• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آخر کب تک ’اردو‘ زیادتیوں کا شکار ہوتی رہے گی؟

Updated: June 30, 2024, 4:54 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

مہاراشٹر کےاُردو اسکولوں میں غیر اُردو داں ٹیچروں کی بھرتی غلطی سے نہیں ہوئی ہوگی بلکہ اُردو کو کمزور کرنے کیلئے ایسا قصداً کیا گیا ہوگا۔

In recent days, 155 such teachers who do not know Urdu have been appointed in the government Urdu schools of Maharashtra. Photo: INN
گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے سرکاری اُردو اسکولوں میں ۱۵۵؍ایسے اساتذہ کی تقرری ہوئی ہے جنہیں اردو نہیں آتی۔ تصویر : آئی این این

مہاراشٹر کے سرکاری اسکولوں میں بطور استاذ تقرری کیلئے ہونے والے اہلیتی امتحان(ٹیٹ) میں کامیاب ایسے ۱۵۵؍امیدواروں کو اردو میڈیم اسکولوں میں ملازمت دی گئی ہے جو اُردو سے نابلد ہیں۔ گزشتہ دنوں شائع ہونے والی خبر میں ارباب اختیار کے اس غیر منطقی فیصلے کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ اس خبر کے مطابق آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسو سی ایشن مہاراشٹر، نے ان تقرریوں کی مخالفت کی ہے اور مسلم اراکین اسمبلی سے ملاقات کر کے اس موضوع کو مانسون اجلاس میں زیر بحث لانے کی اپیل کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ اراکین اسمبلی اس موضوع کو ایوان میں اس طرح پیش کر سکتے ہیں کہ محکمۂ تعلیم کے ارباب حل و عقد اس غلطی کو سدھارنے پر آمادہ ہو جائیں ؟یہ معاملہ اگر چہ ریاست مہاراشٹر سے متعلق ہے لیکن اردو کے ساتھ ملک گیر سطح پر ارباب اختیار کی زیادتیاں مختلف شکلوں میں وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ ملک کی سیاست میں جب سے فسطائی عناصر کو نمایاں حیثیت حاصل ہوئی ہے تب سے اردو کے خلاف کہیں پس پردہ اور کہیں واضح طور پر ایک مہم سی چل پڑی ہے۔ اردو میڈیم اسکولوں میں غیر اردو داں افراد کی تقرری کا قضیہ بھی اسی مہم کا ایک جزو ہے۔ 
 اس وقت ملک میں جس طرز سیاست کا چلن عام ہے اس کے پیش نظر بہت وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اردو اسکولوں میں غیر اردو داں افراد کی تقرری کے خلاف آئیڈیل ٹیچرس اسوسی ایشن کی یہ مہم نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ان تقرریوں کو محکمۂ تعلیم کی غلطی سے تعبیر کرنا محض دل کو بہلانا ہے۔ یہ اقدام عمداً کیا گیا ہے تاکہ اردو کے ناتواں ہوتے جسم کو مزید نقاہت میں مبتلا کیا جا سکے۔ تعلیمی سطح پر اردو کے حالات یوں بھی بہت اطمینان بخش نہیں ہیں اور اس پر متعصب ذہنیت کے حامل ارباب اختیار کے یہ اقدام اس زبان کی صورتحال کو مزید دگرگوں بنا رہے ہیں۔ ملک کے وہ علاقے جنھیں کل تک اردو کے دبستان کی حیثیت حاصل تھی وہاں یہ زبان اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہی ہے۔ غنیمت یہ ہے کہ مہاراشٹر اور جنوبی ہند کی بعض ریاستوں میں اب بھی اردو میڈیم اسکولوں کا وجود نہ صرف باقی ہے جو نہ صرف اردو زبان کی بقا کے ضامن ہیں بلکہ ان اسکولوں سے فارغ طلبہ اکثر زندگی میں نمایاں کارکردگی بھی انجام دیتے رہے ہیں لیکن اب یہاں بھی اردو دشمن افراد نے سیندھ ماری شروع کر دی ہے جس کا ایک واضح ثبوت اردو اسکولوں میں غیر اردو داں افراد کی تقرری والا معاملہ ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: شعبہ ٔتدریس عدم مساوات کا ایک نمونہ بن گیا ہے

اردو کے ساتھ ارباب اختیار کا یہ غیر منصفانہ اور غیر منطقی رویہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ تو ملک کی آزادی اور تقسیم کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ آزادی کے بعد اس ملک میں سیکولر سیاستدانوں اور مذہبی شدت پسندی کے حامل سیاست دانوں کے درمیان ہونے والی رسہ کشی میں اردو اور مسلمان مختلف صورتوں میں پستے رہے ہیں۔ ہندوستان کی لسانی تاریخ سے نابلد سیاست داں اردو کو غیر ملکی زبان کہتے ہیں اور اس کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ یہ معاملہ صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے وہ اساتذہ جن کا شمار دانشوروں میں ہوتا ہے ان میں بھی خاصی تعداد ایسے نام نہاد دانشوروں کی ہے جو اردو کے ساتھ یہی رویہ روا رکھتے ہیں۔ اگر تمام مصلحتوں کو درکنار کرتے ہوئے اردو کی حقیقی صورتحال کو بیان کیا جائے تو یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ یہ زبان اس وقت حالت نزع میں ہے اور اگر سیاسی اور علمی سطح پر اس کے خلاف محاذ آرائی کا یہ سلسلہ برقرار رہا تو یہ زبان محض لسانی تاریخ کے اوراق میں سمٹ کر رہ جائے گی۔ 
 ان سطور کر پڑھنے والے بعض قارئین اسے منفی سوچ قرار دے سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقائق کو دانستہ طور پر نظر انداز کرکے صرف سوچ کی سطح پر مثبت انداز اختیار کرنے سے کیا کسی صورتحال میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب واضح طور پر نفی میں ہوگا۔ کسی بھی صورتحال کو تبدیل کر نے کیلئے ایسی منظم حکمت عملی اور نتیجہ خیز اقدامات درکار ہوتے ہیں جن کی بنیاد عقل و منطق پر ہو۔ کسی بھی شے سے جذباتی لگاؤ بعض اوقات اس کیلئے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ اردو کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس زبان کی کم نصیبی یہ رہی کہ اسے مسلمانوں کے ساتھ منسوب کر دیا گیا اور مسلمانوں نے نہ تو اس رابطہ کی تردید پرزور طریقے سے کی، نہ ہی رابطہ جڑ جانے کے بعد اسے محکم اور پائیدار بنانے کی سعی کی۔ یہی وجہ ہے کہ ارباب اختیار اس زبان کی تضحیک و تذلیل کرتے رہے اور ’محبان اردو‘ اردو کے عنوان سے جشن برپا کرتے رہے۔ 
 مہاراشٹر کے سرکاری اسکولوں میں تقرری کی جو روداد بیان کی گئی ہے وہ دراصل ارباب اختیار کی ایسی سازش ہے جو کئی سطحوں پر اہل اردو کیلئے نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اردو پڑھنے والے طلبہ کی تعداد میں کمی ہوگی اور دوسرا بڑا نقصان یہ کہ اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ اردو میڈیم سے حصول تعلیم میں صرف کرنے والے اساتذہ اپنے جائز حق سے محروم رہیں گے۔ یہ محرومی ان کے اندر مایوسی کو جنم دے گی جس کا براہ راست اثر اُن کی خانگی اور سماجی زندگی پر پڑے گا۔ ایسی سازشوں کے ذریعہ اپنے جائز حق سے محروم ہونے والے افراد آخر کس امید پر اپنے بچوں کو اردوپڑھائیں گے؟ محکمۂ تعلیم کے افسران اعلیٰ کے ایسے غیر منطقی اور تعصب زدہ فیصلے کم از کم تین نسلوں کو اردو سے دور کر دیں گے۔ ان حقائق کے پیش نظر صرف زبانی طور پر اردو کے بہتر مستقبل کی گردان سے کیا حاصل ہوگا، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 
 اردو کا دائرہ محدود کرنے اور اس زبان کو ایک مخصوص مذہبی شناخت عطا کرنے کی یہ مہم صرف اسکولوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ادھر کچھ برسوں کے دوران حکومتی سطح پر بھی کئی اسے اقدام کئے گئے جن کا مقصد اردو کے دائرے کو مزید تنگ بنانا ہے۔ سرکاری دستاویزات سے اردو کے الفاظ کو منہا کرنا، اردو کی تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں کو محدود کرنا، سماجی سطح پر اردو کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا دراصل اس زبان کی مقبولیت کو محدود تر بنانا ہے۔ مدھیہ پردیش اور اتر پردیش جیسی ریاستوں میں یہ اقدامات بڑی شدت اور تواتر کے ساتھ کئے جا رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ جو عناصر اردو مخالفت میں کئے جارہے ان اقدامات میں پیش پیش رہتے ہیں، ان کی بھی گفتگو اردو الفاظ کے بغیر نامکمل رہتی ہے۔ ادھر نام نہاد قسم کے محبان اردو کا یہ حال ہے کہ ان کے گھروں سے اب اس زبان کا بوریا بستر اٹھ چکا ہے۔ یہ محبان اردو ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اردو کا مرثیہ ضرور پڑھتے ہیں لیکن ان کے اندر اتنی جرأت نہیں کہ وہ اس زبان کے خلاف ہونے والی ان سازشوں کا سد باب کرنے میں کوئی فعال کردار ادا کر سکیں۔ اکثر تو یہ بھی دیکھا گیا کہ انہی محبان اردو کی وجہ سے اس زبان کو نقصان اٹھانا پڑا۔ 
 اس ضمن میں ان دو حقائق کا ذکر کافی ہوگاجن میں ایک کا تعلق حیدر آباد کی مولانا آزاد اردو یونیورسٹی سے ہے اور دوسرا معاملہ لکھنؤکی خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی کا ہے۔ ان جامعات کے قیام کا مقصد اردو زبان کو فروغ دینا تھا لیکن فی الوقت جو حالات ہیں ان میں یہ مقصد برائے نام ہی باقی رہ گیا ہے۔ اب سے کچھ دس برس قبل مولانا آزاد یونیورسٹی میں ایسے کئی اساتذہ کو تقرری دی گئی جو اُردو سے نابلد تھے جبکہ یہاں حصول ملازمت کیلئے اردو داں ہونا لازمی شرط ہے۔ اسی طرح لکھنؤ کی یونیورسٹی کے ساتھ ابتدا ہی سے ارباب اختیار کا یہی رویہ رہا جو اُن کیلئے مالی منفعت اور سماجی رسوخ کے اظہار کا وسیلہ تو بنا لیکن یونیورسٹی کے قیام کا مقصد فوت ہوگیا۔ اردو کے ساتھ نام نہاد محبان اردو اور ارباب اختیار کا یہ رویہ بالآخر اس زبان کی مقبولیت پراثر انداز ہوگا۔ اردو سےبغض و عناد رکھنے والے یہ عناصر خود بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ زبان ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی امین ہے اور اس نے ہر دور میں محبت اور یگانگت کے پیغام کو عام کیا ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی پیاری زبان کے ساتھ یہ دُہرا رویہ، چہ معنی؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK