اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناطے اس اتحاد کو بچانا کانگریس کی ذمہ داری ہے مگر علاقائی پارٹیاں بھی برابر کی ذمہ دار ہیں
EPAPER
Updated: January 19, 2025, 10:22 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناطے اس اتحاد کو بچانا کانگریس کی ذمہ داری ہے مگر علاقائی پارٹیاں بھی برابر کی ذمہ دار ہیں
لوک سبھاالیکشن سے قبل بی جےپی کو شکست سے دوچار کرنے کےمقصد سے معرض وجود میں آنے والااپوزیشن اتحاد دہلی کے اسمبلی انتخابات کے آتے آتے دم توڑتا نظر آرہاہے۔ اس کی شروعات دسمبر کے اواخر میں اس وقت ہوگئی تھی جب کانگریس لیڈر اجے ماکن نے عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال کیلئے ’’اینٹی نیشنل‘‘ کی وہ اصطلاح استعمال کی تھی جس کا استعمال بی جے پی اپنے مخالفین کیلئے کرتی ہے۔ اسی وقت ’’آپ‘‘ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ماکن کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو وہ کانگریس کو’انڈیا ‘ اتحاد سے نکال باہرکرنے کی مہم چلائے گی۔ اُس وقت یہ بات مضحکہ خیزلگ رہی تھی کہ اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی کو جو اس کی قائد بھی ہے، بھلا اتحاد سےکیسے نکالا جاسکتاہے مگر اب جو صورتحال ہےاس میں کانگریس واقعی اکیلی پڑتی نظر آرہی ہے۔
جن اتحادیوں نے ہریانہ میں کانگریس کے مدمقابل امیدوار اتارنے پر عام آدمی پارٹی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایاتھا وہ دہلی میں اس بات پر برہم ہیں کہ کانگریس نے’’آپ‘‘ کے خلاف امیدوار میدان میں اتار دیئے ہیں۔ ٹی ایم سی اور سماجوادی پارٹی نے دہلی میں اروند کیجریوال کی پارٹی کی کھلی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کااتحاد میں اس انتشارپر برہم ہونا فطری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ اتحاد صرف لوک سبھا الیکشن کیلئے تھا تو اسے تحلیل کردیا جانا چاہئے۔ شیوسینا کے سنجے راؤت نے بھی یہ کہہ کر ان کی تائید کی کہ’’عمر عبداللہ نے جو کہا ہے اس سے میں متفق ہوں۔ ہم نے لوک سبھا الیکشن ساتھ مل کر لڑا اور بہترین نتائج برآمد ہوئے۔ اب یہ ہماری اجتماعی اور کانگریس کی خصوصی ذمہ داری ہے کہ اتحاد کو متحد رکھیں۔ ‘‘ سنجے راؤت نےا س کیلئے آگے کا لائحہ عمل طے کرنے اور اتحاد کے جوش وخروش کو برقرار رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس پس منظر میں کانگریس کی جانب سے سنیچر کو دیا گیا یہ جواب خوش آئند ہےکہ ’’یہ اتحاد صرف الیکشن کیلئے نہیں تھا بلکہ نظریہ ہندوستان اور اس کی روح کےتحفظ کیلئے تھا۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کی جیت جنگوں سے امریکی شہریوں کی بیزاری کا مظہر ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود تمام پارٹیوں کے اپنے اپنے علاقائی عزائم ہیں۔ ہر علاقائی پارٹی کیلئے وہ ریاست اہم ہے جہاں اس کا دبدبہ ہے اور وہ یہ چاہے گی کہ وہاں اسے بلاشرکت غیرے اقتدار حاصل ہوجائے۔ اقتدار کی یہی چاہت، بی جے پی کو اپوزیشن کی صفوں میں دراڑ ڈالنے اور پارٹیاں تک توڑ دینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ کچھ ذرائع ’انڈیا‘اتحاد میں کانگریس کے الگ تھلگ پڑنے کی ایک وجہ’’اڈانی‘‘ کو بھی قرار دیتے ہیں جو راہل گاندھی کے نشانہ پر رہتے ہیں۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ٹی ایم سی اڈانی کے خلاف احتجاج سے کنارہ کشی کرچکی ہے۔ اس پس منظر میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ علاقائی پارٹیوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کانگریس اگر ہر ریاست سے اتحادیوں کے حق میں دستبردار ہوجائے گی تو اس کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جائےگا اور قومی کی عدم موجودگی بھی زعفرانی پارٹی کے حق میں جائے گی۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستوں کے الیکشن میں وسیع تر اتحاد کے اپنے ساتھیوں کے خلاف انتخابی مہم چلاتے وقت شائستگی اور احترام کا دامن تھامے رکھا جائے۔