سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے نے۱۹۶۷ءکے عزیز باشا مقدمے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر حکومت کے موجودہ موقف کو بھی رد کر دیا ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
EPAPER
Updated: November 10, 2024, 12:46 PM IST | Shafi Qadwai | Mumbai
سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے نے۱۹۶۷ءکے عزیز باشا مقدمے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر حکومت کے موجودہ موقف کو بھی رد کر دیا ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
زمانےکی چیرہ دستیوں سے ہراساں ایک شاعر نے استفسار کیا تھا کہ خون کے دھبے دھلیں گےکتنی برساتوں کے بعد۔ عدلیہ کی ستم ظریفی کا شکار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو۵۷؍برساتوں کے طویل اور صبر آزما انتظار سے گزرنا پڑا اور۸؍نومبر کو اسے اپنے مقصد میں ایک کامیابی حاصل ہوئی کہ اس پر اقلیتی کردار نہ ہونے کا لیبل ہٹ گیا۔
عدالت عظمیٰ نے جمعہ کو یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق مقدمے کے فیصلے میں چار تین کی اکثریت سے عزیز باشا کیس میں دیئے گئے اپنے۱۹۶۷ء کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے انکار کی اساس تھا کہ اس کے بعد تمام مقدموں میں عدالتوں نے عزیز باشا کیس کو نظیر مانتے ہوئے یونیورسٹی کے خلاف فیصلے سنائے۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس نے خود اپنے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس نے اے ایم یو کے اقلیتی کردار کے حوالے سے نظیری حیثیت حاصل کر لی تھی۔
سپریم کورٹ نے اقلیتی کردار سے متعلق اصولوں کی صراحت بھی کر دی تاکہ ان کی روشنی میں اے ایم یو کے اقلیتی کردار کا نئے سرے سے تعین کیا جائے۔ اس کیلئے اس نے تین رکنی بنچ تشکیل دے کر اقلیتی کردار سے متعلق نئے ضابطے متعین کرنے کا حکم صادر کیا۔واضح ہو کہ اسی سال فروری میں سپریم کورٹ کی ۷؍ رکنی بنچ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے متعلق مقدمے کی مسلسل ۸؍ دنوں تک سماعت کی اور چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) جسٹس دھننجے وائی چندرچڈ، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرانے اکثریت پر مشتمل مذکورہ بالا فیصلہ سنایا۔
بنچ کے دیگر تین ججوں جسٹس سوریہ کانت، جسٹس دیپانکر دتّہ اور جسٹس ستیش چندر شرما نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ دو ججوں کی بنچ کی طرف سے ۷؍ ججوں کی بنچ کو مقدمہ ریفر کرنا قانون کی رو سے غلط تھا کیونکہ دو ججوں کی بنچ بغیر سماعت کے کسی معاملے کو آئینی بنچ کے پاس نہیں بھیج سکتی۔ اسے مقدمے کو پہلے تین ججوں کی بنچ کو ریفر کرنا چاہئے تھا۔
سینئر وکیل راجیو دھون، کپل سبل، سلمان خورشید اور ایم آر شمشاد نے اے ایم یو اور دیگر درخواست گزاروں کی جانب سے اے ایم یوکے اقلیتی کردار کے حق میں عرضیاں پیش کیں اور موقر عدالت سے عزیز باشا کے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی درخواست کی۔موجودہ معاملے میں۴؍ ججوں کی اکثریت نے فیصلہ سنایا کہ ’’عزیز باشا مقدمے میں دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کے بارے میں فیصلہ موجودہ کیس میں درج اصولوں کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے۲۰۰۶ء کے فیصلے اور اس کی درستگی کا فیصلہ کرنے کیلئے ایک سہ رکنی بنچ کی تشکیل کیلئے کاغذات چیف جسٹس کے سامنے رکھے جائیں گے۔‘‘
اہم بات یہ ہے کہ اس فیصلے کے تحت کسی ادارے کی اقلیتی حیثیت کے تعین سے متعلق قانونی اصول ضرور طے کئے گئے ہیں لیکن اے ایم یو کے معاملے میں حقائق پر مبنی فیصلہ دینے سے گریز کیا گیا ہے۔عدالت نے ایسا کیوں کیا ،اس کا جواب تو قانونی ماہرین ہی دے سکتے ہیں لیکن ایک بات جو فال نیک تصور کی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس طرح ملک کے ایسے تمام اداروں کے اقلیتی کردار کے حق میں واضح خطوط متعین ہو جائیں گے جن کا قیام متعلقہ اقلیتی برادریوں نے خود کیا تھا ، خواہ وہ حکومت سے مالی امداد بھی حاصل کر رہے ہوں۔موجودہ فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس چندر چڈ نے نوٹ کیا کہ کسی ادارے کے اقلیتی کردار کے خلاف فیصلہ صرف اسلئے نہیں کیا جا سکتا کہ اسے پارلیمانی قانون سازی کے تحت قائم کیا گیا ہے، اور یہ ثابت کرنا بھی ضروری نہیں ہے کہ اقلیتی ادارے کا انتظام متعلقہ اقلیتی گروہ کے پاس ہے بلکہ جانچ کو موضوع یہ ہونا چاہئے کہ آیا یہ ادارہ اقلیتی کردار کو ظاہر کرتا ہے اور اقلیت کے مفاد میں کام کررہا ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ’’جنہیں آپ دشمن سمجھ رہے تھے یہ وہ لوگ تھے جو آپ سے انصاف کی امید کرتے رہے‘‘
اس کے علاوہ ججوں کی اکثریت نے کہا کہ کسی ادارہ کا اقلیتی کردار متعین کرتے وقت اس ادارہ کے قیام کے وقت کے معاملات، انتظامات اور دیگر عوامل کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل ۳۰؍ مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ سی جے آئی نے کہا کہ ایک اقلیتی ادارہ لازمی طور پر قائم کیا جائے اور اس کا نظم و نسق اقلیت کے ذریعے ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے بنانے اور اس کو اختیار کیے جانے سے پہلے قائم اقلیتی اداروں کو بھی آرٹیکل۳۰ (۱) کے تحت مساوی تحفظ حاصل ہوگا۔۱۹۶۷ء کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور آئین کے آرٹیکل۳۰(۱) کے تحت اسے تعلیمی ادارہ چلانے کیلئے اقلیت کی بنیاد پر تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اے ایم یو مسلم اقلیتی برادری کے ذریعہ نہ تو قائم کی گئی ہے اور نہ ہی اس کا انتظام اس کے پاس ہے۔
۱۹۸۱ء میں، ملک کی پارلیمنٹ نے’یونیورسٹی‘ کی تعریف کو تبدیل کرنے کیلئے اے ایم یو ایکٹ میں ترامیم منظور کیں تاکہ یہ طے کیا جائے کہ یہ ادارہ مسلمانوں نے اس ارادے کے ساتھ قائم کیا تھا کہ اسے اقلیتی ادارہ کا درجہ دیا جائے۔یہاں یہ بات اہم ہے کہ جسٹس چندرچڈ نے اس مقدمے کی سماعت کے آخری دن اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ۱۹۸۱ءمیں پارلیمنٹ نے ایم یو ترمیمی ایکٹ پاس کرتے وقت پوری دلچسپی نہیں لی یا بے دلی سے کام کیا ورنہ اے ایم یو کے اقلیتی کردار کا معاملہ اسی ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے طے کیا جا سکتا تھا (کیونکہ کسی بھی عدالت کو پارلیمنٹ کے ذریعہ وضع کردہ ایکٹ سے باہر فیصلہ دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے)۔
مذکورہ ترمیمی ایکٹ کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۲۰۰۶ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ان ترامیم کو رد کر دیا اور پھر سے عزیز باشا مقدمے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے اے ایم یو کے اقلیتی کردار پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے جس کی وجہ سے اے ایم یو اور اس وقت کی یو پی اے حکومت کو اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ بعد میں مرکزی حکومت میں تبدیلی کے بعد۲۰۱۶ء میں حکومت کے سابقہ موقف کو تبدیل کرتے ہوئےاین ڈی اے حکومت نے اے ایم یو کے حق میں داخل اپنی اپیل واپس لے لی اور مقدمے کو کمزور کرنے کی غرض سے الٹا یہ موقف داخل عدالت کیا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور عزیز باشا فیصلہ درست ہے۔ مرکزی حکومت نے یہ بھی کہا کہ وہ اے ایم یو ایکٹ میں۱۹۸۱ء کی ترامیم کی حمایت نہیں کرتی ہے۔
