• Mon, 07 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ سے لبنان تک جو کچھ ہورہا ہے اُس کے بعد کیا اقوام متحدہ کی ضرورت رہ جاتی ہے؟

Updated: October 06, 2024, 1:17 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

عالمی برادری کل بھی بے بس تھی، آج بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے، شہر کھنڈر میں تبدیل ہورہے ہیں اور جو اقوام متحدہ ’’آئندہ نسلوں کو جنگ کی لعنت سے محفوظ رکھنے کیلئے ‘‘ قائم ہواتھا اس کی جنرل اسمبلی سے اسرائیلی وزیراعظم پورے مشرق وسطیٰ کودھمکیاں دے رہا ہے۔

The United Nations was established for peace and order in the world, but is this organization in this position today? Photo: INN
اقوام متحدہ کا قیام دنیا میں امن و امان کیلئے ہوا تھا لیکن کیا یہ ادارہ آج اس پوزیشن میں ہے۔ تصویر : آئی این این

غزہ تباہ ہوچکاہے، اب لبنان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جارہی ہے۔ عالمی برادری کل بھی بے بس اور خاموش تماشائی تھی، آج بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے، ہزاروں  افراد کو مرتے اور شہروں  کو کھنڈر ہوتےہوئے دیکھ رہی ہے۔ اسرائیل کو روکنے کی جرأت کسی میں  نہیں  ہے۔ اسرائیل پر ۷؍ اکتوبر کے حماس کے حملے میں  ۱۲؍ سو اسرائیلیوں کے موت کے انتقام میں   پورا غزہ کھنڈر میں  تبدیل کیا جاچکاہے، ۸۵؍ فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے، ۴۱؍ ہزار ۵۰۰؍ سے زائد جاں  بحق ہوچکے ہیں (جن میں   ۷۰؍  فیصد خواتین اور بچے ہیں ) مگر اسرائیل کا ابھی رُکنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ غزہ میں  قتل عام کے خلاف گزشتہ ایک سال سے صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ انفرادی سطح پر بھی، حکومتی سطح پر بھی اور اقوام متحدہ کی سطح پر بھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس زبانی جمع خرچ میں امریکہ بھی پیچھے نہیں  ہے جس کی تائید اور جس کے فراہم کردہ ہتھیار نہ ہوں  تو تل ابیب ایک بم بھی داغنے کی سکت نہیں رکھتا۔ 
  جس وقت یہ سطریں  لکھی جارہی ہیں، بیروت سے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو شہید کردینے کی خبریں  موصول ہورہی ہیں۔ انہیں   اقوام متحدہ میں  نیتن یاہو کی جنگ جاری رکھنے کی دھمکی کے چند گھنٹوں  بعد کئے گئے انتہائی تباہ کن حملے میں  قتل کردیاگیا۔ بیروت میں  حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹرز پر تل ابیب کی فوجوں   نے امریکہ سے ملنے والے ’بنکر بسٹر بم‘ برسائے جس کے نتیجے میں  چشم زدن میں کم از کم ۶؍ عمارتین ملبے کے ڈھیر میں  تبدیل ہوگئیں  اور ان میں  مقیم افراد اُسی ملبے کا حصہ بن گئے۔ حزب اللہ نے فوری طور پر اپنے سربراہ کی شہادت کی تصدیق نہیں  کی ہے مگر یہ اعتراف کیا ہے کہ حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کے بعد سے اُن سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔ ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کےقتل کے بعد یہ اسرائیل کی دوسری ’’بڑی کامیابی‘‘ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ حماس کو ختم کرسکانہ حزب اللہ کو ختم کرپانا اس کیلئے آسان ہوگا۔ 

یہ بھی پڑھئے:یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا​!

حسن نصراللہ کو قتل کردینے کے دعوے  کے ساتھ ہی اسرائیل کے فوجی سربراہ نے دھمکی دی ہے کہ ’’ہمارے اوزار ابھی ختم نہیں  ہوئے۔ ہمارا پیغام بہت صاف ہے، اسرائیل کے شہریوں  کو اگر کوئی دھمکی دیتا ہے تو ہم جانتے ہیں  کہ اسے کس طرح سبق سکھانا ہے۔ ‘‘ اس سے قبل نیویارک میں جس اقوام متحدہ کا قیام ۷۹؍ سال قبل امن عالم کو یقینی بنانے اور ظالم ممالک کو ظلم سے باز رکھنے کیلئے کیاگیاتھا، اسی کی جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم کو جمعہ کو نیتن یاہو نے یہ کہہ کر ایران اور پورے مشرق وسطیٰ کو دھمکی دینے کیلئے استعمال کیا کہ ’’ایران میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں  اسرائیل کے لمبے ہاتھ نہیں  پہنچ سکتے اور یہ بات پورے مشرق وسطیٰ کیلئے صادق آتی ہے۔ ‘‘ یہ کتنا افسوسناک ہے کہ جس اقوام متحدہ کا قیام خود اس کے چارٹر کے مطابق’’ آنے والی نسل کو جنگ کی لعنت سے محفوظ رکھنا‘‘ تھا، اسی اقوام متحدہ کو کسی ایک ملک نہیں بلکہ پورے ایک خطے کو للکارنے کیلئے استعمال کیا جارہاہے ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کا پہلا آرٹیکل اس عالمی ادارہ کے مقاصد کواس طرح بیان کرتا ہےکہ ’’بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا اور اس مقصد کے حصول کیلئے: امن کو لاحق خطرات کی روک تھام اور ان کے خاتمے کیلئے موثر اجتماعی اقدامات کرنا، جا رحانہ کارروائیوں یا امن کیلئے خطرہ بننے والی دیگر خلاف ورزیوں کو کچلنا اور پُرامن طریقوں سے انصاف کے اصولوں  اور بین الاقوامی قانون پر عمل کرتے ہوئے ایسے بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنا اور صورتحال پر قابو پانا جو نقض امن کا باعث بن سکتے ہیں۔ ‘‘ اقوام متحدہ کے اس بنیادی مقصد کو ملحوظ رکھ کر اگر اس کی ۷۹؍ سالہ تاریخ کا جائزہ لیں  تو وہ کامیاب کم اور ناکام زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کی جانبداری عیاں  ہے۔ عراق پر اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر امریکہ اور اس کے اتحادیوں  کا ’’غیر قانونی حملہ‘‘ ہو یا لیبیا پر سلامتی کونسل کی تائید سےفرانس کے ذریعہ جنرل قذافی کی حکومت کا تختہ پلٹ کر اسے خانہ جنگی کے حوالے کردینے کا معاملہ اقوام متحدہ دونوں  ہی موقعوں  پر نہ غیر جانبدارانہ طریقے سے کام کرسکا نہ امن قائم رکھنے کے اپنے بنیادی مقصد کو حاصل کرنے میں  کامیاب ہوا۔ بین الاقوامی مسائل کے حل کیلئے بننے والے اسی ادارہ کو ۱۹۴۸ء میں   اسرائیل کے قیام کیلئے استعمال کیاگیا جو آج مشرق وسطیٰ میں  امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ نظر آرہاہے۔ امریکہ کیلئے یہ بھسماسُر کی حیثیت اختیار کرگیا ہے جسے نہ وہ قابو میں  رکھ سکتاہے اور نہ دامن چھڑا سکتاہے۔ واشنگٹن کے پاس اس کی تائید کے علاوہ کوئی چارا نہیں  بچا اوراس کی قیمت پوری دنیا چکا رہی ہے۔ 
  ۱۹۴۹ء کے جنیوا کنونشن میں عالمی حقوق انسانی کے تحفظ کیلئے  جنگ سے متعلق جو اُصول وضع کئے گئے ہیں ان کے مطابق آبادی کے کسی حصے کو بطور سزا محصور نہیں کیا جاسکتا، اجتماعی سزا نہیں دی جاسکتی، کسی کے ساتھ ظالمانہ اور غیر انسانی برتاؤ نہیں  کیا جاسکتا۔ جنیوا کنونشن کے تحت جنگ کے دوران عام شہریوں  کو نشانہ بنایا جاسکتاہے، نہ شہری انفراسٹرکچر کو تباہ کیا جاسکتاہے۔ اس کے تحت شہری آبادی کو جبری انخلاء پر مجبور کرنا بھی عالمی اصولوں  کے منافی ہے۔ جنگ کے دوران طرفین کیلئے لازمی ہے کہ عام شہریوں  تک غذا، پانی اور ضروریات زندگی کی رسائی جاری رہے۔ ان اصولوں  کی خلاف ورزی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں  شمار کی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اصولوں  کا اسرائیل نے کبھی پاس رکھا۔ کیا غزہ کی پوری آبادی جنگجوؤں  پر مشتمل تھی کہ اس کے ۸۰؍ فیصد حصے کو کھنڈر میں تبدیل کردیاگیا اور ۸۵؍فیصد شہریوں  کو نقل مکانی پر مجبور کردیاگیا۔ حملوں  میں جنہیں  ماراگیا ان میں  ۷۰؍ فیصد خواتین اور بچے ہیں  جو جنگ کا حصہ تو نہیں  ہوسکتے، کیا اسرائیل کو اس کیلئے جوابدہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اگر نہیں  کی گئی اور اس لئے نہیں  کی گئی کہ اسے امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے تو پھر اقوام متحدہ میں   نشستند، گفتند، برخاستندکی بھی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ اسرائیل جس طرح  شُتر بے مہار کی طرح  غزہ اور لبنان میں  لاشوں  کے ڈھیر لگا رہا ہے، اس کے بعد اقوام متحدہ جیسے اداروں اور جنیواکنونشن کے اصولوں  کی حیثیت  ڈھکوسلے کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK