وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں اپوزیشن کا ذکر جس انداز میں کیا، اس سے یہی ظاہر ہو رہا تھا کہ جیسے ایوان میں اپوزیشن کی موجودگی کوئی تمسخر آمیز معاملہ ہے۔
EPAPER
Updated: July 10, 2024, 3:51 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں اپوزیشن کا ذکر جس انداز میں کیا، اس سے یہی ظاہر ہو رہا تھا کہ جیسے ایوان میں اپوزیشن کی موجودگی کوئی تمسخر آمیز معاملہ ہے۔
پارلیمنٹ کےاجلاس میں سیاسی مباحث کے دوران اراکین ایوان کے ذریعہ قصہ گوئی بھی خوب ہو رہی ہے۔ ارباب اقتدار اور اپوزیشن اپنے موقف کی توثیق کیلئے اور کبھی مخالف کو زیر کرنے یا اس کی تضحیک کیلئے مختلف طرح کے قصے سنا رہے ہیں۔ ایوان میں قصہ گوئی کے اس چلن کے تناظر میں مضمون کی شروعات ایک قصہ نما حکایت سے کرنا بیجا نہ ہوگا۔ حکایت کچھ یوں ہے کہ جب کوئی بچہ ناقص تربیت یا اپنی سرکشی اور شرارت کے سبب نظم حیات کی پابندی سے خود کو بالاتر سمجھنے لگتا ہے تو اس کا یہ رویہ کچھ عرصے تک تو اس کے متعلقین اور احباب و اقارب برداشت کر لیتے ہیں لیکن جب وہ برداشت کے اس عمل کو اپنے اقارب کی کمزوری و مجبوری سمجھنے لگتا ہے تو اسے نظم و ضبط حیات اور ایک مہذب طرز زندگی کا پابند بنانے کیلئے مختلف تدابیر عمل میں لائی جاتی ہیں۔ ان تدابیر میں اس کے ساتھ سختی اور نرمی ہر دو طرح کا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اس کی اصلاح اور ایک معیاری زندگی بسر کرنے میں معاون طور طریقوں سے اسے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ میں مضبوط اپوزیشن کی موجودگی انہی احباب و اقارب کی حیثیت رکھتی ہے جو کسی سرکش بچے کو راہ راست پر لانے کیلئے ایسی تدابیر اختیار کرتے ہیں کہ بچے کو آداب حیات سے واقفیت ہو جائے اور وہ اس زعم سے باہر آجائے کہ اس کے سامنے ہر شے ہیچ ہے۔
وزیر اعظم مودی بھلے ہی راہل گاندھی کو ’بالک بدھی‘ کہیں لیکن اپوزیشن لیڈر کے طور پر لوک سبھا میں ان کی پہلی تقریر پر اقتدار کے کئی قد آور لیڈروں کا رد عمل یہ ظاہر کرتا رہا کہ جس لیڈر کو بی جے پی کے میڈیا سیل نے ناقص العقل ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اس کی مدلل اور منطقی باتوں کا جواب دینے سے وہ قاصر ہیں۔ راہل کی تقریر میں ایسی باتیں بہت کم رہیں جن کا تعلق عقل و شعور سے زیادہ جذبات سے ہو۔ یہ طرز گفتار اس پارٹی کو کیونکر پسند آ سکتی ہے جس کی سیاست کی بنیاد ہی عوام کے جذباتی استحصال پر ہو۔ ایوان میں دوسرے دن جب وزیر اعظم نے اپنے مخصوص انداز میں تقریر پیش کی تو راہل گاندھی کی باتوں کا مدلل جواب دینے کے بجائے بیشتر قصے کہانیوں کا سہارا لیا اور ایوان کا اچھا خاصا وقت اس میں نکل گیا۔ ایک اندازے کے مطابق ایوان کی ایک دن کی کارروائی پر ایک کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہوتے ہیں اور ایسی کثیر رقم خرچ ہونے کے بعد عوام مرکوز موضوعات پر نتیجہ خیز گفتگو کے بجائے اگر صرف قصے کہانیاں سنی اور سنائی جائیں تو یہ واضح طور پر ٹیکس دہندگان کی رقوم کا بیجا اصراف ہے۔
یہ بھی پڑھئے: آخر کب تک ’اردو‘ زیادتیوں کا شکار ہوتی رہے گی؟
ایوان میں عوام مرکوز موضوعات پر صحتمند اور نتیجہ خیز مباحثہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ اقتدار، حزب اختلاف کو سیاسی سطح پر وہی اہمیت دے جو ایک حکومت کی شکل میں اسے حاصل ہے لیکن یہاں تو معاملہ ہی بڑا عجیب و غریب قسم کا ہے۔ وزیر اعظم اپنے خطاب کے دوران اپوزیشن کا ذکر جس انداز میں کر رہے تھے اس سے تو یہی ظاہر ہو رہا تھا کہ جیسے ایوان میں اپوزیشن کی موجودگی کوئی کوئی تمسخر آمیز معاملہ ہے۔ جمہوری طر ز سیاست میں مضبوط ایوزیشن کی موجودگی عوامی مفادات کو یقینی بنانے اورعوام کو درپیش سماجی و معاشی مسائل کے تناظر میں اقتدار کے فیصلوں کی قدر پیمائی کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ جب ایوزیشن کمزور ہوتو اقتدار کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق قوانین بنائے اور آئینی اداروں کو ان قوانین کی تعمیل کا پابند بنائے۔ پارلیمنٹ کے رواں اجلاس سے قبل عموماً اقتدار کی جانب سے یہی کچھ ہوتا رہا اور ملک کی سماجی و معاشی زندگی پر اثر انداز ہونے والے کئی اہم بل اس وقت پاس ہو گئے جبکہ ایوزیشن کے ۹۰؍ سے زیادہ اراکین برخاستگی کی مار جھیل رہے تھے۔ اسلئے اگر ملک میں حکومتی اقدامات کو جانب داری اور تعصب سے بالاتر رکھنا ہے تو اس کیلئے مضبوط حکومت کے ساتھ ہی ساتھ دَم دار اپوزیشن بھی ضروری ہے۔ اگر اقتدار میں شامل کوئی سیاسی لیڈر کسی بھی انداز میں اپوزیشن کو کمتر ثابت کرنے یااس کی تحقیر کرنے والا رویہ اختیار کرے تو یہ رویہ دراصل جمہوری طرز سیاست کی تضحیک کے مترادف ہے۔
لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اپنے پہلے خطاب کے دوران کئی اہم اور حساس موضوعات پر حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ راہل کی تقریر ان کی اس معیاری سیاسی سمجھ کو منعکس کرتی رہی جس کا براہ راست تعلق عوام کو سماجی و معاشی سطح پر درپیش ان مسائل و معاملات سے ہے جو معیار زندگی کا پیمانہ مقرر کرتے ہیں۔ ان کی تقریر سے یہ تاثر واضح طور پر قائم ہوا کہ حکومت کو ملک کی عوام کے تئیں اپنی جوابدہی کو نہ صرف محسوس کرنا ہوگا بلکہ حکومتی فیصلوں اور پالیسیوں کی تشکیل میں اس پہلو کو کسی طور بھی نظر انداز کرنا دراصل ان رائے دہندگان کے ساتھ فریب ہوگا جن کے ووٹوں کے سہارے این ڈی اے کو حکومت سازی کا موقع ملا ہے۔ راہل نے اپنی تقریر میں خصوصی طور پر اس طرز سیاست پر مسلسل ملامت کی جس میں عوام اور حزب اختلاف کے لیڈروں کو خوفزدہ کر کے سیاسی فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران سماج میں جو حبس زدہ ماحول پیدا ہوا ہے وہ دراصل اسی طرز سیاست کا زائیدہ ہے۔ ملک و معاشرہ کی حقیقی ترقی کا انحصار امن و آشتی کی سازگار فضا پر ہے اور اگر اقتدار اپنے سیاسی مفاد کیلئے اس فضا کو تعصب، نفرت اور خوف سے آلودہ بنانے کی حکمت عملی اختیار کر لے تو اس سے ملک کا سماجی ڈھانچہ یقینی طور پر کمزور ہوتا ہے۔ راہل کی تقریر نے مخلوط سماج کی سالمیت کیلئے خطرہ بن چکی اس تعصب زدہ سیاست کو آئینہ دکھا دیا جو اپنے مفاد کیلئے نفرت اور تشدد کے رجحان کو مہمیز کرتی رہی۔
اپوزیشن لیڈر کی باتوں کا مدلل جواب دینا اقتدار کی اخلاقی ذمہ داری تھی لیکن وزیر اعظم نے جس طرح اپوزیشن کے متعلق تحقیر و تضحیک والا رویہ اختیار کیا وہ دراصل جمہوریت کی تضحیک کے مترادف ہے۔ اس رویہ کا سبب گزشتہ دس برسوں کی میعاد حکومت میں پروان چڑھنے والا ان کا وہ تحکمانہ انداز ہے جو حکومتی معاملات میں حرف آخر کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس انداز کے سبب ملک کو سماجی و معاشی سطح پر کن مسائل سے دوچار ہونا پڑا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے اور صورتحال کی یہ تبدیلی ہی دراصل انھیں ناگوار گزر رہی ہے۔ اسی لئے انھوں نے اپنے خطاب میں ایک سے زائد مرتبہ اپوزیشن کا ذکر کچھ اس طرح کیا جیسے ایوان میں اس کا وجود کوئی تضحیک آمیز واقعہ ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس پارلیمانی الیکشن کے ذریعہ ان جمہوری قدروں کا احیا ہوا ہے جو اقتدار کی مطلق العنانیت کو قابو میں رکھنے کیلئے لازمی ہوتی ہیں۔ اس الیکشن میں عوام نے نہ صرف حکومت کی ناقص کارکردگی کو ٹھکرایا ہے بلکہ انڈیا اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیوں کو یہ حق بھی دیا ہے کہ وہ ان کو درپیش مسائل و معاملات کو پرزور طریقے سے اٹھا سکیں۔ ملک کے رائے دہندگان کے اس بھروسے کو قائم رکھتے ہوئے اگر راہل سمیت دیگر اپوزیشن لیڈر ان نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران کئے گئے حکومتی اقدامات کا گوشوارہ مدلل انداز میں پیش کیا تو کیا غلط کیا؟ حکومت اور وزیر اعظم کو اپوزیشن کے اس انداز پر چراغ پا ہونے کے بجائے سیاسی اخلاقیات کی پاسداری کرتے ہوئے شائستہ انداز میں اپنی بات رکھنی چاہئے تھی۔
جمہوری طرز سیاست میں تعداد کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، ایسے میں اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ گزشتہ الیکشن کے مقابلے اس الیکشن میں بی جے پی کا گراف نیچے آیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک سچائی ہے کہ زعفرانی عناصر اور حکومت پرست میڈیا کے ذریعہ مسلسل ہدف بنائے جانے کے باوجود سماجی سطح پر راہل کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان کے سیاسی منظرنامہ پر رونما ہونے والی یہ تبدیلی نہ صرف اپوزیشن کو مضبوط بنائے گی بلکہ اس تبدیلی سے عوام کو بھی یہ طاقت ملے گی کہ وہ اپنے سماجی و معاشی مسائل پر سنجیدہ توجہ دینے کیلئے حکومت کو آمادہ کر سکیں۔ اپوزیشن اور عوام کو استحکام اور حوصلہ عطا کرنے والی سیاست ہی پر جمہوریت کی کامیابی کا دارو مدار ہوتا ہے اور اگر کوئی حکومت یا اقتدار میں شامل کوئی قد آور سیاسی لیڈر ان میں سے کسی ایک کو بھی کمتر سمجھنے لگے تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ آمرانہ افکار کا حامل ہے خواہ وہ انتخابی سیاست کے ذریعہ ہی منتخب ہو کر اس مقام تک پہنچا ہو۔