حکومت کے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ۲۰۱۶ء میں اے ایم یو کو اقلیتی درجہ کی حمایت واپس لینے کا اس کا فیصلہ ’صرف آئینی تحفظات‘ پر مبنی تھا کیونکہ اس کیلئے قانونی طور پر لڑنے کا سابقہ یو پی اے حکومت کا موقف’عوام کے مفاد کے خلاف اور پسماندہ طبقات کیلئے ریزرویشن کی عوامی پالیسی کے برعکس‘ تھا۔ مہتا نے عدالت سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ اس مقدمہ کا فیصلہ بھی عزیز باشا فیصلہ کی روشنی میں ہی کیا جائے تاکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ’صحیح معنوںمیں قومی اہمیت کا ادارہ‘ قرار دیا جا سکے۔موجودہ مقدمے کی سماعت کے دوران دلائل پیش کرتے ہوئے یونیورسٹی کے وکلا نے اس بات پر زور دیا کہ۱۹۲۰ءمیں قائم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی دراصل وہی ادارہ ہے جسے۱۸۵۷ءمیں سرسید احمد خاں نے مدرسۃ العلوم مسلمانان ہند کے نام سے قائم کیا تھا اور۱۸۷۷ءمیں جسے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے نام سے فروغ دیا گیاتھا۔ اسی ادارہ کو یونیورسٹی کی شکل دینے کیلئے اس وقت کے مسلمانوں اور دیگر قوموں سے متعلق ان کے بہی خواہوں نے اس زمانے میں یونیورسٹی کے قیام کیلئے انگریزوں کے ذریعہ متعین کی گئی لازمی شرط کے طور پر تقریباً۲۰؍لاکھ روپے کی خطیر رقم جمع کرکے اور ضروری اراضی حاصل کی اور۱۹۲۰ءمیں انگریزوں کی پارلیمنٹ سے اے ایم یو ایکٹ پاس کرایا تھا جس کا مقصد مسلمانوں کی تعلیمی ترقی تھا۔
یہ صورت حال ٹھیک ویسے ہی تھی جیسی کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے قیام کے وقت درپیش تھی کہ بنارس کے ہندو کالج کو ہی یونیورسٹی کی شکل دینے کیلئے اُس وقت کے ہندو بھائیوں کے ارباب حل و عقد نے برطانوی پارلیمنٹ سے بنارس ہندو یونیورسٹی ایکٹ پاس کرایا تھا۔سماعت کے دوران اے ایم یو کے وکلا نے مضبوطی سے اپنی بات رکھی کہ محض اس بنیاد پر کہ۱۹۲۰ءمیں پاس شدہ ایکٹ میں اس تاریخی ادارہ کے ’اقلیتی کردار‘ کا التزام خصوصی طور پر نہیں کیا گیا تھا یا اس کی انتظامیہ میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر برادریوں کے لوگ بھی شامل تھے، اے ایم یو کو اقلیتی کردار سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے استدلال کیا کہ۱۹۸۱ء کی ترامیم میں اے ایم یو کو اقلیتی درجہ دینے کیلئے پارلیمنٹ کی نیت واضح ہے اور موجودہ حکومت کو مرکزی حکومت کے پہلے کے موقف سے گریز کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عرضی گزاروں نے ۷؍ رکنی بنچ پر زور دیا کہ وہ اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو آرٹیکل۳۰؍ کے تحت جانچے اور اس حقیقت کو ذہن میں رکھا جائے کہ ہندوستان کا آئین اقلیتوں کو ان کی پسند کے تعلیمی اداروں کے قیام اور انتظام و انصرام کی اجازت دیتا ہے۔
بہر حال، اب سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے نے۱۹۶۷ءکے عزیز باشا مقدمے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر حکومت کے موجودہ موقف کو بھی رد کر دیا ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ قرار دیا جا سکتا ہے (گو کہ فیصلے میں صاف لفظوں میں اس کی صراحت نہیں کی گئی ہے) اور مجوزہ سہ رکنی بنچ جلد ہی موجودہ فیصلہ میں وضع کیے گئے اصولوں کی بنیاد پر اے ایم یو کے حق میں اسے اقلیتی کردار کا حامل ادارہ قرار دے سکتی ہے۔ ملک کے عوام کی ایک بڑی جمعیت کا حقائق پر مبنی یہی استدلال ہے اور یہی انصاف کا تقاضہ بھی ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون، پروفیسر فیضان مصطفی، پروفیسر آفتاب عالم، پروفیسر اثمر بیگ، پروفیسر عاصم صدیقی، رجسٹرار محمد عمران اور یونیورسٹی کے دیگر اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ نے مقدمہ کی پیروی میں بڑی تندہی اور جانفشانی سے کام کیا اور اولڈ بوائز اسو سی ایش، دہلی کا بھی رول بہت اہم رہا۔