• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا​!

Updated: September 16, 2024, 3:01 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

بنارس اور متھرا کے مندر مسجد تنازع ، تبدیلی ٔ مذہب اورگئو رکشا جیسے امورسے نمٹنے کیلئے منعقدہ وی ایچ پی لیگل سیل کے پروگرام میں ۳۰؍ سابق ججوں کی شرکت ہو کہ چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر گنپتی پوجا میں وزیراعظم کا ’آن کیمرہ‘ شریک ہونا ہو، دونوں واقعات نے ملک کی عدلیہ کے وقار اوراعتبار کو بری طرح  مجروح کردیا ہے۔

Chief Justice DY Chandrachud welcoming Prime Minister Narendra Modi to his home. Photo: INN
وزیراعظم نریندر مودی کا اپنے گھر پر خیر مقدم کرتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈ۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ ہفتہ کی دو خبریں  ایسی ہیں  جنہوں  نے قانونی حلقوں  میں عرصہ سے جاری چہ میگوئیوں  کو باقاعدہ بحث میں  تبدیل کردیا ہے۔ ایک طرف جہاں  اتوار کو دہلی میں  وی ایچ پی کے لیگل سیل کی میٹنگ میں جس میں متھرا کی شاہی عیدگاہ اور بنارس کی گیان واپی مسجد کے تنازع کے ساتھ ہی تبدیلی ٔ مذہب اور گئو کشی جیسے متنازع موضوعات پر بحث ہوئی،  سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ۳۰؍ مختلف جج اور ملک کے وزیر قانون نے شرکت کی وہیں  دوسری جانب وزیراعظم نریندر مودی کیمروں  کے لاؤ لشکر کے ساتھ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چُڈ کے گھر گنپتی کی پوجا کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ دونوں  ہی معاملات  بھلے ہی قانوناً غلط نہ ہوں  مگر عدالتی اخلاقیات کے منافی ضرور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی عدلیہ جو عام شہریوں  کی آخری امید ہے، ایک بار پھر موضوع بحث بن گئی ہے۔ 
  چیف جسٹس آف انڈیاڈی وائی چندر چُڈ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ دِن گن رہاتھا کہ کب وہ عدلیہ کی کمان سنبھالیں گےا ور کب حالات بہتر ہوں گے۔ یہ یوں  ہی نہیں  تھا بلکہ ان سے بڑی اُمیدیں   وابستہ تھیں۔ سابق چیف جسٹس دیپک مشرا، رنجن گوگوئی اور شرد اروند بوبڑے کا دَور دیکھ کر پریشان ہو جانے والا ملک کے انصاف پسند شہریوں  کا ایک بڑاطبقہ پُر امید تھا کہ ڈی وائی چندر چڈ کے سپریم کورٹ کی کمان سنبھال لینے کے بعد مثبت تبدیلیاں  آئیں گی۔ یہ امیدیں  کتنی پوری ہوئیں، یہ تو الگ بحث ہے مگر ایسے وقت میں  جبکہ اُن کی سبکدوشی کو مشکل سے ۶۰؍ دن بچے ہیں، اچانک اُن کی رہائش گاہ پر وزیراعظم نریندر مودی کا کیمروں   کے لاؤ لشکر کے ساتھ پہنچنا اور گنپتی پوجا میں شرکت کرنا اور پھر اس کی تشہیر کرنا نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ کئی سوالات کو بھی جنم دیتا ہے۔ 
  یہ اب تک واضح نہیں  ہے کہ چیف جسٹس نے وزیراعظم کو اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیاتھا یا وزیراعظم نے خوداس کی خواہش ظاہر کی تھی اور وہ منع نہیں  کرسکے۔ ہر دو صورتوں  میں   یہ حیران کن  تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ویڈیو سامنے آیا تو بہت سوں  کو جھٹکا لگا۔ ملک کی معروف وکیل اور ماہر قانون اندرا جے سنگھ نے تو اسے اُس عہد کی خلاف ورزی قراردیا ہے جو چیف جسٹس نے بطور جج عہدہ سنبھالتے ہوئے لیاتھا۔ ہمارے آئین نے عاملہ اور مقننہ کو ایک دوسرے سے آزاد رکھا ہے۔ یہ دور تو خیر روایتوں  کو توڑنے کیلئے یاد رکھا جائےگا ورنہ عام روایت یہی رہی ہے کہ جج خود اس کا خیال رکھتے تھے کہ ان کے کسی عمل سے عدلیہ کے وقار کو چوٹ نہ پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر جج ایسے معاملات کی سماعت سے خود کو الگ کرلیتے ہیں  جس میں  کسی ایک فریق سے ان کا مثبت یا منفی کسی بھی طرح کا کوئی تعلق ہو یا رہا ہو۔ سپریم کورٹ میں  حکومت کے خلاف ایک نہیں  متعدد مقدمات زیر سماعت ہیں، حکومت کے مکھیا وزیراعظم نریندر مودی ہیں، ان کے اور چیف جسٹس ذاتی مراسم کا اس طرح  اظہار اوراس کی تشہیر اُن مقدمات کے فیصلوں  پر سوال کھڑے کرسکتی ہے جن کی ایک فریق حکومت ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:مرکز کا یوٹرن جمہوریت کیلئے فال ِ نیک

جس طرح  یہ عدالتی اصول ہے کہ’’ انصاف نہ صرف ہونا چاہئے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے‘‘اسی طرح یہ بھی اصول ہے کہ ’’جج کو نہ صرف غیر جانبدار ہونا چاہئےبلکہ غیر جانبدار نظر بھی آنا چاہئے۔ ‘‘ اس کا پاس رکھنے کی ہمارے عدالتی نظام میں  کیسی شاندار روایت رہی ہے، اس کی ایک مثال ملک کی معروف صحافی سرو پریہ سانگوان جو پہلے این ڈی ٹی وی میں تھیں  اور اب بی بی سی سے وابستہ ہیں، نے دی ہے۔ چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر پوجا میں وزیراعظم کی شرکت کا ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد جمعرات کو کئے گئے ایک ٹویٹ میں   انہوں  نے بتایاکہ وہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو ایک پروگرام میں  مدعو کرنا چاہتی تھیں مگر جج نے شرکت سےاسلئے انکار کردیا کہ پروگرام کا انعقاد کرنےوالے شخص کا ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں  زیر سماعت تھا حالانکہ وہ مقدمہ مذکورہ جج کی عدالت میں نہیں تھا۔ 
 اس کی تائید سابق چیف جسٹس آر ایم لوڈھا کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ ’’آئینی طور پر عدلیہ اور حکومت کے اختیارات کوالگ الگ رکھا گیاہے، عام طور پر عدلیہ اور عاملہ کے درمیان ایک خاص فاصلہ برقرار رکھاجانا چاہئے۔ اِس طرح کی ملاقاتوں سے عدلیہ کی شبیہ متاثر ہوتی ہے گوکہ ان کا اثر فیصلوں  پر نہیں   پڑتا۔ ‘‘ الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھربھی اسی رائے کے حامل نظر آئے کہ ’’ اس سے یقینی طور پر عوام میں   ان (چیف جسٹس) کی شبیہ خراب ہوگی۔ ممکن ہے کہ اس سے غلط پیغام جائے۔ ‘‘ معروف وکیل اندرا جے سنگھ کی تشویش ان سب سے بڑھ کر اور باجواز ہے کہ ’’آئینی عہدوں  پر فائز دوشخصیات کا عوامی سطح پر پوجا کے پروگرام میں  یوں  شریک ہونا اس سوال کو ہَوا دیتا ہے کہ کیا عدلیہ میں بھی مذہب کی مداخلت ہورہی ہے؟‘کچھ لوگ شخصی آزادی کا حوالہ دیکر چیف جسٹس کا دفاع کررہے ہیں مگر آئینی عہدوں  پر فائز افراد کیلئے ان کے عہدے سے وابستہ اخلاقیات شخصی آزادی پر ہمیشہ مقدم رہی ہیں۔ عدالتی اصلاحات اور جوابدہی کی وکالت کرنےوالی تنظیم ’’کمپین فارجوڈیشیل اکاؤنٹی بیلیٹی اینڈ ریفارم‘‘کا یہ بیان مشعل راہ ہونا چاہئے کہ ’’عدلیہ جس کی ذمہ داری آئین کا تحفظ اور بلاخوف خطر انصاف کو یقینی بنانا ہے، اسے حکومت کے اثر ورسوخ سے پوری طرح آزاد نظر آنا چاہئے۔ ‘‘
  کبھی کبھی اخلاقیات کا پاس ملازمت کے خاتمے اور عہدہ سے سبکدوشی کے بعد بھی رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں   وی ایچ پی کے’لیگل سیل‘ کے پروگرام میں  ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ۳۰؍ سابق ججوں  کی شرکت کم پریشان کن نہیں  ہے۔ تبدیلی ٔ مذہب کا معاملہ ہو، گئو رکشا کا موضوع ہویا پھر متھرا اور بنارس کی مساجد کا تنازع، یہ بی جےپی کے انتخابی موضوعات ہیں۔ جس میٹنگ میں  ان پر گفتگو ہورہی ہےان میں  اگر سابق جج شرکت کریں گے تو بطورجج ان کے ذریعہ سنائے گئے سابقہ فیصلوں   کے تعلق سے شبہ پیدا ہوسکتاہے۔ 
  سپریم کورٹ کے جو ۲؍ سابق جج اس پروگرام میں   شریک تھے وہ جسٹس آدرش کمار گوئل اور جسٹس ہیمنت گپتا ہیں۔ میڈیا نے پروگرام میں ان کی شرکت کے ساتھ ہی یہ تفصیل بھی بتائی ہے کہ انہوں  نے بطور جج کیا فیصلے سنائے تھے۔ ۲۰۲۲ء میں  سپریم کورٹ سے سبکدوش ہونےوالے جسٹس ہیمنت گپتا نے پروگرام میں شرکت کا دفاع کرتے ہوئے بھلے ہی یہ کہا ہے کہ ہندوستان کے ایک عام شہری کی حیثیت سے وہ اس کیلئے آزاد ہیں، مگراب ان کی اس شرکت کو ذہن میں رکھ کر ان کے ذریعہ سنائے گئے فیصلوں  کا جائزہ لیا جانے لگاہے۔   انہوں  نے حجاب پر پابندی کے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کی دورکنی بنچ کے اختلافی فیصلے میں   پابندی کی تائید کی تھی یہ الگ بات ہے کہ ان کے ساتھ جج پابندی کے خلاف تھے اس لئے معاملہ سہ رکنی بنچ کو سونپنا پڑا۔ اسی طرح  جسٹس گوئل کا وہ فیصلہ بھی موضوع گفتگو بن گیا ہے جس میں  انہوں  نے ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے تحت ماخوذ کئے گئے ملزمین کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیاتھا۔ ان کے اس فیصلے کو مذکورہ قانون کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا اور دلتوں  کی جانب سے ملک گیر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ وی ایچ پی کے پروگرام میں ان کی شرکت کے بعد ان دونوں  ججوں  کے مذکورہ فیصلوں  کو نئے زاویے دیکھا جانے لگا ہے۔ ایسے وقت میں  جبکہ ممتابنرجی حکومت کے خلاف مسلسل فیصلے سنانے والا کولکاتا   ہائی کورٹ کا ایک جج اچانک استعفیٰ دے کر بی جے پی میں  شامل ہوتا ہےا وراس کے ٹکٹ پر پارلیمانی الیکشن لڑتاہے، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا ایک جج سبکدوشی کے بعد بی جےپی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتا ہےا ور بی جےپی کی ایک لیڈر مدراس ہائی کورٹ کی جج بن جاتی ہیں، عدلیہ پر پہلے ہی مسلسل سوال اٹھ رہے ہیں، چیف جسٹس سے اگر یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اس کو سنبھالنے کی کوشش کریں  تو بے جا نہیں  ۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ عدالتیں انصاف کیلئے ملک کے شہریوں  کی آخری امید ہیں، اگر یہ امید ختم ہوگئی تو پھر لوگ عدالتوں  کا رُخ کرنے میں  بھی ہچکچانے لگیں گے۔ بقول راحت اندوری: 
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا ​یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا​

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK