حالانکہ سپریم کورٹ ۲۰۱۹ء میں بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئےیہ کہہ کر اس قانون کی تعریف اور توثیق کرچکاہےکہ’’اس قانون کا مقصد ہندوستان کے اُس سیکولر مزاج کا تحفظ ہے جو ملک کے آئین کی بنیاد ہے۔‘‘
EPAPER
Updated: February 04, 2024, 6:11 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
حالانکہ سپریم کورٹ ۲۰۱۹ء میں بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئےیہ کہہ کر اس قانون کی تعریف اور توثیق کرچکاہےکہ’’اس قانون کا مقصد ہندوستان کے اُس سیکولر مزاج کا تحفظ ہے جو ملک کے آئین کی بنیاد ہے۔‘‘
نارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کے معاملے میں گزشتہ کچھ عرصے سے جس طرح مقدموں کی ’’بمباری ‘‘ہورہی تھی اور مسجد فریق کو جس طرح یکے بعد دیگرے مقدموں کی بوچھار میں الجھاکر رکھ دینے کی کوشش کی جا رہی تھی، اس سے اندازہ تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ذیلی عدالتوں میں ان مقدمات کی شنوائی میں غیر معمولی تیزی آگئی ہے۔
یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہوگیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اسے حوصلہ بھی ملک کےعدالتی نظام سے ہی ملا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ بابری مسجد کیس میں سپریم کورٹ نے یہ تسلیم کیاکہ مسجد میں مورتی رکھنا غیر قانونی تھا، اس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ مسجد کو شہید کرناغیر قانونی عمل تھا، یہ اعتراف بھی کیا کہ اس کا ثبوت نہیں ملا کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کرکے بنائی گئی تھی مگر فیصلہ یہ سنایا کہ مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کیلئے دیدی جائے۔ اس نے بابری مسجد کو شہید کرنے والوں کو فیصلے میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا مگر مسجد کی زمین ان ہی کے حوالے بھی کردی۔ اس طرح اس فیصلے نے اُن عناصر کے حوصلے بلند کردیئے جوبغیر کسی ثبوت کے مختلف تاریخی مساجد پر دعوے پیش کرتے رہتے ہیں۔ ان کیلئے راستہ ایک طرح سے صاف ہوگیا ہے کہ محض دعویٰ کردینا اور پھر ملک کے عوام کی رائے ہموار کرکے اسے اُن کی آستھا کا معاملہ بنا دینا عدالتی مقدمے میں کامیابی کی ضمانت ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے معاملے میں مودی سرکار کا رویہ افسوسناک
بابری مسجد کی جگہ مندرفریق کودے دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے بھگوا عناصر میں جو ’’اُمید‘‘ جگائی، اسی نے انہیں گیان واپی اور شاہی عید گاہ کے معاملے میں سرگرم کیا اور انہوں نے یکے بعد دیگرے ’’مقدموں کی بمباری‘‘ سی شروع کردی۔ ا س سلسلے کو عدالتیں ہی روک سکتی تھیں۔ مسلم فریق ایک بار نہیں بار بار ذیلی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک ’پلیس آف ورشپ ایکٹ‘ کا حوالہ دیتا رہا تاہم اسے قابل اعتناء نہیں سمجھا گیا۔ جو عرضیاں ۱۹۹۷ء میں پلیس آف ورشپ ایکٹ کی بنیاد پر ’’ناقابل سماعت‘‘ قراردے دی گئی تھیں، و ہی عرضیاں نظر ثانی کی پٹیشنوں کی شکل میں قبول کرلی گئیں اور مسلم فریق کے تمام اعتراضات مسترد کر دیئے گئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ موجود ہے جو واضح طور پر کہتا ہے کہ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو جس عبادت گاہ کی جو مذہبی حیثیت تھی وہ برقراررہےگی، اسے تبدیل نہیں کیا جائےگا، مگر عدالتیں مذہبی حیثیت کی تبدیلی کیلئے داخل کئے گئے مقدموں کی نہ صرف شنوائی کررہی ہیں بلکہ فیصلے بھی سنا رہی ہیں۔ گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں پوجا کی اجازت دے دی گئی ہے اور ہائی کورٹ نے اس پر روک لگانےسے انکار کردیا ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ضلع جج ڈاکٹر اجے کرشن وشویش نے فیصلہ ۳۱؍ جنوری کو سنایا جبکہ یکم فروری کو انہیں ریٹائر ہوناتھا۔ اس کیلئے کورٹ نے ۷؍ دن کا وقت دیاتھا مگر آناًفاناً چند گھنٹوں میں مسجد کے تہہ خانہ میں پوجا کی شروعات بھی کردی گئی۔ ہائی کورٹ میں مسلم فریق نے اس کا بھی حوالہ دیا اور نشاندہی کی کہ اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ ایک بار اگر پوجا شروع ہوگئی تو پھر اسے روکا نہیں جائےگا۔ ہائی کورٹ نے اس پر روک لگانے سے انکار کرکے اس کو صحیح بھی ثابت کردیا۔ اس نے پوجا کی اجازت دینے کے ضلعی عدالت کے فیصلے کے خلاف داخل کی گئی پٹیشن کو سماعت کیلئے منظور تو کرلیا مگر پوجا پر روک لگانے سے انکار کردیا۔ سوال یہ ہے کہ مسجد کے تہہ خانہ میں پوجا کی اجازت دینا کیا مسجد کی مذہبی حیثیت تبدیل کر دینے کے مترادف نہیں ہے؟ یہ سب اس کے باوجود ہو رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے ۲۰۱۹ء میں بابری مسجد کافیصلہ سناتے ہوئےبابری مسجد کی زمین تو مندر کیلئے دے دی تھی مگر ’ پلیس آف ورشپ ایکٹ‘ کی یہ کہتے ہوئے توثیق کی تھی کہ یہ قانون ہندوستان کے آئین کے سیکولر ڈھانچہ کو مضبوط کرتا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت سے قبل پی وی نرسمہا راؤ کے دور میں پارلیمنٹ سے ۱۹۹۱ء میں پاس ہونے والے اس قانون کے تعلق سے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ’’اس لئے یہ قانون، وہ آئینی آلہ ہے جو ہندوستانی سیاست کےسیکولر ڈھانچے کے تحفظ کیلئےتیار کیا گیا ہے، جو ملک کے آئین کی بنیادی خصوصیات کے عین مطابق ہے۔ ‘‘
بابری مسجد کی زمین مندر کو دے دینے کے فیصلے نے مسلمانوں کو توڑ کررکھ دیا تھا مگر فیصلے میں ’پلیس آف ورشپ ایکٹ‘ کی تائید سے یہ امید جاگی تھی کہ عدالت نے آگے کےمعاملوں کا سد باب کردیا ہے۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ یہ فیصلہ سنانے والی ۵؍ رکنی آئینی بنچ میں جسٹس ڈی وائی چندر چُڈ بھی شامل تھے، جو اَب ملک کے چیف جسٹس ہیں مگر مسلم فریق جب اُسی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے گیان واپی مسجد یا شاہی عید گاہ مسجد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کو روکنے کی اپیل کرتا ہے اور نشاندہی کرتا ہے کہ ’پلیس آف ورشپ ایکٹ‘ کی موجودگی میں اس طرح کے مقدمات قابل سماعت ہی نہیں ہیں تو خود سپریم کورٹ یہ ماننے سے انکار کردیتاہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے گیان واپی مسجد کے سروے کا عدالتی حکم حاصل کیاگیا اوراس کو بنیاد بنا کر مسجد کے فوارے کو ’’شیولنگ‘‘ قرار دے کر اس کی تشہیر کی گئی۔ پھر محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعہ سروے کا حکم حاصل کرلیا گیاور پھر سروے کی رپورٹ کو بھی عام کرواکر عوامی سطح پر اسے بطور ثبوت پیش کیاگیا کہ مسجد مندر توڑ کر ہی بنائی گئی ہے۔ بابری مسجد کی طویل عدالتی لڑائی کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے والے ذمہ دارا فراد پہلے ہی یہ اندیشہ ظاہر کر رہے تھے کہ بنارس کی گیان وا پی مسجد، متھرا کی شاہی عید گاہ یا اُن دیگر مساجد کے معاملے میں جن پر بھگوا عناصر کا دعویٰ ہے، جو کچھ بھی ہوگا وہ عدالتوں کے توسط سے ہی ہوگا۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں عدالت کی جانب سے پوجا کی اجازت دینے کو اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ مسلم تنظیمیں عبادتگاہوں کے تحفظ کیلئے قانونی لڑائی تو لڑ رہی ہیں مگر یہ کہنے پر بھی مجبور ہیں کہ’’عدلیہ پر عوام کا اعتماد کمزور ہو رہا ہے۔ ‘‘یہ وہی تنظیمیں ہیں جن کا عدالت پر اعتماد اس قدر پختہ تھا کہ بابری مسجد کی قانونی لڑائی میں روز اوّل سے روز آخر تک یہی کہتی رہیں کہ عدالت کا جو فیصلہ ہوگا، اسے قبول کیا جائے۔
گیان واپی مسجد اور متھراشاہی عیدگاہ مسجد کے مقدموں میں عدالتی فیصلوں کو ملک کے نامور ماہر قانون اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل، ایڈوکیٹ دشینت دوے کے اس بیان کے پس منظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ’’ہندوستان کی عدلیہ اکثریت نواز ہوگئی ہے۔ ‘‘