گزشتہ دنوں نئی لوک سبھا کا پہلا اجلاس ہوا تو اس کا رنگ ڈھنگ بدلا بدلا اور کچھ نیا نیا سابھی لگا۔ برسوں بعد ایسا محسوس ہوا کہ سیاسی جماعتوں کیلئے اب مسلمان شجر ممنوعہ نہیں رہے۔ ان کے مسائل پر باتیں ہوئیں۔
EPAPER
Updated: July 10, 2024, 4:56 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
گزشتہ دنوں نئی لوک سبھا کا پہلا اجلاس ہوا تو اس کا رنگ ڈھنگ بدلا بدلا اور کچھ نیا نیا سابھی لگا۔ برسوں بعد ایسا محسوس ہوا کہ سیاسی جماعتوں کیلئے اب مسلمان شجر ممنوعہ نہیں رہے۔ ان کے مسائل پر باتیں ہوئیں۔
گزشتہ دنوں نئی لوک سبھا کا پہلا اجلاس ہوا تو اس کا رنگ ڈھنگ بدلا بدلا اور کچھ نیا نیا سابھی لگا۔ برسوں بعد ایسا محسوس ہوا کہ سیاسی جماعتوں کیلئے اب مسلمان شجر ممنوعہ نہیں رہے۔ ان کے مسائل پر باتیں ہوئیں۔ بعض اراکین پارلیمان نے اشاروں اور کنایوں میں تو بعض نے کھل کراپنی رائے کااظہار کیا۔ وہ سیاسی جماعتیں جو عوامی جگہوں پر ’اَلپ سنکھیک‘ اور ’مائناریٹی‘ جیسے لفظ کے تذکرے سے بھی گریز کرتی تھیں، اس بار کھل کر مسلمانوں کا نام لیا اوران کے مسائل پر گفتگو کی۔ صدر جمہوریہ کے خطاب پرشکریہ کی تحریک کے دوران یہ خوشگوار تبدیلی دونوں ایوانوں کے اراکین کی تقریروں میں محسوس کی گئی۔ ملکارجن کھرگے، راہل گاندھی، سنجے سنگھ، اسدالدین اویسی، مہوا موئترا، چندرشیکھر آزاد (راون)، منوج جھا، عمران مسعود، کلیان بنرجی، سگاریکا گھوش، عمران پرتاپ گڑھی، جان بریٹاس، حارث بیرن اور آغاسید روح اللہ مہدی سمیت کئی اراکین نے کسی نہ کسی حوالے سے مسلمانوں کے موضوع پر باتیں کیں اور ان کے مسائل کو ایوان میں اُٹھانے کی جرأت کی۔ ورنہ گزشتہ ۱۰؍ برسوں سے ملک میں جو سیاسی صورت حال بنی تھی یا بنا دی گئی تھی، اس میں سیکولرجماعتیں بھی مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے موضوعات سے کترا کر نکل جانے ہی میں عافیت سمجھتی تھیں۔ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں شکست کے بعد کانگریس کے سینئر لیڈر اے کے انٹونی کی قیادت میں بننے والی کمیٹی کی رپورٹ میں بھی یہی بات تھی کہ کانگریس کو مسلمانوں کی ’تشٹی کرن‘ والی پالیسی سے نقصان ہوا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کانگریس کی مرکزی قیادت اس رپورٹ کو سرعام مسترد کرکے کوڑے دان کا حصہ بنا دیتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کانگریس نے بظاہر بھلے ہی اس رپورٹ کو قبول کرنے سے انکارکیا تھا لیکن عملاً وہ اسی راہ پر چل پڑی تھی۔ مسلمانوں کی آواز بننے سے اس نے خود کو دورکرلیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مزید تاریکی میں گرتی چلی گئی۔
بہرحال دیر آید، درست آید۔ سیاسی جماعتوں نے اس غلطی کو محسوس کر لیا ہے۔ اس غلطی کا زبانی اقرار ہو یا نہ ہو، لیکن پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اراکین کی تقریر نے بہرحال یہ ثابت کردیا ہے۔ صدر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک کے دوران راہل گاندھی نےنبی کریم ؐ کی تعلیمات کا حوالہ دیا۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کی لوک سبھا میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ نبی کریم ؐ کے ساتھ ہی راہل گاندھی نے شیواجی، گرو نانک، یسوع مسیح، گوتم بدھ اور مہاویر کی تعلیمات کا بھی حوالہ دیا۔ اپوزیشن لیڈر نے قرآن کریم کے حوالے سے کہا کہ اس میں پیغام دیا گیا ہے کہ’ ’خوف نہ کھاؤ، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں سن اور دیکھ رہاہوں۔ ‘‘ دوسری طرف راجیہ سبھا میں کانگریس سربراہ ملکارجن کھرگے نے صدر کے خطاب میں کمزوروں، دلتوں اور اقلیتوں کا تذکرہ نہ ہونے پر افسوس کااظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’صدر کا خطاب بے سمت اور دور اندیشی سے عاری تھا۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: جمود ٹوٹا،۱۰؍ سال بعد راہل گاندھی کی شکل میں ملک کو ۱۲؍واں اپوزیشن لیڈر ملا
برسوں بعد پارلیمنٹ میں یہ نظارہ دیکھنے کو ملا کہ کانگریس کے مسلم اراکین پارلیمان نے مسلم مسائل پر آواز بلند کی اور شدت کے ساتھ کی، ورنہ کانگریس کے مسلم اراکین کے تعلق سے یہ تاثر عام تھا کہ مسلم مسائل پر انہیں لب کشائی کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ ہجومی تشدد کے موضوع پر لوک سبھا میں عمران مسعود اور راجیہ سبھا میں عمران پرتاپ گڑھی نے حکومت کو آئینہ دکھایا۔ سہارنپور کے رکن پارلیمان عمران مسعودنے کہا کہ ’’ بار بار کہا جا رہا ہے کہ ملک میں قانون بنائے جارہے ہیں مگر بھیڑ بے قابو ہوکر لوگوں کو مار رہی ہے۔ میرے پارلیمانی حلقے کے ۳؍ لوگوں کو چھتیس گڑھ میں مارا گیا، علی گڑھ میں بھیڑ نے ایک شخص کا قتل کردیا، آگرہ میں ۲؍ لوگوں نے اسلئے خود کشی کرلی کہ وہ پولیس کے مظالم سے تنگ آچکے تھے۔ فیروز آباد میں ایک شخص پولیس کی قید میں مار دیاگیا۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ملک میں جس طرح کے حالات بن رہے ہیں ان میں آپ قانون سخت کرنے کی بات کر رہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ قانون سخت کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ قانون کو نافذ کرنا پڑے گا اوراس پر عمل کرنا پڑے گا۔ اسی طرح راجیہ سبھا رکن عمران پرتاپ گڑھی نے بلڈوزر راج اورہجومی تشدد پر احتجاج کیا۔
راجیہ سبھا ہی میں ترنمول کانگریس کی رکن اور سینئر صحافی سگاریکا گھوش نے ہجومی تشدد پر آواز بلند کی۔ انہوں نے کہا کہ جب کسی طبقے کے خلاف ہیٹ اسپیچ کو معمول بنا لیا جاتا ہے، اسےقبولیت عطاکردی جاتی ہے اور ہیٹ اسپیچ دینے والوں کو سرکاری سرپرستی میسر ہوجاتی ہے تب سماج میں ہجومی تشدد کا راستہ ہموار ہونے لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کسی اور کا نہیں، ملک اور ملک کی جمہوریت کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح مہوا موئترا، کلیان بنرجی اور ٹی ایم سی کے دیگر لیڈران نے بھی مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویے کا ذکر کرتے ہوئے انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم مودی کی تقریر کا حوالہ دیا۔
