کو ثانوی درجہ پر رکھنے والا سماج حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ نہیں بن سکتا۔ ملبوسات پر خرچ ہونے والے پیسوں کو اگر اچھی صحت اور بہتر تعلیم کیلئے خرچ کیا جائے تو اس کا نتیجہ جسمانی توانائی اور ذہنی رفعت کی صورت میں سامنے آئے گا۔
اس وقت سماج پر صارفیت کا جو غلبہ ہے وہ اس صورت میں بھی نظر آتا ہے کہ اب عوام کی اکثریت مہنگے برانڈ کے کپڑے خریدنے کو ترجیح دیتی ہے۔ لوگوں کے درمیان اپنے سماجی رتبہ کو بلند و بالا بنائے رکھنے کی غرض سے مہنگے اور برانڈیڈ ملبوسات کی خرید اکثر پورے گھر کی معاشی صورتحال کو بگاڑ دیتی ہے۔ ایسی صورت میں زندگی کی ناگزیر بنیادی ضروریات کی تکمیل کیلئے ایسے راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں جو نہ صرف معاشی پریشانی کا سبب بنتے ہیں بلکہ اس کی وجہ سے انسان پوری زندگی نفسیاتی الجھنوں اور فکری انتشار میں مبتلا رہتا ہے۔ اس صورتحال کا بڑا نقصان اقدار حیات کے اس تنزل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جس سے سماج اس وقت جوجھ رہا ہے اور افسوس کہ سماج کے بڑوں کو اس کی فکر نہیں۔
اس وقت پوری دنیا اس نام نہاد سوشل اسٹیٹس کے حصار میں مقید ہو گئی ہے جو انسان کو نہ صرف اقتصادی مسائل سے دوچار کرتا ہے بلکہ اس کا منفی اثر صحت پر بھی ظاہرہوتا ہے۔ جس طرح مہنگے برانڈ کے کپڑے خریدنے کے رجحان میں اضافہ ہوا اسی طرح کھانے پینے کے معاملے میں بھی پیک شدہ برانڈیڈ اشیاء کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ ان اشیاء کے استعمال کے سبب جسم ہر آن نئے امراض کا شکار ہوتا ہے اور اس کے تدارک کیلئے بعض اوقات نہ صرف خطیر رقم درکار ہوتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے گھر کے دیگر افراد بھی مختلف قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پیک شدہ اشیائے خور و نوش کے استعمال کے جسم پر مضر اثرات کے بارے میں میڈیکل شعبہ کے ماہرین کے متواتر انتباہ کے باوجود عوام میں یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ خرید و فروخت کا عمل زندگی کا لازمہ ہے اور اس عمل سے مکمل کنارہ کشی بھی اختیار نہیں کی جا سکتی لیکن عقلمندی کا تقاضا ہے کہ اس عمل سے گزرتے وقت اس کا لحاظ بھی رکھا جائے کہ محنت کی کمائی جن اشیاء پر صرف کی جارہی ہے اس کا اثر زندگی اور سماج پر کس طور سے ظاہر ہوگا؟ اس پر غور کئے بغیر پیسے کا اصراف اکثر پریشان کن مراحل سے دوچار کرتا ہے۔