گزشتہ دنوں ایک یونیورسٹی کے کچھ طلبہ کانگریس کیخلاف مظاہرہ کررہے تھے، مظاہرین کو دیکھ کراُن کے اور ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگنا لازمی ہے۔
EPAPER
Updated: May 13, 2024, 12:54 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
گزشتہ دنوں ایک یونیورسٹی کے کچھ طلبہ کانگریس کیخلاف مظاہرہ کررہے تھے، مظاہرین کو دیکھ کراُن کے اور ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگنا لازمی ہے۔
نوجوان نسل کسی بھی ملک کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہوتی ہے جو ملک کی ترقی اور ثروت مندی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ملک و معاشرہ کی ترقی کی راہوں کو اپنی ذہانت و ذکاوت سے منور کرنے والی یہ نسل نہ صرف مادی و مالی اعتبار سے ملک کو خود کفیل بناتی ہے بلکہ جدید طرز فکر سے ان نئے جہانوں کا سراغ بھی لگاتی ہے جو ترقی کے منظرنامے کو مزید دیدہ زیب بنا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں اس نسل کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی رہی ہے اور وہ ممالک جو خود کو اس فہرست میں نمایاں رکھنا چاہتے ہیں ان ممالک میں بھی نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے معیاری بندو بست کو ترجیح حاصل ہے۔ اگر اس تناظر میں وطن عزیز کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو حالات تشویشناک حد تک خراب نظر آتے ہیں۔ ملک کو جدید تعلیمی و تکنیکی سہولیات سے آراستہ کرنے کادم بھرنے والے ارباب اقتدار زبانی طور پر جو کچھ بھی دعویٰ کریں حقیقت حال ان دعوؤں کو محض ایک جملہ ہی ثابت کرتی ہے۔
نوئیڈا میں واقع ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے طلبہ گزشتہ دنوں کانگریس کے خلاف ایک مظاہرے میں شامل ہوئے۔ اس کا مقصد کانگریس کے انتخابی منشور کی مخالفت کرنا تھا۔ اس منشورسے متعلق وزیر اعظم خود ساختہ تصورات کی بنیاد پرایسا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں جو رائے دہندگان کو کانگریس کے خلاف ووٹ کرنے پر آمادہ کر سکے۔ جھوٹ کو سیاست کے متبادل کے طور پر رائج کرنے والے وزیر اعظم نے اس منشور کو ملک اور ملک کی ہندو آبادی کے خلاف ثابت کرنے کیلئے جن حوالوں کا سہارا لیا، ان کا کانگریس کے انتخابی منشور میں سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ اگر اس حوالے سے دیکھا جائے تو خود وزیراعظم نے بیشتر انتخابی ریلیوں میں جو تقاریر کی ہیں وہ ملک کی سالمیت اور تکثیریت کے تئیں ان کی متشدد فرقہ واریت کو نمایاں کرتی ہیں۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران اس طرز سیاست کے فریب میں آکر زندگی کے بنیادی مسائل کی سنگین صورتحال کا سامنا کرنے والے عوام کو ہوش کے ناخن مل گئے ہیں لیکن یونیورسٹی کے وہ طلبہ جو مظاہرے میں شریک ہوئے، وہ اب بھی اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دھرم آمیز سیاست نہ تو ان کے مستقبل کو تابناک بنا سکتی ہے، نہ ہی یہ آلودہ سیاست ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر پیش رفت کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
مظاہرے میں شامل طلبہ سے جب ایک صحافی نے بعض بنیادی نوعیت کے سوالات کئے تو وہ ان سوالات کے بھی جواب نہیں دے سکے۔ مظاہرے میں کانگریس کے خلاف پرجوش نعرے لگانے والے بیشتر طلبہ نے کانگریس کا منشور پڑھنا تو دور کی بات ہے، دیکھا تک نہیں تھا۔ یہ طلبہ مغلیہ ذہنیت، مسلم لیگ، منگل سوتر اور ملک کی تقسیم کے اس چھلاوے کا شکار ہو کر سڑکوں پر اترآئے جسے وزیر اعظم نے انتخابی مہم کا ایک نمایاں موضوع بنانے کی پرزور کوشش کی ہے لیکن اب تک ان کی یہ کوشش رائیگاں ہی ثابت ہوئی ہے۔ مذکورہ طلبہ کو دیکھنے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ نئی نسل کییہ سطحی ذہانت نہ صرف ملک کی تعلیمی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہیہ طلبہ تعلیم کے اس بنیاد ی مقصد ہی سے پوری طرح نابلد ہیں جو فرد کو ذمہ دار شہری کے پیکر میں ڈھالتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: وائس چانسلروں کی بدعنوانی تعلیمی نظام کیلئے سنگین مسئلہ