عام آدمی پارٹی جو مسلم مسائل سے خود کو کوسوں دور رکھتی تھی، اس بار اس کے راجیہ سبھا رکن سنجے سنگھ نے ایوان میں وزیراعظم مودی کومخاطب کرتے ہوئے مسلمانوں کی تحریک آزادی کی تاریخ بیان کی۔ سری نگر سے منتخب نیشنل کانفرنس کے رکن آغاسید روح اللہ مہدی نے گزشتہ لوک سبھا کے رکن کنور دانش علی کے ساتھ ہونےوالے رویے کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے سماج میں ’ہجومی تشدد‘ کے رجحان کو تقویت ملتی ہے۔ اسدالدین اویسی نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنی نمائندگی کا حق ادا کیا اور مسلم لیگ کے رکن پارلیمان حارث بیرن نے بھی راجیہ سبھا میں اپنی موجودگی کااحساس دلایا۔ اس دوران سب سے زیادہ کھل کر چندرشیکھر آزاد (راون) نے مسلمانوں کا نام لیا اور ایوان سے باہر آکر بھی وہ مسلسل مسلمانوں کے مسائل پر آواز بلند کررہے ہیں۔
اپوزیشن کے اراکین نے مسلمانوں کے مسائل پر آواز بلند کی، اس کیلئے ان کا شکریہ.... لیکن یہ ان کا حق بھی تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو وہ بددیانتی کے مرتکب قرار پاتے۔ اس مرتبہ مسلمانوں نے خطرات مول لے کر اُن کا ساتھ دیا ہے اور کھل کر اُن کی حمایت کی ہے۔ کئی حلقوں میں مسلمانوں نے اپنے فیصلوں سے’ انڈیا‘اتحاد کے علمبرداروں کو بھی حیران کیا ہے۔ سیکولر طاقتوں کے ساتھ مل کرمسلمانوں نے سیاسی جماعتوں کو ایک خاموش پیغام بھی دیا ہے۔ وہ پیغام یہ ہے کہ عوامی اور قومی مفادکی خاطر اپنے اندر قربانی کا جذبہ پیدا کریں، ورنہ عوام انہیں خود ٹھکانے لگادیں گے۔ نگینہ (اترپردیش)، بہرام پور (مغربی بنگال)، لداخ (لداخ)، پورنیہ (بہار) اور اکولہ (مہاراشٹر) جیسے کئی پارلیمانی حلقوں میں سیکولر ووٹرس نے کھل کر اپنی رائے کااظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ اترپردیش ہو یا مغربی بنگال، مہاراشٹر ہو یا پھر کرناٹک، تلنگانہ ہو یا تمل ناڈو، کیرالا ہو یا پھر ہریانہ اور پنجاب، مسلمانوں نے سیکولر رائے دہندگان کے ساتھ مل کر سیکولر جماعتوں کو کامیاب کرانے کی ہرممکن کوشش کی۔ مسلمانوں نے نہ صرف یہ کہ اتحاد کا ثبوت پیش کیا، بلکہ دوراندیشی کا بھی مظاہرہ کیا اور سب سے بڑھ کریہ کہ رائے دہی کے حق کو اپنی ذمہ داری محسوس کی اور اسے ایک امانت سمجھ کر سیکولر جماعتوں کے امیدواروں کو کامیاب کرانے کی کوشش کی۔
سیاسی جماعتوں کااس طرح اپنی نمائندگی کاحق ادا کرنا ایک خوش آئند پیش رفت ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے لیکن .... مسلمانوں کو کسی طرح کی خوش فہمی پالنے اور ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا جو کام ہے، انہیں کرنے دیں، مسلمان اپنا کام کریں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ کسی اور پر انحصار کرنے کے بجائے وہ اپنی صفوں کو درست اوراپنی جڑوں کو مضبوط کرنے کی سمت کام کریں۔ ملک کے موجودہ سیاسی حالات کو اپنے لئے موافق سمجھتے ہوئے اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کیلئے وقت دیں۔ خیال رہے کہ ہمارا کام ہمیں ہی کرنا ہے، یہ کوئی دوسرا نہیں کرے گا۔
جولوگ سائیکل چلاتے ہیں، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہوا اگر اُن کے خلاف ہے تو انہیں سائیکل چلانے میں کافی دشواری پیش آتی ہے، زیادہ وقت میں کم سفر طے ہوتا ہے اور توانائی بھی زیادہ صرف ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ہوا اگر موافق ہے تو انہیں سفر میں بہت آسانی ہوجاتی ہے، کم وقت میں زیادہ سفر ہوتا ہے اورتوانائی بھی کم لگتی ہے.... لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ صرف آسانی ہوتی ہے، پیڈل پر پیرانہیں ہی مارنے ہوتے ہیں اور ہینڈل کو بھی انہیں ہی قابو میں کرنا ہوتا ہے۔