سوال یہ ہے کہ آخر مودی نے اقلیتوں کیلئے کون سا ایسا کام کیا ہے کہ انھیں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر جیسےامن پسند لیڈرسے منسوب ایوارڈ تفویض کیا گیا؟۔
EPAPER
Updated: December 15, 2024, 4:06 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
سوال یہ ہے کہ آخر مودی نے اقلیتوں کیلئے کون سا ایسا کام کیا ہے کہ انھیں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر جیسےامن پسند لیڈرسے منسوب ایوارڈ تفویض کیا گیا؟۔
امریکہ میں مقیم ہندوستانی اقلیتوں کی نو تشکیل شدہ تنظیم ’اسوسی ایشن آف انڈین امریکن مائنارٹیز‘نے گزشتہ ہفتے وزیراعظم مودی کو اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے ’ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ (جونیئر)گلوبل پیس ایوارڈ‘ تفویض کیا۔ وزیرا عظم مودی کو ان کی کارکردگی کیلئے متعدد ایوارڈ اور اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ ملک اور بیرون ملک سے انھیں ۲۰؍ سے زیادہ ایوارڈ مل چکے ہیں۔ انہیں سعودی عرب، افغانستان، فلسطین، امریکہ، مصر، فرانس، روس، بحرین، متحدہ عرب امارات، بھوٹان، نائیجیر یا اور دیگر کئی ملکوں نے اعزاز اور ایوارڈ سے نوازا ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک سے تعظیم و تکریم کا نشان حاصل کرنے والے مودی کیلئے کسی نو تشکیل شدہ تنظیم کے ایوارڈ کی کیا اہمیت ہوگی، اسے بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک اس ایوارڈ کی جو بھی حیثیت ہو لیکن اس کے حوالے سے یہ سوال پھر اٹھنے لگا ہے کہ آخر مودی نے ہندوستانی اقلیتوں کی فلاح و بہبودکیلئے کون سے ایسے کام انجام دئیے ہیں کہ انھیں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر جیسے قد آور مصلح اور امن پسند لیڈرسے منسوب ایوارڈ تفویض کیا گیا؟ اس سوال پر غور کرنے سے قبل یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ ایوارڈ تفویض کرنے والے ’بالغ نظر‘ افراد کون ہیں ؟ جس تنظیم کی جانب سے یہ ایوارڈ دیا گیا ہے، اس کے بانی اور چیئر مین جسدیپ سنگھ ہیں۔ سات افراد پر مشتمل اس تنظیم میں دو عیسائی، دو سکھ، ایک ہندو، ایک ہندوستانی یہودی اور جنید قاضی نامی ایک مسلمان شامل ہیں۔ اس ایوارڈ سے متعلق ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ ایوارڈ وزیر اعظم کو ان کی غیر موجودگی میں دیا گیا۔ تنظیم نے مودی کو ایوارڈ دینے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’مودی کی قیادت میں ہندوستان سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھ رہا ہے‘ اور ۲۰۴۷ء تک ملک کو ترقی یافتہ بنانے کا ہدف وزیر اعظم کے بلند ترین سیاسی ویژن کو نمایاں کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:اقتدار کی چاپلوسی کیلئے قومی وقار کا سودا کرنے والے مسلمان
امریکہ میں مقیم ان ہندوستانیوں کے ذریعہ وزیر اعظم کی مدح سرائی کا جائزہ اگر حقیقت حال کے تناظر میں لیا جائے تواقلیتوں کی فلاح و بہبود سے متعلق ان کے بیان اور ملک میں اقلیتوں سے وابستہ حقائق میں بعد المشرقین کی صورت نظر آتی ہے۔ گزشتہ دس برسوں سے ہندوستانی اقلیتوں کو قومی دھارے سے الگ تھلگ کرنے کی زعفرانی حکمت عملی کے سبب ان کی سماجی اور معاشی زندگی کا تانا بانا بکھرتا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ شدت پسند ہندوتوا کے پیروکاروں کے ذریعہ سماجی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا جارہا ہے وہ صریح طور پر آئین کے برعکس اور بعض اوقات انسانیت کو شرمسار کرنے والا ہوتا ہے۔ سماج میں مذہبی منافرت اور تشدد کو ہوا دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے اقتدار بالواسطہ طور پر ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ خود وزیر اعظم مسلمانوں کی تضحیک کرنے والی سطحی باتیں کہنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ معاملہ صرف بیانات جاری کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کیلئے عملی طور پر بھی کئی اقدامات دس برسوں کے دوران کئے گئے۔
اس وقت حکومت وقف بل کو قانونی شکل دینے کیلئے جس شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہے اس کا مقصد بھی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے ذرائع پر شکنجہ کسنا ہے۔ ان دنوں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے خلاف شر پسند ہندوتوا عناصر نے محاذ کھول رکھا ہے۔ پولیس اور ارباب اقتدار کی پشت پناہی نے انھیں وہ حوصلہ عطا کر دیا ہے کہ مساجد، درگاہوں اور قبرستانوں کے نام و نشان مٹانے کیلئے یہ عناصر کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ ہیں۔ عبادت گاہوں سے متعلق ۱۹۹۱ء کے قانون کو بھی ان عناصر نے بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے خلاف اس یلغار نے امن و آشتی کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایک طرف مذہبی منافرت کا یہ کھیل اور دوسری جانب حکومتی سطح پر مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی ترقی کو محدود و مسدود کرنے والے اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اقتدار صرف ایک خاص مذہب کی فلاح میں دلچسپی رکھتا ہے۔
ملک میں مسلمانوں کی تعلیمی پستی اور معاشی بدحالی کے متعلق سچر کمیٹی نے جو رپورٹ ۲۰۰۶ء میں حکومت کو سونپی تھی اس پر دیانت داری کے ساتھ آج تک کوئی نتیجہ خیز اقدام نہیں کیا گیا۔ یوپی اے سرکار نے مسلمانوں کی مصنوعی دلجوئی کیلئے بعض ایسے منصوبے بنائے تھے جو مسلمانوں کے تئیں اس کی فکر مندی کو ظاہر کرسکیں ۔ اس ضمن میں مسلم طلبہ کیلئے شروع کی گئی پری میٹرک اسکالر شپ اور مولانا آزاد نیشنل اسکالر شپ برائے اعلیٰ تعلیم کو بھی مودی حکومت نے ۲۰۲۲ء سے معرض التوا میں ڈال رکھا ہے۔ اقلیتوں میں مسلمانوں کے معاشی حالات تشویشناک حد تک خراب ہیں ۔ ایسے میں ان کی تعلیمی ترقی کیلئے بنائے گئے سرکاری منصوبوں کو دانستہ طور پر رد کر دینا، حکومت کی نیت کو اجاگر کرتا ہے۔ سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی تعداد روز بہ روز کم ہوتی جارہی ہے۔ ایسی صورت میں اقلیتوں کی فلاح و بہبود کا تمغہ وزیر اعظم کیلئے کس حد تک موزوں ہے؟
