• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وائس چانسلروں کی بدعنوانی تعلیمی نظام کیلئے سنگین مسئلہ

Updated: May 05, 2024, 3:53 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

گزشتہ دنوں روہیل کھنڈ یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے حوالے سے بدعنوانی کا جوانکشاف ہوا ہے، اس طرح کی بدعنوانیاں اب عام ہوتی جارہی ہیں۔

Rohilkhand University Vice-Chancellor Professor KP Singh has been accused of taking bribes of around Rs 74 crore for organizing the B.Ed examination and for the appointment and promotion of teachers. Photo: INN
روہیل کھنڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کے پی سنگھ پر الزام عائد ہوا ہے کہ انھوں نے بی ایڈ کا امتحان منعقد کرانے اور اساتذہ کی تقرری اور ان کے پروموشن میں تقریباً ۷۴؍ کروڑ روپے رشوت لی تھی۔ تصویر : آئی این این

قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کی تشکیل اور اس کے نفاذ کے اعلان پر بعض مفکرین اور ماہرین تعلیم نے اس پالیسی کو ملک کے تعلیمی نظام میں ایک انقلابی قدم قرار دیا تھا۔ ان کے نزدیک یہ پالیسی ابتدائی تا اعلیٰ تعلیمی منظر نامہ میں ایسے خوشگوار نقوش ثبت کرے گی جو نہ صرف ملک کو اقتصادی اور مادی سطح پر تونگری بلکہ ہندوستانیوں میں فکر و نظر کی ایسی رفعت پیدا کریں گے جس سے دانش اور مہارت میں اضافہ ہوگا۔ اس پالیسی میں مختلف سطح کی تعلیم کی درجہ بندی میں جو جدت اختیار کی گئی ہے، اسے حق بجانب ٹھہرانے کیلئے نصاب کو اس طور سے ترتیب دیا گیا ہے جس سے طلبہ کی ذہنی اور عملی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں مدد ملے گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تعلیمی نظام چشم زدن میں ایسی مثبت تبدیلی کو انگیز کرنے کا متحمل ہے۔ اس سوال کے جواب میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف پالیسی کا مسودہ تیار کر لینے ہی سے ان اہداف کو حاصل نہیں کیا جا سکتا جن کی بنا پر حکومت اور اس کی ہمنوائی کرنے والے ماہرین اس پالیسی کو انقلابی اقدام قرار دیتے ہیں۔ اس پالیسی کے کامیاب نفاذ کیلئے یہ ناگزیر ہے کہ مختلف سطح کے تعلیمی اداروں میں تدریسی اور غیر تدریسی خدمات انجام دینے والا عملہ اس مقدس پیشے سے وابستہ ان تقاضوں کی تکمیل معیاری انداز میں کرے جن کے سبب تعلیم کو انسان کی سماجی اور تہذیبی زندگی میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ 
 سماج سے وابستہ تعلیمی تقاضوں کی معیاری اور نتیجہ خیزتکمیل اسی وقت ممکن ہے جبکہ اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ ان برائیوں سے دور رہے جن کے سبب زندگی کے دیگر شعبوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان خرابیوں میں سب سے بڑی خرابی تعلیمی نظام میں رشوت ستانی کے چلن کا عام ہو جانا ہے۔ اساتذہ، جو سماج میں مثالی کردار کے حامل ہوتے ہیں اور جن کا اولین کام فکر وعمل کی سطح پر عوام کی رہنمائی کرنا ہے، وہ اس خرابی کے جال میں اس قدر الجھتے جا رہے ہیں کہ جس کے سبب تعلیمی نظام پر آلودگی کی دبیز تہہ چڑھ گئی ہے۔ اس ضمن میں خصوصی طور سے اعلیٰ تعلیمی نظام کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ یہی سبب ہے کہ ملک کی کسی بھی یونیورسٹی یا کالج کو عالمی سطح پر ایسا امتیاز نہیں حاصل ہو پا رہا ہے جو اس کے تعلیمی معیار کو معتبر بنا سکے۔ ادھر کچھ برسوں میں ملک گیر سطح پر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی بدعنوانی کے معاملات جس تواتر سے سامنے آئے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان بدعنوان وائس چانسلروں نے تعلیمی نظام کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ 
 گزشتہ دنوں بریلی میں واقع روہیل کھنڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کے پی سنگھ کی مبینہ بدعنوانی کی خبر سامنے آئی تھی۔ اس خبر کے مطابق انھوں نے صوبائی سطح پر بی ایڈ کا امتحان منعقد کرانے اور اساتذہ کی تقرری اور ان کے پروموشن میں تقریباً ۷۴؍ کروڑ روپے رشوت لی تھی۔ کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے ذریعہ اس پیمانے پر بدعنوانی کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔ یونیورسٹی سطح پر ایسی بدعنوانی ملک گیر سطح پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے اگر صرف پانچ دس برسوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسے کئی معاملات سامنے آئیں گے جو بدعنوان وائس چانسلروں کی شرمناک کرتوت کو نمایاں کرتے ہیں۔ ۲۰۲۳ء میں بھی ایسے کئی معاملات سامنے آئے تھے جو مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی بدعنوانی سے متعلق تھے۔ ان میں پیریار یونیورسٹی اور تنگانہ یونیورسٹی کے وائس چانسلروں کی بدعنوانی کی خبر میڈیا میں بحث کا موضوع بنی تھی۔ اس کے علاوہ گھورکھپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر راجیش کمار سنگھ پر بھی بدعنوانی کا الزام لگا تھا۔ ۲۰۱۸ء میں انا یونیورسٹی اور ڈاکٹر امبیڈکر لا یونیورسٹی تمل ناڈو کے وائس چانسلروں کے خلاف بھی بدعنوانی کا کیس درج ہو اتھا اور ۲۰۲۰ء میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر یوگیش تیاگی کو بدعنوانی کے معاملے میں معطل کر دیا تھا۔ یہ کچھ مثالیں ہیں جو یہ واضح کرتی ہیں کہ یونیورسٹی کے تعلیمی اور انتظامی امور کو بہتر طریقہ سے چلانے کی ذمہ داری جس شخص کودی جاتی ہے وہ ان امور کی طرف کم اور اپنے مالی مفاد پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: محکمۂ تعلیم میں روزگار فراہمی کے نام پر بدعنوانی کا کھیل

ان ریشہ دوانیوں کا خمیازہ پورے تعلیمی نظام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ نیز یونیورسٹی کے مالی وسائل سبھی وائس چانسلر کی بدعنوانی کی زد پر ہوتے ہیں۔ اس کے سبب یونیورسٹیوں اور کالجوں کا تعلیمی ماحول و معیار دونوں متاثر ہوتےہیں۔ بدعنوان وائس چانسلر مالی مفاد کی خاطر یونیورسٹی فنڈ کا استعمال فرضی مدوں میں کرتے ہیں جبکہ یہ فنڈ طلبہ کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے مختلف وسائل کے حصول نیز ان کے اور اساتذہ کی بہبود پر خرچ ہونا چاہئے۔ 
 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے ذریعہ بدعنوانی کے بڑھتے معاملات اعلیٰ تعلیمی نظام کی اس حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں جو نہ صرف طلبہ کے مستقبل کو منفی طور پر متاثر کرتی ہے بلکہ اس کے سبب سماجی و معاشی سطح پر دیگر کئی ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو ملک کی ترقی کی راہ میں رخنہ اندازی کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وائس چانسلروں میں بدعنوانی کا یہ رجحان اس قدر عام کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ اس سوال پر غور کرتے وقت تمل ناڈو کے سابق گورنر بنواری لال پروہت کا وہ بیان مد نظر رکھنا ہوگا جس میں انھوں نے واضح طو ر پر کہا تھا کہ یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی تقرری میں رشوت کا چلن عام ہوگیا ہے۔ ریاستی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرری گورنر کے ذریعہ جبکہ سینٹرل یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تقرری کی توثیق صدر جمہوریہ کے دفتر سے ہوتی ہے۔ بنواری لال پروہت کے بیان کی رو سے یہ دونوں معزز مراکز بدعنوانی کے اس کھیل میں ملوث نظر آتے ہیں۔ 
 اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران تعلیمی نظام میں سیاسی دخل اندازی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سیاست دانوں نے تعلیمی مراکز کو اپنے سیاسی قد کے اظہار کا وسیلہ بنا لیا ہے۔ تعلیمی امور میں سیاست دانوں کی یہ دخل اندازی نہ صرف تعلیم کے معیار کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں بدعنوانی عام ہوتی جا رہی ہے۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں میں بدعنوانی کے بڑھتے رجحان کا ایک سبب رشوت ستانی کا وہ چلن ہے جس کی طرف بنواری لال پروہت نے بہت پہلے اشارہ کردیا تھا اور دوسرا سبب سیاست دانوں کی وہ بیجا دخل اندازی جو پورے تعلیمی نظام کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ 
 یونیورسٹی سطح پر جاری بدعنوانی کا یہ کھیل ہزاروں طلبہ کے تعلیمی مراحل میں پیچیدہ مسائل کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے۔ وائس چانسلروں کی رشوت ستانی کی وجہ سے اکثر طلبہ کو تعلیمی امور کی انجام دہی میں مایوسی اور محرومی ہی ہاتھ لگتی ہے۔ یونیورسٹی کے مالی وسائل کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق استعمال کرنے والے بدعنوان وائس چانسلر ایسے غیر ضروری مدوں میں اخراجات کا گوشوارہ تیار کر لیتے ہیں جن کا تعلیمی اور تدریسی امور کی بہتری سے برائے نام تعلق ہوتا ہے۔ بدعنوان وائس چانسلروں کی ایسی مذموم حرکت پر دیگر یونیورسٹی حکام اور نااہل اساتذہ خاموشی اختیار کئے رہتے ہیں۔ ایسے غیر ضروری اخراجات نہ صرف طلبہ کو درکار ان ضروری تعلیمی وسائل سے محروم کر دیتے ہیں جو اُن کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ یہ مالی خرد برد یونیورسٹی فنڈ کو بھی متاثر کرتی ہے۔ 
  اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے تعلیمی اور تدریسی امور میں اصلاح اور جدت پسندی کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وائس چانسلروں اور یونیورسٹی کے دیگر اعلیٰ حکام کی بدعنوانی پر قدغن لگائی جائے۔ اعلیٰ تعلیمی امور میں شفافیت اور دیانت داری اسی وقت ممکن ہو پائے گی جبکہ ارباب سیاست تعلیمی نظام کو اپنے سیاسی جبر میں محصور کرنے کی روش سے باز آئیں۔ طلبہ کے مستقبل کو بہتر بنانے اور اعلیٰ تعلیمی مراکز کو معتبر اور معیاری بنانے کیلئے ایسی تدابیر ناگزیر ہیں جنھیں عملی شکل دیتے وقت طلبہ کو مرکز میں رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ہی یونیورسٹیوں اور کالجوں کو سیاسی اکھاڑہ بنانے کے بجائے ان کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی دیانت دارانہ کوشش کی جائے۔ ان اقدام کے بغیر نہ تو یونیورسٹیوں کو بدعنوانی سے پاک کیا جا سکتا ہے اور نہ طلبہ کے تابناک مستقبل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK