مدھیہ پردیش کے ضلع دیواس کی خاتون تحصیلدار اور شاجاپور کے ضلع کلکٹر کے نازیبا برتاؤکا یہ واقعہ دراصل جمہوریت کے ان بنیادی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے جس میں عوام کے حقوق اور ان کے وقار کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے لیکن افسوس کہ اب یہ معمول بنتا جارہا ہے۔
یہ ہیں دیواس ضلع کی تحصیلدار انجلی گپتاجو ایک کسان کے بیٹے کو انگریزی بولتے سن کر برہم ہوگئیں اوراسے ’انڈے سے نکلا ہوا چوزہ‘ کہہ دیا۔ تصویر : آئی این این
گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش سے متعلق دو ایسی خبریں میڈیا میں آئیں جوعوام اور اقتدار کے رابطے کی افسوس ناک حقیقت کو آشکار کرتی ہیں۔ ان خبروں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑے جمہوری ملک کی شاخت رکھنے والے ملک میں اب مقتدر شخصیات کے نزدیک عوام کی حیثیت ایسے مطیع و فرماں بردار کی ہو گئی ہے جسے بہرصورت اقتدار کی مرضی یا خواہش کو ترجیح دینا ہے۔ سیاسی لیڈروں خصوصاً برسر اقتدار ارباب سیاست اور مرکزی و ریاستی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کا طرز عمل اس معاملے میں تقریباًیکساں نظر آتا ہے۔ ارباب اقتدار کو جہاں اپنی حکومت کا زعم ہوتا ہے وہیں اعلیٰ افسران اپنے عہدے سے عوام کو ہمہ وقت مرعوب اور بعض معاملات میں خوفزدہ کئے رکھنا چاہتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے ضلع دیواس کی خاتون تحصیلدار اور شاجاپور کے ضلع کلکٹر کے نازیبا برتاؤکا یہ واقعہ دراصل جمہوریت کے ان بنیادی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے جس میں عوام کے حقوق اور ان کے وقار کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
اعلیٰ افسران کا عوام کے ساتھ یہ سلوک موجودہ نظام میں نہ صرف عوام کی بے توقیری کو عیاں کرتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز اشخاص اپنے فرائض کی تکمیل میں آئینی اصولوں پر کاربند رہنے سے زیادہ اپنے عہدے کے جاہ و جلال سے عوام کو اپنا طابع بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ جمہوری طرز سیاست میں مرکزی حیثیت کے حامل عوام اگر ان افسران سے اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں تو اکثر انھیں اس قدر خوفزدہ کردیا جاتا ہے کہ وہ اپنا جائز حق حاصل کرنے کی تگ و دو سے دست بردار ہو جاتے ہیں ۔ جن افسران پر عوام کے حقوق کے تحفظ کی آئینی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر وہی افسران اپنے عہدے کا رعب دکھا کر عوام کو ان کے حق سے محروم کرنے والے اقدامات کرنے لگیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ جمہوریت کا ڈھانچہ اندر سے کھوکھلا ہو گیا ہے۔ ایسے میں مقتدر اشخاص اس ڈھانچہ کی صرف ظاہری چمک دمک کو برقرار رکھنے پر ہی سارا زور صرف کرنے لگتے ہیں اور وطن عزیز میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران سماجی اور سیاسی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان میں اس تبدیلی کو بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
عوام کو معیاری زندگی فراہم کرنے کی غرض سے قایم کئے گئے مختلف محکموں میں حالات تقریباً یکساں ہیں اور ان محکموں کے اعلیٰ افسران خود کو ان تمام آئینی حدود سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں جن حدود کی رو سے ان کا اولین کام یہ ہے کہ وہ عوام کے مسائل کا تدارک اس طور سے کریں کہ عوام کو اپنی تذلیل و تضحیک کا احساس نہ ہو۔ آزادی کے بعد ایک سیکولر جمہوری ملک کے قیام کو دوام عطا کرنے کیلئے آئین ساز کمیٹی اور ماہرین نے جو کوششیں کی تھیں ، ان میں عوامی فلاح اور ان کے طرز حیات کو بہتر بنانے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی لیکن اب جبکہ یہ ملک اپنی آزادی کے ۷۵؍ سال مکمل کرچکاہے، اقتدار اور عوام کے رابطہ میں درآنے والی تبدیلیوں نے عوام کی مرکزیت پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
جمہوری طرز سیاست میں عمل کی سطح پر رونما ہونے والی اس تبدیلی کے دونمایاں اسباب ہیں ۔ ان میں پہلا سبب یہ کہ عوام کے اندر ابھی تک شعور ہی پیدا نہیں ہو سکا جو بحیثیت شہری انھیں اپنے حقوق و فرائض کی آگہی عطا کر سکے۔ اگر اس ضمن میں ملکی سماج کا سروے کیا جائے تو اکثریت ایسے لوگوں کی ملے گی جو نہ صرف یہ کہ اس شعور سے نابلد ہیں بلکہ زندگی کے مختلف معاملات میں اپنے تعصب آمیز رویے کو اس شعور پر ترجیح دینے کی حمایت کرتے ہیں۔ چونکہ آزادی کے بعد ہی سے ملک میں بعض ایسے عناصر اپنی دکان چمکانے میں مصروف رہے ہیں جنھیں عوام کے مسائل و معاملات سے زیادہ ان کے جذباتی استحصال میں دلچسپی رہی ہے لہٰذا جذبات کے ان تاجروں نے بھی کبھی یہ نہیں چاہا کہ عوام اپنے حقوق و فرائض کے تئیں بیدار ہو سکیں۔ ایسے ماحول میں جب کبھی عوام کے مفادات اوریہ مقتدر شخصیات آمنے سامنے ہوتی ہیں تو وہی صورت پیدا ہوتی ہے جو گزشتہ مدھیہ پردیش کے دو اضلاع میں ہوئی۔
یہ بھی پڑھئے: کیا اپوزیشن اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں آسکے گا؟
مقتدر اشخاص خواہ وہ سیاسی ہوں یا مختلف محکموں کے اعلیٰ افسران، عوام کو ایک ایسی شے کے طور پر دیکھنے کے خوگر ہو گئے ہیں جو حسب مرضی ان کا ہر حکم بجا لانے پر ہمہ وقت آمادہ رہے۔ یہ صورتحال صرف مدھیہ پردیش سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس وقت ملک گیر سطح پر اعلیٰ افسران کا مزاج ایسا ہی کچھ ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں خصوصی طور سے ان ریاستوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے جہاں بھگوا پارٹی برسر اقتدار ہے۔ چونکہ اس پارٹی کے مزاج ہی میں فسطائیت کا عنصر شامل ہے لہٰذا اس کے ماتحت کام کرنے والے سرکاری اور نیم سرکاری عہدے داروں کا مزاج اور کردار بھی یہی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ دائیں باز و کے متشدد سیاسی و مذہبی افکار کو جس طرح سماجی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ سے بھی عوام اور اقتدار کے رابطہ کی نوعیت میں تبدیلی آئی ہے۔ اب عوام اور ارباب اقتدار کے باہمی روابط میں ان تعصبات کو نمایاں حیثیت حاصل ہو گئی ہے جن کے سبب عوام صرف عوام نہ رہ کر مختلف مذاہب کے پیرو کار ہو گئے ہیں۔ جمہوری نظام حیات میں عوام کے درمیان ایسا امتیاز قائم کرنا صریح طور پر جمہوری قدروں کی خلاف ورزی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ آٹھ دس برسوں سے وطن عزیز میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اقتدار اور عوام کے درمیان رابطہ کی یہ تبدیلی جب اقتدار کے مزاج میں پوری طرح سرایت کر جاتی ہے توپھر تحکمانہ انداز اقتدار پر اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ وہ ان امتیازی حدود کو بھی درکنا ر کر دیتا ہے، جن امتیازات کی بنا پر وہ عوام کو مختلف خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔
جمہوریت میں عوام کی اس بے توقیری کی ایک وجہ عوامی فلاح و بہبود کیلئے قائم کئے گئے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں پر ارباب اقتدار کا وہ غلبہ ہے جو عوام کے مفاد سے زیادہ ان کے استحصال کو ترجیح دیتا ہے۔ اس غلبہ کی زد میں آنے کے بعد ان اداروں میں ملازمت کرنے والے سرکاری حکام عوام کے تئیں اپنی جوابدہی کے احساس سے پوری طرح آزادہو جاتے ہیں اور ان کی ساری توجہ اور ساراز ور ارباب اقتدار کے مفاد کو یقینی بنانے پر صرف ہونے لگتا ہے۔ اس عمل سے گزرنے کے دوران اکثر ان آئینی تقاضوں کو بھی ان دیکھا کر دیا جاتا ہے جو اس ملک کے سیکولر کردار کو یقینی بنائے رکھنے میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ آئینی تقاضوں کو اس طور سے ان دیکھا کرنے کی ایسی غیر آئینی حرکتیں نہ صرف ارباب سیاست کرتے ہیں بلکہ ان کی خواہش کے احترام میں اعلیٰ افسروں کا بھی یہ وطیرہ ہو جاتا ہے۔ جب ملک سیاسی اور سماجی سطح پر ایسے حالات سے دوچار ہوتا ہے تو ایسے میں عوام کی حیثیت بیشتر شطرنج کے ان مہروں جیسی ہو جاتی ہے جو کھلاڑی کی فتح کی راہ ہموار کرنے میں اپنی جانیں نثار کر دیتے ہیں۔ اس وقت بیشتر اعلیٰ سرکاری افسران اور ارباب اقتدار شطرنج کے اسی کھلاڑی کا رول ادا کر رہے ہیں جو اپنے مفاد کو یقینی بنائے رکھنے کیلئے مہرہ نما عوام کو صرف اپنے احکام کا پابند بنائے رکھنا چاہتے ہیں ۔ ان کھلاڑیوں کو صرف اپنی کامیابی سے غرض ہے۔
اگر عوام ان کے رعب اور بیجا جاہ و جلال سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں سماجی سطح پر ایک بیدار شہری کی حیثیت اختیار کرنا ہوگی۔ شہریت کا پختہ شعور ہی انہیں اس تذلیل و تضحیک سے بچا سکتا ہے جو انھیں آئے دن برداشت کرنا پڑتی ہے۔ جب تک عوام اور اقتدار کے رابطہ میں عوامی مفاداور ان کے حقوق کے تحفظ کو ترجیح نہیں حاصل ہوگی تب تک جمہوریت کا وجود صرف کاغذوں ہی پر رہے گا۔ جمہوریت کو عمل کی سطح پر لانے میں عوام کو اپنے حقوق و فرائض سے مکمل آگہی ناگزیر ہے اور یہ آگہی تب تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ وہ مختلف قسم کے تعصبات میں گرفتار ہیں۔ اس گرفتاری سے آزادی ہی ان کی عزت و وقار کے دوام کو یقینی بنا سکتی ہے اور جب تک عوام اس پر آمادہ نہیں ہوں گے تب تک مقتدر اشخاص ان کا استحصال کرتے رہیں گے۔