مسلمانوں کی طرح ہی ہندوستانی عیسائیوں کے حالات بھی بہتر نہیں ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے منی پور میں جاری تشدد نے سب سے زیادہ نقصان اسی قوم کو پہنچایا ہے۔ کوکی قبیلے کے بیشتر افراد عیسائیت کے پیرو ہیں جن کو بڑے پیمانے پر جان و مال کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ منی پور تشدد میں خواتین اور بچوں کے خلاف جس سنگدلی کا مظاہرہ کیا گیا اس نے انسانیت کو شرمسار کر دیا ہے۔ اس میں اب تک تقریباً ۳؍ افراد جان گنوا چکے ہیں اور ۲۵۰؍ چرچوں کو نذر آتش یا مسمار کر دیا گیا۔ یونائیٹڈ کرشچن فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق امسال ڈیڑھ سو سے زائد ایسی وارداتیں ہوئیں جن میں عیسائیوں کو زد و کوب کیا گیا۔ ان حقائق کی روشنی میں مودی حکومت کو اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے ایسی کارکردگی کا مجاز ٹھہرانا کہ جس کیلئے وزیرا عظم کو ایوارڈ دیا جائے، سورج کی حدت کو چاند کی خنکی قرار دینے کے مترادف ہے۔
وزیرا عظم کو اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے ایوارڈ دینے والی تنظیم کے بانی چیئر مین جسدیپ سنگھ کا تعلق جس قوم سے ہے اس کے حالات بھی بہت اچھے نہیں ہیں۔ اقتدار کی جانب سے وقتاً فوقتاً سکھوں کو خوش کرنے کیلئے ایسے بیانات ضرور جاری کئے جاتے ہیں جو اس قوم کے اندر کانگریس کی مخالفت کے جذبہ کو مستحکم بنا سکیں۔ زمینی سطح پر اس قوم کی معاشی ترقی کیلئے اقتدار کس حد تک فکر مند ہے اس کا ثبوت کسان احتجاج کے متعلق حکومت کے رویے سے مل جاتا ہے۔ اس احتجاج کو کمزور بنانے اور کسانوں کو نا عاقبت اندیش ثابت کرنے کیلئے اقتدار نے کیا کیا حربے استعمال کئے، اس سے سبھی واقف ہیں۔ بی جے پی لیڈروں کی ایک ٹولی تو دن رات اس احتجاج کے خلاف میڈیا میں بے سر پیر کی باتیں کرتی رہی۔ اس حوالے سے کنگنا راناوت کے ان بیانات کو بھلایا نہیں جا سکتا جن میں سکھ قوم کی تضحیک اور احتجاج میں شامل سکھ خواتین کی کردار کشی کی گئی تھی۔ مودی کابینہ میں ہردیپ سنگھ پوری اور رونیت سنگھ بٹو بھلے ہی سکھ نمائندے کے طور پر شامل ہیں لیکن پنجاب میں ’آپ‘کی حکومت ہونے کے سبب اس ریاست سے مرکزکا سوتیلا برتاؤ میڈیا کی سرخیوں بنتا رہا ہے۔
اس وقت اقتدار کا سارا زور صرف ایک خاص مذہب اور اس کے پیروکاروں کی خوشحالی اور ترقی پر ہے۔ اقتدار کی شہ پر ملک گیر سطح پر مقامی انتظامیہ نے ایسی فضا تعمیر کر دی ہے کہ اس خاص مذہب کے پیروکار زندگی کے ہر شعبے میں دوسروں پر فوقیت اور فضیلت کو اپنا پیدا ئشی حق سمجھنے لگے ہیں۔ اقتدار اور انتظامیہ کا یہ رویہ آئین کے اس ضابطے کیخلاف ہے جو تمام ہندوستانیوں شہریوں کو مساوی ترقی کی گارنٹی دیتا ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں موجودہ حکومت کو اقلیتوں کی فلاح و بہبود کا خواہاں قرار دینا، سچائی سے دانستہ چشم پوشی کرنا ہے۔ اس صورتحا ل کو مزید پیچیدہ بنانے میں ان نام نہاد اقلیتی تنظیموں کا بڑا رول رہا ہے جو ملک اور بیرون ملک سرکار اور وزیرا عظم کی تعریفوں کے پل باندھنے میں منہمک ہیں۔ ان تنظیموں سے وابستہ افراد یا توسچائی سے بے خبر ہیں یا اپنے ذاتی مفاد کیلئے حقائق کو پامال کرنے والا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جو حکومت اقلیتوں کیلئے مخصوص فنڈ میں مسلسل تخفیف کرتی رہی ہو اسے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کا حامی کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