آج صحافیوں کے ایک بڑے طبقے کا پسندیدہ مشغلہ اُن خبروں سے عوام کو بے خبر رکھنا ہوتا ہے جن سے حکومت کے سیاہ کارنامے اجاگر ہو سکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: April 14, 2024, 5:15 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
آج صحافیوں کے ایک بڑے طبقے کا پسندیدہ مشغلہ اُن خبروں سے عوام کو بے خبر رکھنا ہوتا ہے جن سے حکومت کے سیاہ کارنامے اجاگر ہو سکتے ہیں۔
اس وقت ہندوستانی میڈیا پر غلبہ ان عناصر کو حاصل ہے جو صحیح و غلط، جائز و ناجائز کی تفریق سے بالاتر ہو کر اقتدار کی حمایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان عناصر نے نہ صرف صحافت جیسے مقدس پیشے کو اپنی حرص وہوس اور مذہبی شدت پسندی کے سبب آلودہ بنایا بلکہ عوام کو سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات میں گمراہ کیا۔ عوام کو باخبر اور اپنے حالات و مسائل کے تئیں حساس و بیدار بنانے کے صحافت کے بنیادی مقصد کو ان عناصر نے اقتدار پرستی کی دھن میں بری طرح پامال کیا ہے۔ ایک دہائی کے دوران نام نہاد صحافیوں نے بارہا اس ملک کی تاریخ، تہذیب و ثقافت جیسے اہم و حساس موضوعات سے وابستہ حقائق کی تشہیر کچھ اس انداز میں کی جو عوام کے درمیان نفرت پیدا کرنے کا سبب بنی۔ ہندو، مسلمان کے درمیان مذہب و ثقافت اور طرز معاشرت کی سطح پر جو اختلافات ہیں ان پر نفرت آمیز افکار کا ملمع چڑھا کر عوام کے سامنے پیش کرنا ان ضمیر فروش صحافیوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اس کے علاوہ ان صحافیوں کا ایک اہم کام ان خبروں کو پوشیدہ رکھنا ہے جن سے عوام کے درمیان ارباب اقتدار کے سیاہ کارنامے اجاگر ہو سکتے ہیں۔ عوام کو ایسی خبروں سے بے خبر رکھنے میں یہ عناصر ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ اس کوشش میں اکثر ان موضوعات کی تشہیر نمایاں طور پر مسلسل کی جاتی ہے جن کا ملک کی فلاح و ترقی سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ ایسے موضوعات ملک گیر سطح پر قومی منافرت کو بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: جھوٹ کے دم پر دولت جمع کرنے کی ہوس رام دیو کی ہزیمت کا سبب بنی
اقتدار کی جی حضوری میں تمام اصولوں کو درکنا ر کر دینے والا میڈیا انتہائی عیاری کے ساتھ اقتدار کے ان غلط کاموں کی پردہ پوشی کرتا ہے جن کا براہ راست تعلق ملک کی فلاح و سالمیت سے ہے۔ اس ضمن میں ابھی حال ہی کی مثال ہے کہ کس طرح اس نام نہاد میڈیا نے الیکٹورل بونڈ کی خبروں سے عوام کو بے خبر رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔ ایسا حساس اور سنگین معاملہ جس کے متعلق ممتاز ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ یہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا گھوٹالہ ہے، اسے مخفی رکھنے کی مردہ ضمیر میڈیا اداروں کی کوشش (سازش) دراصل صحافت کو بے آبرو کر دینے کے مترادف ہے۔ اس سازش میں ملوث صحافیوں کا یہ عمل صحافتی اخلاقیات اور اس مقدس پیشے کے وقار کے ساتھ صریح کھلواڑ ہے۔ وہ تو کہئے کہ سوشل میڈیا جیسا پلیٹ فارم عوام کو دستیاب ہے جس کے توسط سے اقتدار اور میڈیا کی یہ ساز باز عیاں ہو جاتی ہے لیکن مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے دائرہ کار اور دائرہ اثر میں جو فرق ہے اس کے سبب آج بھی عوام کا ایک طبقہ اس گھوٹالے سے وابستہ ان تلخ حقائق سے پوری طرح واقف نہیں ہے جو ملک کے آئینی اداروں پر اقتدار کے جبر کو نمایا ں کرتے ہیں۔
اس ضمیر فروش میڈیا نے جیسے اقتدار سے یہ معاہدہ کر رکھا ہے کہ اس کی حمایت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا۔ یہی سبب ہے کہ ایک طرف جہاں ارباب اقتدار کے ہر عمل کو صحیح اور عوام کے حق میں مفید ثابت کرنے کی کوشش اس کے ذریعہ کی جاتی ہے وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے ہر لیڈر کی امیج کو مشکوک بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر حقائق کی سطح پر دیکھا جائے تو اکثر صورتحال اس سے برعکس ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ابھی حال ہی میں وزیر اعظم کے ذریعہ دئیے گئے اس بیان کی نام نہاد میڈیا میں تشہیر کو مثال کے طور پرپیش کیا جا سکتا ہے جس بیان میں وزیر اعظم نے کانگریس کے انتخابی منشور کو تنقید کا ہدف بنایا ہے۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر جس چرب زبانی کا مظاہرہ کیا، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ’اب کی بار، چار سو پار‘کا نعرہ لگانے والی پارٹی اندر سے کس قدر ڈری سہمی ہے۔ وزیر اعظم نے حسب عادت کانگریس کے انتخابی منشور کو مسلم لیگ، ٹکڑے ٹکڑے گینگ اور کمیونسٹ افکار کا ترجمان تو کہہ دیا لیکن اپنی اس لن ترانی کی کوئی دلیل نہیں پیش کر سکے۔ جہاں تک وزیر اعظم کی بات ہے تو یہ ان کا وطیرہ رہا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک معاملہ اس نام نہاد میڈیا کا رہا جس نے ان لغوباتوں کی تشہیر کچھ اس انداز میں کی جس سے عام ووٹر انہی باتوں کو حقیقت سمجھ بیٹھے۔
پارلیمانی الیکشن کی تاریخوں کے اعلان کے بعد سے اب تک ہندوستانی مسلمانوں نے جس تدبر اورتحمل سے کام لیا ہے اگر یہ سلسلہ بدستور رہا تو اقتدار اور میڈیا کی وہ ساز باز ناکام ہوجائے گی جس کا مقصد ملک کی ان دو بڑی قوموں کے درمیان نفرت کو ہوا دے کر فسطائی عناصر کیلئے اقتدار سازی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اقتدار اور نام نہاد میڈیا کی اس ساز باز کا مقصد صرف قومی منافرت کے ماحول کو تازہ دم بنائے رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ ان حقائق کی پردہ پوشی کرنا بھی ہے جو اقتدار کی بدعنوانیوں سے وابستہ ہیں۔ میڈیا کا ایک طبقہ ان مقاصد کی تکمیل میں پورے زور و شور کے ساتھ جٹا ہے۔ خصوصی طور سے ملک کی شمالی ریاستوں کے عوام کو اقتدار کی بدعنوانیوں سے بے خبر رکھنے اور دھرم کے نام پر ورغلانے کا کام یہ نام نہاد میڈیا متواتر کر رہا ہے۔ اقتدار کی خوشامد میں منہمک میڈیا عوام کے درمیان ان غلط فہمیوں کو بھی رائج کرنے سے گریز نہیں کر رہا جو ملک کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت کے معاملے میں اس کی انفرادی شناخت کو مشکوک بناتی ہیں۔
اکیسویں صدی کی آمد کے ساتھ ہی زندگی کے جن شعبوں میں وسیع پیمانے پر تبدیلی کا امکان ظاہر کیا گیا تھا، ان میں ترسیل و ابلاغ کا شعبہ بھی شامل تھا۔ جن ملکوں میں میڈیا نے اپنے وقار کا سودا نہیں کیا ہے وہاں اس تبدیلی کا مشاہدہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ ان ممالک میں میڈیا عوام اور اقتدار کے درمیان اس رابطے کی حیثیت رکھتا ہے جس کے ذریعہ عوام اپنے گرد و اطراف کے ان حقائق سے آگہی حاصل کرتے ہیں جو اُن کے معیار زندگی اور ملک کی فلاح و خوشحالی سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن ہندوستان سمیت وہ دیگر ممالک جہاں میڈیا اقتدار کے ایک کارندے کے طور پر کام کررہا ہے وہاں سیاست، سماج اور معیشت سے وابستہ حقائق عوام تک اسی صورت میں پہنچتے ہیں جو اقتدار کا منشا ہوتا ہے۔ عوام تک صحیح خبروں کو نہ پہنچانا یا انھیں ملک و معاشرہ سے وابستہ ان حقائق سے بے خبر رکھنا جو اُن کے معیار زندگی کوبراہ راست متاثر کر سکتے ہیں، اقتدار کے ہر فیصلے اور منصوبے کو عوام دوست ثابت کرنا اور اپوزیشن کی آواز کو سرد خانہ میں ڈال دینا ضمیر فروش میڈیا عناصر کے وہ کام ہیں جو مجموعی طور پر ملک کے وفاقی نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک گیر سطح پر ایسے نام نہاد میڈیا عناصر کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو اقتدار کی ہاں میں ہاں ملانے کو فرض اولین سمجھتے ہیں۔ یہ عناصر لوک سبھا انتخابات کو بھی اپنے اس رویے سے متاثر کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس وقت عوام کو نہ صرف سیاسی بیداری کا ثبوت دینا ہے بلکہ نام نہاد میڈیا کے ذریعہ پھیلائی جارہی ان لغو باتوں کا تجزیہ بھی منطقی انداز میں کرنے کی ضرورت ہے جن باتوں کا مقصد فسطائی عناصر کیلئے اقتدار سازی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ ضمیر فروش میڈیا نے کانگریس کے انتخابی منشور کے متعلق وزیر اعظم کے مسلم لیگ والے بیان کوجس اندا زمیں نمایاں طور پر پڑنٹ اور الیکٹرانک ذرائع ابلاغ میں جگہ دی، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران آئندہ بھی اس پیشہ ورانہ بددیانتی کا مظاہرہ اس کی جانب سے ہوتا رہے گا۔ اس بیان کا مقصد نہ صرف کانگریس کے انتخابی منشور کی تضحیک کرنا تھا بلکہ اس کے ذریعہ وزیر اعظم نے ایک بار پھر وہی حربہ استعمال کیا جس سے ہندو اور مسلمان کے درمیان مذہبی منافرت کو ہوا دی جا سکے۔ ان کی اس کوشش کو اقتدار پرست میڈیا نے جس انداز میں عوام تک پہنچایا وہ صریح طور پر اس مقدس پیشے کیلئے باعث ننگ و عار ہے۔
اس وقت میڈیا کا ایک طبقہ اقتدار کی جی حضوری میں اس قدر مگن ہے کہ اسے عوام اور ملک نیز اپنی پیشہ ورانہ اخلاقیات کی پاسداری کی مطلق پروا نہیں ہے۔ یہ طبقہ لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر اپنے سیاسی آقاؤں اور ملک کے چند بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی خوشامد میں عوام کو گمراہ کرنے یا ان کے اندر مذہبی منافرت پھیلانے کی ہر ممکنہ کوشش کرے گا۔ ایسے میں عوام کو ان میڈیا عناصر سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے جو اقتدار کی خوشنودی میں سیاہ و سفید کے فرق کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور عوام کے درمیان ایسی گمراہ کن باتوں کی تشہیر کرتے ہیں جو وسیع تناظر میں ملک کے سماجی و معاشی نظام کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