کانگریس کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں شامل یونیورسٹی طلبہ نے نہ صرف ناپختہ سیاسی شعور کا مظاہرہ بلکہ ان کی وہ ناقص ذہانت بھی عیاں ہوئی جو ان کے تعلیمی عمل کو مشکوک بناتی ہے۔ اس مظاہرے میں طلبہ نے جو تختیاں لے رکھی تھیں ان تختیوں پر لکھی عبارت بھی وہ ڈھنگ سے نہیں پڑھ پا رہے تھے۔ ان طلبہ کی حمایت میں بعض نام نہاد قسم کے دیش بھکت یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تختیوں پر لکھی عبارت ہندی میں تھی اور چونکہ بیشتر طلبہ سائنس اور تکنیکی علوم سے وابستہ تھے اور ان علوم کی تدریس انگریزی میں ہوتی ہے لہٰذا ان کا ہندی نہ پڑھ پانا ان کی اہلیت کے معیار کو ثابت نہیں کرتا۔ اس طرز کی غیر منطقی توجیہ کو اسلئے قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہندی کوئی غیر ملکی زبان نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ ان طلبہ کا ذریعہ تعلیم انگریزی زبان ہونے کے باوجود وہ جس ریاست کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں وہاں کی روز مرہ زندگی میں ہندی کو فوقیت حاصل ہے۔ ایسے میں اگر انجینئرنگ کا ایک طالب علم اگر ہندی کے چار الفاظ بھی صحیح نہ پڑھ سکے تو اس سے صرف اس کی اہلیت پر سوال نہیں قائم ہوتا بلکہ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مہنگی فیس وصول کرنے والی یونیورسٹیوں کا معیار تعلیم کیا ہے ؟
سیاسی فہم سے نابلد اور ملکی زبان کی قرات کی صلاحیت نہ رکھنے والے یہ طلبہ ملک و معاشرہ کا نام کس طرح روشن کریں گے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس سوال پر غور کرنے کے ساتھ ہی ان حقائق پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کے بطن سے ایسا پریشان کن سوال پیدا ہوا۔ ان حقائق پر غور کرتے وقت جو پہلی حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ ارباب اقتدار نے ہر سطح کے تعلیمی اداروں کو اپنی تشہیر کا پلیٹ فارم بنانے ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ فرقہ ورانہ سیاسی فکر کو ان اداروں میں اس حد تک عام کر دیا کہ تعلیمی اداروں کی فضائیں علم و دانش کی مہک سے عطر بیز ہونے کے بجائے مذہبی منافرت کے تعفن کو ان ذہنوں میں پہنچانے لگیں جو اس ملک کی مستقبل سازی میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ہیں۔ ملک کی بیشتر ریاستوں کے تعلیمی اداروں کا احوال یکساں ہے خصوصاً وہ ریاستیں جو ’کاؤ بیلٹ‘ یا ہندی ریاست سے موسوم ہیں ان ریاستوں میں ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں فرقہ واریت کا زہر معصوم ذہنوں کو آلودہ کر رہا ہے۔ ابتدائی درجات کے طلبہ میں مذہبی منافرت اب اس قدر عام ہوتی جارہی ہے کہ چھوٹی عمروں ہی سے وہ اپنے ہم جماعت طلبہ سے مذہب اور ذات کی بنیاد پر روابط قائم کرتے ہیں۔ اس ماحول کو پروان چڑھانے میں ان اساتذہ کا ہاتھ ہے جو بنام تدریس طلبہ کے اندر شدت پسند مذہبی افکار کو اس طرح پیوست کر دیتے ہیں کہ چھوٹا سا بچہ بھی رام اور رحیم کی تفریق کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ابتدائی یا ثانوی سطح کے تعلیمی ماحول میں فرقہ واریت کا جو رجحان بہت تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے وہ نہ صرف ان طلبہ کے تعلیمی کریئر اور مستقبل کو متاثر کرے گا بلکہ ملک کو آئندہ کئی برسوں تک اس سماجی انتشار سے روبرو ہونا پڑ سکتا ہے جو اتحاد و یکجہتی کی راہ میں مختلف قسم کی رکاوٹیں کھڑی کرے گا۔ یہ کوئی قیاسی بات نہیں ہے بلکہ اس کا اظہار اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مختلف صورتوں میں ہونے بھی لگاہے۔ نوئیڈا کی پرائیویٹ یونیورسٹی کے طلبہ کے جس احتجاجی مظاہرے کا ذکر ابھی کیا گیا وہ بھی دراصل اسی اظہار کی ایک صورت تھی کیونکہ ان طلبہ کی باتوں سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ انھیں نہ تو سیاسی سمجھ ہے اور نہ ہی وہ اس کثیر المذاہب ملک کے اس سماجی ڈھانچے کی نزاکتوں اور تقاضوں سے واقف ہیں جو اس ملک کاطرہ امتیاز رہاہے۔
نوجوان نسل کو ایک آلہ ٔ کار کے طور پر استعمال کرنے والے فرقہ ورانہ سیاستدانوں کو ان کے مستقبل سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ دراصل مذہبی سیاست صرف جذباتی سطح پر عوام کا استحصال کرتی ہے اور جب بات عوام کو درپیش مسائل کی آتی ہے تو ان مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے انھیں ایسے سبز باغ دکھاتی ہے جو کبھی حقیقت کی شکل نہیں اختیار کر سکتے۔ تعلیمی اداروں پر مذہبی سیاست کا غلبہ اس حد تک ہوگیا ہے کہ اگر کوئی طالب علم امتحان میں صرف جے شری رام لکھ دیتا ہے تو پاس ہوجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں اترپردیش کے جونپور میں واقع ویر بہادر سنگھ یونیورسٹی سے ایسا ایک معاملہ سامنے آیاتھا اور اس وقت ملک کی بیشتر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے حالات کم و بیش اسی طرح کے ہیں۔ ان حالات میں تبدیلی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک کہ نوجوان نسل خود اپنے حال اور مستقبل پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع نہیں کرے گی۔ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ اگر صرف فرقہ ورانہ سیاست کیلئے ایک آلۂ کار ہی بنے رہیں گے توخودان کا مستقبل تاریکیوں سے پر ہوگا، پھر وہ ملک وسماج کا مستقبل کیونکر بہتر بنا سکتے ہیں؟