Inquilab Logo Happiest Places to Work

دیہی علاقوں میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات درکار

Updated: January 28, 2024, 5:02 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

ایک چشم کشا رپورٹ سامنے آئی ہے جس کے مطابق بنیادی سطح کے ۲۵؍ فیصد طلبہ ایسے ہیں جو اپنی مادری زبان کے متن تک پڑھنے سے قاصر ہیں۔

Basic or primary level education has a very important position in the education system, so it needs attention. Photo: INN
بنیادی یا پرائمری سطح کی تعلیم کو تعلیمی نظام میں انتہائی اہم حیثیت حاصل ہوتی ہے،اسلئے اس پر توجہ ضروری ہے۔ تصویر : آئی این این

تعلیم ملک و معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک اس ضمن میں جو بھی اقدامات ہوئے ہیں، ان کے خاطر خواہ نتائج اب تک برآمد نہیں ہو سکے۔ اس سلسلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے معاملات میں بعض ایسے اصلاحی اقدامات کئے گئے جن سے اس سطح کی تعلیمی صورتحال کسی حد تک اطمینان بخش ہو گئی ہے لیکن بنیادی سطح کی تعلیم کیلئے ابھی بھی ایسے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات درکار ہیں جو مجموعی طور پر تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں۔ اس معاملے میں شہروں کے مقابلے دیہی علاقوں میں بنیادی تعلیم کا معیار اس قدر پست نظرآتا ہے جو حکومت اور پالیسی سازوں کے ان دعووں کو بے حقیقت ثابت کر دیتا ہے جن کی بنا پر ارباب اقتدار ملک میں تعلیمی ترقی کو مثالی قرار دیتے ہیں۔ بنیادی تعلیم کا معیار اگر بہتر نہ ہو تو فطری طور پر اس سے آگے کے تعلیمی مراحل بھی متاثر ہوتے ہیں۔ تعلیم کے حوالے سے پالیسی سازوں کا رویہ بیشتر مثالی نوعیت کا رہا ہے یہی سبب ہے کہ آج بھی ملک کے دیہی علاقوں میں رائج تعلیمی نظام بعض ایسے مسائل سے دوچار ہے جن کا تصفیہ کئے بغیر معیاری تعلیم کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ مختلف ادوار میں حکومت کی بعض پالیسیوں کے سبب تعلیم تک عوام کی رسائی کا دائرہ وسیع ضرور ہوا ہے لیکن اس کے باوجود بنیادی تعلیم کے معیار میں ایسی تبدیلی اب تک نہیں آسکی ہے جسے حتمی طور پر اطمینان بخش کہا جا سکے۔ 
ملک کی تعلیمی صورتحال سے وابستہ مسائل کا تجزیہ کرنے والے پرتھم فاؤنڈیشن کے حالیہ سروے میں بنیادی سطح کی تعلیم سےمتعلق جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ابتدائی مرحلے پر طلبہ کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے ایسے ٹھوس اقدامات درکار ہیں جو اُن کی تعلیمی صلاحیت کو پروان چڑھانے میں مدد گار ثابت ہوں۔ اس سروے میں ۱۴؍ سے ۱۸؍ برس کے تقریباً ۳۵؍ہزار طلبہ کی تعلیمی استعداد کا جائزہ لیا گیا۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں بنیادی سطح کی تعلیم سے وابستہ ان طلبہ کو ان ابتدائی تعلیمی صلاحیتوں میں ناقص پایا گیا جن میں مہارت حاصل کئے بغیر معیاری تعلیم کے حصول کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔ طلبہ کی ابتدائی تعلیمی مہارتوں میں متن کی قرات اور اس کی تفہیم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس سروے رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بنیادی سطح کے ۲۵؍ فیصد طلبہ اپنی مادری زبان کے متن کو پڑھنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح تقریباً ۴۵؍ فیصد انگریزی کے کسی متن کو پڑھنے میں ناکام رہے۔ یہ طلبہ اگر کسی طرح متن کو پڑھنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو اس کے مفہوم کو سمجھنے کی صلاحیت سے یکسر نابلد رہے۔ ایسے افسوس ناک حقائق کی بنا پر بہ آسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تعلیم کے ابتدائی مرحلے پر اس صورتحال سے دوچار طلبہ آئندہ کے تعلیمی مراحل کو بہ حسن و خوبی عبور کرنے میں کیوں کر کامیاب ہو پائیں گے؟

یہ بھی پڑھئے: عوام کے ساتھ نازیبا برتاؤ جمہوری قدروں کی پامالی ہے

بنیادی یا پرائمری سطح کی تعلیم کو تعلیمی نظام میں انتہائی اہم حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اگر اس سطح کی تعلیم کو معیاری اور نتیجہ خیز بنانے کی سنجیدہ کوشش نہ کی جائے تو پھر تعلیمی نظام مجموعی طور پر ایسے حالات کا شکار ہو جاتا ہے جن سے کسی بہتر اور خوش آئندنتیجے کی راہ بڑی حد تک مسدود ہو جاتی ہے۔ اقتدار کی تشہیری مہم سے بالاتر ہو کر اگر ملک کے موجودہ تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ بنیادی نیز ثانوی اور اعلیٰ تعلیمی نظام میں کئے جا رہے اصلاحی اقدامات کے باوصف حالات اب بھی اس قدر اطمینان بخش نہیں ہو پائے ہیں جو مجموعی طور پر تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی راہ ہموار کر سکیں۔ حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کو یقینی بنانے کی خاطر اب تک جو اقدامات کئے ہیں ان سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف سطح کی تعلیم سے وابستہ بنیادی مسائل کا تصفیہ کرنے سے زیادہ دلچسپی ان امور پر رہی ہے جو بہ ظاہر اس پالیسی کو ایک جدید اور ترقی آمیز پالیسی ثابت کر سکیں۔ اس پالیسی میں بعض التزامات اس نوعیت کے ہیں جو صرف ترقی یافتہ ممالک کی نقالی ہیں اور پالیسی میں اس کمی کو کئی ماہرین تعلیم نے بھی واضح کیا ہے۔ یہ پالیسی اگر چہ مادری زبان میں تعلیم کو عام کرنے پر زور دیتی ہے لیکن عملی سطح پر اس کو بروئے کار لانے میں جو وسائل درکار ہیں ان کی طرف عموماً کم توجہ دی گئی ہے۔ 
بنیادی سطح پر طلبہ اگر اپنی مادری زبان کے متن کو پڑھنے سے قاصر ہوں تو ان اسباب کو دریافت کرنے کی ضرورت ہے جن کے سبب اس طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں اگرخصوصی طور سے ملک کے دیہی علاقوں کے بنیادی تعلیمی مراکز پر نظر ڈالی جائے تو ان اداروں کو اب بھی ایسے مسائل درپیش ہیں جو اس مرحلے پر طلبہ کے حصول تعلیم کی راہ میں مختلف قسم کی پریشانیاں کھڑی کرتے ہیں۔ ادھر کچھ برسوں کے دوران بعض ریاستوں میں اس سطح پر کچھ نتیجہ خیز اصلاحی اقدامات کئے گئے ہیں لیکن اکثریت ایسی ریاستوں کی ہے جنھیں اس مسئلے پر کوئی سنجیدہ اقدام کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی ہے۔ دیہی علاقوں کے پرائمری تعلیمی مراکز میں بلاصلاحیت اساتذہ کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان تعلیمی مراکز میں اساتذہ کی کمی کے علاوہ سازگار ماحول نیز مختلف قسم کے مادی وسائل کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ کئی ریاستوں خصوصاً شمالی ہندوستان کے دیہی پرائمری اسکولوں میں طلبہ اور اساتذہ کا تناسب بھی اس قدر غیر معتدل ہے جو طلبہ کی تعلیمی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ 
بنیادی تعلیم کے اس حالیہ سروے میں جو مسئلہ سامنے آیا ہے اس سے صرف پرائمری تعلیم کا ہی معیار متاثر نہیں ہوتا بلکہ یہ مسئلہ آئندہ کے تعلیمی مراحل کو بھی اس طور سے متاثر کر سکتا ہے کہ طالب علم اسنادکے سہارے تدریجی ترقی تو کر لے لیکن علم کے بنیادی مقصد تک اس کی رسائی معرض خطر ہی میں رہے۔ اس وقت ملک کی تعلیم یافتہ نوجوان نسل کا اگر اس حوالے سے جائزہ لیاجائے تو اس میں اکثریت ایسے ہی لوگوں کی نظر آئے گی جو تعلیم کے بنیادی مقصدہی کا ادراک نہیں رکھتی۔ اس صورتحال کے پیدا ہونے کا اصل سبب یہی ہے کہ تعلیم امور سے وابستہ بنیادی تقاضوں کی تکمیل میں ان حقائق کو اکثر نظر انداز کر دیا گیا جن کے بغیر تعلیم کو معیاری اور نتیجہ خیز نہیں بنایا جا سکتا۔ ان حقائق میں متن کی قرات اور تفہیم کوفیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ فی الوقت رائج تمام علوم کی تفہیم میں زبان پر دست رس اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سائنس اور تکنیک کی ہوش ربا ترقی کے باوصف زبان کی یہ اہمیت آج بھی ہے اور آئندہ بھی برقرار رہے گی۔ اس ناقابل تردید حقیقت کے پیش نظر اگر طلبہ کی زبان دانی کی مہارت پر نظر ڈالی جائے تویہ کہا جا سکتا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے متعلق کئے جارہے تمام دعوے اس وقت تک بے سود رہیں گے جب تک اس صورتحال میں خوشگوار تبدیلی کیلئے نتیجہ خیز اقدامات نہ کئے جائیں۔ 
اس تبدیلی کیلئے ناگزیر ہے کہ دیہی علاقوں کے تعلیمی نظام کو درپیش مسائل پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور ان مسائل کا تصفیہ کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ اس ضمن میں ضروری یہ بھی ہے کہ طلبہ کی صلاحیت کی قدر پیمائی میں کاغذی اعداد و شمار سے زیادہ ان کی حقیقی صورتحال کو پیش نظر رکھا جائے۔ تعلیم یا زندگی کے بنیادی معاملات سےمتعلق شعبوں کی کارکردگی کا تجزیہ عموماً جن پیمانوں پر کیا جاتا ہے ان کا حقیقت حال سے تعلق برائے نام ہوتا ہے۔ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلئے پالیسی سازوں کو اس طرز عمل سے بالاتر ہو کر طلبہ کی علمی لیاقت کو بروئے کار لانے والے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات سے خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں کو ان افکار ونظریات سے پاک رکھا جائے جو طلبہ کی تعلیمی استعداد کو مختلف قسم کے تعصبات میں محصور کر سکتے ہیں۔ 
 تعلیم کا بنیادی مقصد انسان کو اس قدر بلاصلاحیت بنانا ہے کہ وہ اپنی روزی روٹی کا معقول بندوبست کرنے کے علاوہ ایک بیدار اور ذمہ دار شہری کا کردار بخوبی نبھا سکے۔ اگر تعلیمی نظام ان مقاصد کے حصول کو یقینی نہ بنا سکے تو اس میں ایسی اصلاحات ناگزیر ہو جاتی ہیں جو طلبہ کی شخصیت سازی سے وابستہ ہر دو پہلو کی تکمیل کی راہ ہموار کر سکیں۔ نئی تعلیمی پالیسی اگر چہ اصولی سطح پر ان تمام نکات کو زیر بحث لاتی ہے لیکن عملی سطح پر اس کے نفاذ میں جو دشواریاں ہیں ان کو ختم کئے بغیر تعلیمی نظام ان تلخ حقائق سے مبرا نہیں ہو سکتا جو حقائق پرتھم فاؤنڈیشن کی حالیہ سروے رپورٹ میں سامنے آئے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK