• Fri, 22 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بی جے پی کی اُلٹی گنتی شروع

Updated: July 22, 2024, 1:39 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

بیسا کھی پر حکومت چلانے کی مجبوری، یکے بعد دیگرے پلوں کاانہدام، سڑکوں اور سرکاری عمارتوں میں پڑنے والی دراڑیں اور پیپر لیک پرچوطرفہ تنقیدوں کا معاملہ کیا کم تھا کہ ضمنی الیکشن میں بھی بی جے پی کو بدترین ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا، رہی سہی کسر پارٹی میں انتشار اور لیڈروں کے ’بغاوتی‘ سُروں نے پوری کردی ہے۔ اہل نظراِن علامتوں کو بی جے پی کیلئے نوشتہ ٔ دیوار قرار دے رہے ہیں۔

Photo: INNPrime Minister Narendra Modi, Home Minister Amit Shah and JP Nadda. Photo: INN
وزیراعظم نریندر مودی، وزیرداخلہ امیت شاہ اور جے پی نڈا۔ تصویر : آئی این این

لوک سبھا انتخابات کے دوران بی جے پی نے ’چار سو پار‘ کا نعرہ دیا تھا۔ اس نعرے میں پوشیدہ زعفرانی پارٹی کے منشاء کو اپوزیشن نے وقت رہتے بھانپ لیا تھا، اس لئے عوام کے سامنے اس نعرے کی تشریح میں اس نے کوئی کور کسر باقی نہیں رکھی۔ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ رائے دہندگان نے اپوزیشن کی باتوں پر اعتمادکیا اور بی جے پی کو اکثریت سے بہت پہلے۲۴۰؍ پر ہی روک دیا۔ کہتے ہیں کہ’اچھے دن‘ کا وعدہ کرکے اقتدار میں آنے والی بی جے پی کے برے دن وہیں سے شروع ہوگئے تھے۔ بیساکھی کی مدد سے مرکز میں مودی کی قیادت میں ایک بار پھر حکومت ضرور بن گئی ہے لیکن جے ڈی یو (جنتا دل متحدہ) اور ٹی ڈی پی (تیلگو دیشم پارٹی) کی طرف سے پہلے ہی دن سے سودے بازی کی شروعات ہوگئی ہے جسے آخری دن تک جاری رہنے کی امید کی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ یکے بعد دیگرے پلوں کا انہدام شروع ہوگیا، سڑکوں اور سرکاری عمارتوں میں دراڑیں پڑنی شروع ہوگئیں اور کئی اعلیٰ سطحی امتحانات کے پرچے یا تو لیک ہوگئے یا پھر لیک ہونے کے خدشے کی وجہ سے امتحانات ہی ملتوی کردیئے گئے۔ یہی سب کیا کم تھے کہ پارٹی میں انتشار بھی شروع ہوگیا، مہاراشٹر سے لے کرراجستھان تک لیڈروں کے استعفوں کا ایک دورچلا۔ رہی سہی کسر اترپردیش کی بی جے پی یونٹ نے پوری کردی۔ اُترپردیش جسے مرکز میں رکھ کر بی جے پی نے مرکزی اقتدار پر قابض رہنے کا خواب دیکھا تھا، اب وہیں سے اس کی زمین کھسکنے لگی ہے۔ رہ رہ کر ہریانہ، گجرات اور ہماچل پردیش سے بھی بی جے پی کیلئے بری خبریں آرہی ہیں۔ ضمنی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، اسی کے حوالے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ بی جے پی کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: مسلمان اب شجرممنوعہ نہیں رہے، پارلیمنٹ میں اس بار مسلمانوں پر کھل کر باتیں ہوئیں

بی جےپی نے میڈیا کی مدد سے انتخابات کے دوران بہت طومار باندھا تھاکہ کچھ بھی ہو، بی جے پی کی واضح اکثریت میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ احتیاط کے پیش نظر یہ ضرور کہہ رہے تھے کہ’چار سو پار‘ تو شاید مشکل ہے لیکن ۳۵۰؍ تو کہیں نہیں گیا ہے۔ اب ان میں سے بعض منہ چھپاتے پھر رہے ہیں تو بعض نے ٹریک تبدیل کرلیا ہے۔ اب وہ خود کو ’غیر جانبدار‘ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ محض افتتاح کرنے اور فوٹو کھنچانے کی خواہش میں جلد بازی میں تیار کئے گئے پل پہلے بھی گرتے رہے ہیں اورسڑکوں میں دراڑیں بھی پڑتی رہی ہیں۔ اسی طرح یوپی اورگجرات میں پیپر لیک ہونا یا پھر امتحانات کے ملتوی ہونے کی بات بھی کوئی نئی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ مدھیہ پردیش میں ویاپم جیسے بڑا گھوٹالہ سامنے آیا تھا جس کی بازگشت برسوں سنائی دی تھی اورجس میں درجنوں اموات بھی ہوئی تھیں لیکن ایسی ناراضگی نہیں دیکھی گئی تھی۔ اُن دنوں مودی کی ’ایمانداری‘ پر کوئی سوال اُٹھتا تو اس کے دفاع کیلئے اور سوال اٹھانے والوں پر گالیوں کی بوچھار کیلئے ایک فوج اُٹھ کھڑی ہوتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہورہا ہے۔   یہ شاید پہلا موقع ہے کہ لوگ خاموشی سے ان الزامات کو سن رہے ہیں اور بعض تو دبی زبان سے قبول بھی کررہے ہیں۔ کیا یہ بی جے پی کے زوال کی ایک واضح علامت نہیں ہے؟
 بی جے پی میں حالانکہ واضح انتشار آج بھی نہیں ہے لیکن جس طرح گزشتہ دنوں راجستھان کے ایک مضبوط لیڈر اور بھجن لال کابینہ کے وزیر کروڑی لال مینا نے استعفیٰ دیا اورجب کئی دنوں تک ان کے استعفیٰ پر ’غور‘ نہیں کیا گیا تو انہوں نے اس کا باقاعدہ میڈیا میں اعلان کردیا۔ کیا گزشتہ دس برسوں میں بی جے پی میں اس طرح ضابطہ شکنی کی کوئی روایت دیکھی گئی ہے؟ اور اگر کہیں ایسی کوئی بات ہوئی بھی تو کیا اعلیٰ قیادت کو اس طرح’باغی‘ کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے دیکھا گیا ہے؟ رہی سہی کسریوپی کے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرسا د موریہ نے پوری کردی ہے۔ انہیں امیت شاہ خیمے کا لیڈر تصور کیا جاتا ہے جن کا کام یوگی پر ’نظر‘ رکھنا ہے۔ ان دنوں وہ جس طرح کی ’خاموش تحریک‘ چلا رہے ہیں، اگر اس کی سرپرستی امیت شاہ کررہے ہیں تو بھی اور نہیں کررہے ہیں تو بھی، دونوں ہی صورتوں میں وہ بڑی بات ہے۔ 
 ضمنی انتخابات میں بی جے پی جس ذلت آمیز شکست سے دو چار ہوئی، وہ اس کیلئے بڑی شرم کی بات ہے۔ ۱۳؍ میں سے اس کے ہاتھ صرف ۲؍ سیٹیں ہی آسکیں جبکہ ’انڈیا‘ اتحاد نے ۱۰؍ سیٹوں پر قبضہ کیا۔ بی جے پی یہ سوچ سوچ کر پریشان ہے کہ اگریوپی میں ہونے والے آئندہ کے ضمنی الیکشن میں بھی اس کا یہی حال رہا تو اس کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ کیا اس کے بعد بھی جے ڈی یو اور تیلگودیشم اسی طرح ’خاموش‘ رہیں گی یا ان کے مطالبات مزید بڑھ جائیں گے؟اس کے بعد مہاراشٹر، ہریانہ اورجھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات کے نتائج اگر اس کے خلاف گئے تو پھر راجیہ سبھا میں کیا ہوگا جہاں اسے اکثریت نہیں ہے؟ پھر اس کے التوا میں پڑے بلوں کا کیا ہوگا؟ خیر بی جے پی کچھ بھی سوچ رہی ہو لیکن ان لوگوں کو جنہیں آئین میں یقین ہے، یہ سوچ کر اطمینان ہونے لگاہے کہ بی جے پی کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK