مغربی بنگال ہائی کورٹ کی جانب سے ۲۴؍ ہزار اساتذہ کی برطرفی کو اسی روش کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے، دیکھئے سپریم کورٹ اس معاملے کو کس طرح دیکھتا ہے۔
EPAPER
Updated: April 28, 2024, 4:40 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
مغربی بنگال ہائی کورٹ کی جانب سے ۲۴؍ ہزار اساتذہ کی برطرفی کو اسی روش کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے، دیکھئے سپریم کورٹ اس معاملے کو کس طرح دیکھتا ہے۔
عوامی زندگی سے وابستہ مختلف شعبوں کو سیاسی نورا کشتی کا اکھاڑہ بنا دینے والی روش نے بدعنوانی کا دائرہ اس قدر وسیع کر دیا ہے کہ شفافیت اور غیر جانب داری کا تصور بڑی حد تک زائل ہو چکا ہے۔ اب عموماً ان شعبوں سےمتعلق پالیسیوں اور منصوبوں کی تشکیل و تعمیل میں ووٹ بینک کی سیاست کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ زندگی کے بنیادی مسائل پر غور و فکر اور ان کا تصفیہ کرنے کے عمل میں انتخابی سیاست کو جو فوقیت حاصل ہو گئی ہے، اس کے سبب ان شعبوں میں بدعنوانی کا چلن عام ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت جن شعبوں میں بدعنوانی کے سبب حالات بدتر صورت اختیار کر گئے ہیں ان میں محکمۂ تعلیم بھی شامل ہے۔ اس شعبے میں بدعنوانی کے پھلنے پھولنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے سیاسی اغراض کی تکمیل کا وسیلہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ تعلیم کا معیار روز بہ روز پست ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو بیشترسرکاری تعلیمی اداروں کو حکومت کے تشہیری پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔ اس مقصد کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی تقرری میں شفافیت اور غیر جانب داری کے بجائے اقتدار کے ذریعہ سسٹم کو اپنی خواہش کے مطابق استعمال کرنا عام بات ہو گئی ہے۔ اقتدار کے اس رویہ کا دہرا نقصان سماج پر ظاہر ہوتا ہے۔ اول یہ کہ اہل امیدوار ملازمت سے محروم رہ جاتے ہیں اور دوسرے یہ کہ جن لوگوں کو سیاسی جوڑ توڑ اور رشوت کے بل پر ملازمت مل جاتی ہے وہ اپنے فرائض منصبی کی تکمیل کے ہر مرحلے پر بدعنوانی کا سہارا لیتے ہیں جس سے شعبہ کا معیار اور کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
ان دنوں میڈیا اور عوامی سطح پر انتخابی گہما گہمی کے درمیان مغربی بنگال کے محکمۂ تعلیم سے متعلق ایسی تشویش ناک خبر سامنے آئی ہے جو یہ واضح کرتی ہے کہ اس محکمے میں بدعنوانی کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔ اس خبر کے مطابق کلکتہ ہائی کورٹ نے تقریباً ۲۴؍ ہزار ایسے لوگوں کی ملازمت کو منسوخ کرنے کا فیصلہ سنایا ہے جن کا انتخاب ۲۰۱۶ء میں مغربی بنگال اسکول سروس کمیشن پینل کے ذریعہ تدریسی اور غیر تدریسی عہدوں پر کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے ان تقرریوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ تقرری کے عمل میں ضابطوں کی خلاف ورزی کی گئی اور رشوت دینے والے امیدواروں کو منتخب کیا گیا۔ ریاست کی وزیر اعلیٰ نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ریاستی حکومت اس معاملے میں اپنی ایمانداری اور شفافیت کو ثابت کرنے میں کس حد تک کامیاب ہو گی یہ تو وقت بتائے گا لیکن کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا فوری اثر یہ ہوگا کہ تقریباً ۲۴؍ ہزار افراد کا مستقبل سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک داؤ پر لگا رہے گا۔ اگر عدالت عظمیٰ ترجیحی بنیادوں پر اس معاملے کا فیصلہ کرے توبھی پورے وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تقریباً آٹھ برس تک ملازمت کرنے والے ۲۴؍ ہزار افراد کی نوکری بحال ہوگی یا انھیں بے روزگاری کا عذاب جھیلنا پڑے گا؟ عوام کو ایسی غیر یقینی کیفیت میں مبتلا کردینے والا سسٹم سماج میں معاشی مسائل پیدا کرنے کے ساتھ ہی فرد کو نفسیاتی کرب میں مبتلا کر دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: انتخابی نتائج سے ثابت ہوگا کہ عوام جذباتی ہیں یا باشعور!
تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں کو اپنے مفاد کی خاطراستعمال کرنے والے ارباب اقتدار ترقی کے جو بھی دعوے کریں، زمینی سطح پر ان دعووں کی حقیقت مایوس کن ہی ہوتی ہے۔
محکمۂ تعلیم ملک و معاشرہ کی ترقی میں بنیادی رول ادا کرتا ہے۔ یہ محکمہ صرف روایتی تعلیم کے حصول کا ذریعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان کی دانش و شعور کی ترقی کے اسباب بھی مہیا کرتا ہے۔ فرد کو ذمہ داری شہری بنانے اور اس کی ذہنی و عملی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں شعبۂ تعلیم کی اہمیت واضح ہے لیکن ادھر کچھ برسوں سے اس شعبہ میں سیاسی جوڑ توڑ اور بدعنوانی کا چلن اس قدر عام ہو گیا ہے کہ بیشتر سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ کی کارکردگی بس اوسط درجہ کی ہوتی ہے۔ سائنس و تکنیک، اقتصادی و سماجی علوم اورزبان و ادب کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی کے حامل طلبہ ان اداروں میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ ان اداروں کی ایسی افسوس ناک صورتحال کا بڑا سبب ان اداروں میں بیجا سیاسی دخل اندازی ہے اور دوسرے یہ کہ ان میں حصول ملازمت کیلئے اہلیت سے زیادہ رشوت کا بول بالا ہوگیا ہے۔
سیاست دانوں اور انتظامیہ سے وابستہ اعلیٰ حکام نے محکمۂ تعلیم کو اپنے رسوخ کے اظہاراور مالی مفاد کا وسیلہ بنا لیا ہے۔ اس محکمے کی ابتر صورتحال کسی ایک ریاست سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ملک گیر سطح پر اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مغربی بنگال میں ۲۴؍ ہزار اساتذہ کی تقرری کو ہائی کورٹ کے ذریعہ منسوخ کرنے والے فیصلے کو صحیح یا غلط کہنے سے قبل ممتا بنرجی کی حکومت پرریاستی انتظامیہ و عدلیہ کے بعض عناصر کے ذریعہ شکنجہ کسنے کی ان کوششوں کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے جس کے سبب حکومتی پالیسیوں اور منصوبوں میں اصول و ضوابط کی مبینہ خلاف ورزی کا دعویٰ اکثر ریاست کے اعلیٰ سرکاری حکام اور عدلیہ سے وابستہ معززین کے ذریعہ کیا جاتا رہا ہے۔ بعض معاملات میں یہ اختلاف اس سطح پر بھی نظر آیا جہاں ارباب اقتدار اورسرکاری حکام کی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں نازیبا زبان بھی استعمال کی گئی۔ مرکز کا سیاسی منظرنامہ جب سے زعفرانی رنگ میں رنگ گیا ہے تب سے ممتا بنرجی کو اس طرح سے گھیرنے کی کوشش مسلسل کی جاتی رہی ہے۔
سیاسی رسہ کشی کی اس ایک امکانی صورت کی بنا پر یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کا محکمۂ تعلیم بدعنوانی سے پاک ہے۔ مختلف سطح کے سرکاری تعلیمی اداروں میں حصول ملازمت کیلئے تعلیمی اہلیت کو اب ثانوی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ اس ضمن میں رشوت اور سیاسی رسوخ کے دم پر ملازمت حاصل کرنے کا چلن عام ہو گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں تقرری کیلئے ریاستی اور مرکزی کمیشن میں اعلیٰ عہدوں پر فائز بیشترافراد اس چلن کی پیروی کو معیوب نہیں سمجھتے۔ کمیشن کے علاوہ فلاحی تنظیموں اور اداروں کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں میں بھی تقرری میں انہی حربوں کا استعمال کیا جاتا ہے جن کا امیدوار کی صلاحیت اور اہلیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس طور سے ملازمت حاصل کرنے والے افراد طلبہ کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں مددگار ثابت ہونے کے بجائے ان کے تعلیمی مراحل کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ بدعنوانی کو اگر چہ سسٹم کے لازمی جزو کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے تاہم تعلیم اور صحت کے شعبے میں تقرری کیلئے رشوت ستانی اور سیاسی جوڑ توڑ کی روش پر قدغن ضروری ہے۔ ان شعبوں کی ابتر صورتحال میں بہتری کے آثار اسی وقت پیدا ہو سکتے ہیں جبکہ ان شعبوں میں ہر سطح پر شفافیت اور ایمانداری کو ناگزیر بنایا جائے۔
مغربی بنگال میں اساتذہ کی تقرری کو منسوخ کرنے کے عدالتی فیصلے کے ضمن میں اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ۸؍ برس تک ملازمت کرنے والے افراد اچانک بے روزگاروں کی صف میں شامل ہو جائیں تو اس کا سماج پر کیا اثر ہوگا؟تقرری کیلئے طے شدہ ضوابط میں ہیر پھیر کے الزامات کو پوری طرح مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ساری تقرریاں اسی طرح سے ضابطوں کی خلاف ورزی کی بنیاد پر کی گئی تھیں ؟دوسرے یہ کہ حصول ملازمت کے اتنے برسوں بعد تقرری کے عمل کو غیر قانونی قرار دینا کس حد تک مناسب ہے؟عدلیہ کے وقار اور احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عین الیکشن کے وقت یہ فیصلہ سنانا کہیں کسی خاص سیاسی فائدے یا نقصان کے پیش نظر تو نہیں ہے؟اس کے علاوہ کیا اس سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح تعلیم اور صحت جیسے اہم عوامی شعبوں میں بدعنوانی کا چلن عام ہو گیا ہے اسی طرح کیاعدلیہ میں بھی ایسے عناصر نہیں ہیں جو اپنے عہدوں کا استعمال خاص مقاصد کے حصول کیلئے کرتے ہوں اور اس عمل میں صحیح و غلط کی تفریق کو فراموش کر دیتے ہوں ؟ ان سوالات پر غور کرنے سے مزید کئی ایسے سوالات پیدا ہوں گے جو ملک کے انتظامی امور اور عدلیہ کی تشویش ناک حقیقت سامنے لائیں گے؟ ان سب کے درمیان بنیادی سوال یہ ہے کہ سیاست اور سسٹم کے مابین بلی کا بکرا بننے والے عوام کب تک ان مسائل کا سامنا کرتے رہیں گے ؟