گزشتہ دنوںدہلی ہائی کورٹ میںپولیس نے۲۰۲۰ء کے دہلی فسادات کیلئے شاہین باغ مظاہرہ ، عمر خالد ،شرجیل اما م اورآصف مجتبیٰ کو ذمہ دار قرار دیا جبکہ ان کا قصور اتنا ہے کہ انہوں نے حق کیلئے آوا زبلند کی،پولیس نے اصل مجرموںکو بچایا اور ایسے بچایا کہ ان کے خلاف کوئی معاملہ ہی سامنے آنے نہیں دیا
دہلی پولیس نے دہلی فسادات کی منصفانہ جانچ کے بجائے سی اے اے کے خلاف آواز بلند کرنےوالوں کو جن میں عمر خالد بھی شامل ہیں ’’وسیع ترسازش‘‘ کا ملزم بنا دیا ۔(فائل فوٹو)
’امن ، خدمت اور انصاف ‘دہلی پولیس کا نعرہ ہے، جیسا مہاراشٹر پولیس کا نعرہ ’اچھائی کا تحفظ اور برائی کا خاتمہ ‘ ہے۔ یہ نعرے پولیس کے فرائض اورذمہ داریاں طے کرتے ہیں اوران سے پولیس کو ایک مقصد حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح کے نعروں کا واضح مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہوتاکہ پولیس شہریوں کی محافظ ہے، شہری حقوق کی نگہبان ہے، جرائم کا خاتمہ اور مجرموں کو سزا دلانا اس کا ہدف ہے اور وہ اسی کی پابند ہے۔ گزشتہ بدھ کودہلی ہائی کورٹ میں دہلی فسادات ۲۰۲۰ء (جو شمالی دہلی میں ہوئے تھے)کے ملزموں شرجیل امام ، عمر خالد اور دیگرکی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران دہلی پولیس کا اپنے سلوگن کے برعکس بلکہ انتہائی برعکس رویہ سامنے آیا۔
یہ بھی پڑھئے: یوپی اور ہماچل، دومختلف حکومتوں کا ایک طرز کا حکم ؟ کس کیلئے اور کس کیخلاف؟
دہلی پولیس نے عدالت میں ان مذکورہ ملزموں کی ضمانت کی مخالفت تو کی ہی ، علاوہ ازیں سی اے اے اوراین آر سی کے خلاف ۲۰۲۰ء میں ہونے والے شاہین باغ مظاہرے (دسمبر۲۰۱۹ء سےمارچ ۲۰۲۰ء) پر سارے الزاما ت دھردئیےاورفسادات کیلئے اس احتجاج کو ہی اہم سبب قراردیاجو مکمل طورپر ایک جمہوری اورپُر امن احتجاج تھا۔ اس احتجاج میں صرف خواتین شامل تھیں ، یہ گھریلو خواتین تھیں جن میں معمر خواتین بھی شامل رہیں اوران کی شمولیت نہ صرف موضوع بحث رہی بلکہ جمہوری اور انصاف پسند حلقے میں ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ کچھ ۱۰۱؍ دنو ں تک چلنے والے اس احتجاج میں ہر روز متعدد سماجی کارکنان شرکت کرتے اور سی اے اے ، این آر سی کے ملک کے معاشرتی ڈھانچےپر پڑنے والے ا ثرات پرگفتگوکرتے اور ان کے خلاف آواز اٹھاتے۔ اس احتجاج میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جوکسی طرح تشدد کا باعث بنتا۔ اس احتجاج کے تعلق سے دہلی پولیس کا یہ تبصرہ کہ یہ دادی نانی کا احتجاج نہیں بلکہ فسادات کی سازش تھی ، عوام مخالف ، جمہوری حقوق کے منافی اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔
شاہین باغ احتجاج پر نظر رکھنے والوں بالخصوص اسکے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے میڈیا کے ایک طبقے کو یہ تو معلوم ہوگا کہ اس جمہوری اور پُرامن احتجاج کے خلاف بی جےپی نے ماحول بنانا شروع کیا تھا۔ اس کے خلاف بی جےپی لیڈر کپل مشرا نے آواز اٹھائی تھی اورخواتین کو احتجاج کی جگہ خالی کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس کے بعد سے حالات بگڑنا شروع ہوئے تھے۔ شاہین باغ مظاہرے کی جگہ پر فائرنگ بھی ہوئی تھی۔ ہتھیار اٹھایا کس نے ، اشتعال دلایا کس نے ، دھمکیاں دیں کس نے اور الزام کس کے سر آیا ؟ کون اب تک سلاخوں کے پیچھے ہے؟ دہلی پولیس نے دہلی فسادات کی کیا تحقیقات کی اور کس بنیاد پر اپنا مقدمہ عدالت میں پیش کیا؟
دہلی پولیس کے وکیل یعنی عوامی استغاثہ امیت پرساد نے عدالت کو بتایاکہ یہ احتجاج مصنوعی تھا اورعوام میں مقبول بنانے کیلئے اسے ’دادی نانی‘ کے احتجاج کا نام دیا تھا، حالانکہ اسکے پیچھےگہری سازش تھی۔ انہوں نے شرجیل امام اور آصف مجتبیٰ کو اس احتجاج کا ماسٹر مائنڈ قراردیا تھا۔ انہوں نے عمر خالد پر بھی الزامات لگائے تھے کہ فسادات کے دوران ان کا دہلی میں نہ ہونا بھی ایک ٹھوس منصوبہ تھا تاکہ وہ پھنس نہ جائیں اور سی اے اے کے خلاف تحریک کیلئے جووہاٹس ایپ گروپ بنایا گیاتھا، اس سے سب جڑے ہوئے تھے۔ جسٹس نوین چاؤلہ اور شالندرکورکی بینچ نے بہر حال پولیس سے یہ سوال ضرو ر کیا کہ کیا صرف احتجاج اوراحتجاج کی جگہ کی بنیاد پر ملزموں کے خلاف یو اے پی اے کا اطلاق کیاجاسکتا ہے یا اس بنیادپر یو اے پی اے کا اطلاق ہوتا ہےکہ احتجاج کیلئے جس جگہ کا انتخاب کیاگیا وہ جگہ تشدد کا سبب بنی ؟ عمر خالد اوران کے والد پرتو دہلی پولیس نے یہ بھی الزام عائدکردیا کہ فسادات کروانے کیلئے وہ بنگلہ دیش سے دراندازوں کولےکر آئےتھے۔
امیت پرساد نے فسادات کے پیچھے مبینہ سازش کے ثبوت میں مختلف گواہوں کے بیانات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ایک گواہ کے بیان کے مطابق عمر خالد کو جہانگیرپوری سے جنتر منتر تک لوگوں کی ضرورت تھی جنہیں شاہین باغ لے جایا گیا اور خواتین کو پتھراؤ کیلئے استعمال کیا گیا!!
اس معاملے میں دہلی پولیس نےدہلی کے جہانگیرپوری میں ۲۰۲۲ء کے فسادات کے کچھ معاملات پیش کئے اوران میں بھی عمر خالدکو پتھراؤ اورتشدد کا ملزم قراردیا۔ حالانکہ ، نیوز ۱۸؍ کی ایک رپورٹ کے مطابق ، خود دہلی پولیس نےکہا کہ عمر خالد کے خلاف جوپی ڈی ایف کی شکل میں اس کے پاس ثبوت ہے، اس کا ایک نمایاں حصہ سیاہ ہوگیاہےجسے ہائی لائٹ کیا جانا تھا، اس پر جسٹس نوین چاؤلہ نےمسکرا کر سوال کیا کہ کیا اس کے پیچھے بھی کوئی سازش ہے؟واضح رہےکہ دہلی پولیس دہلی فسادات ۲۰۲۰ء اورجہانگیر پوری تشدد ۲۰۲۲ء کوایک ہی سلسلے کی کڑی بتاتی ہےاوراس کی تحقیقات اسی رخ پرہے۔
۱۶؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو یہ تشدد ہنومان جینتی کے جلوس کی وجہ سے پھوٹ پڑا تھا جس میں شر پسندوں نےایک مسجد کے قریب رک کراشتعال انگیزی تھی۔ اس تشدد میں ایک پولیس افسر کی بھی موت ہوئی تھی جبکہ دہلی فسادات میں ۵۰؍ سے زائد افراد مارے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
تشدد کے ان دونوں معاملات میں دہلی پولیس نے جو مرکز کے تحت ہے ، عمر خالد ، شرجیل امام ، میران حیدر ، آصف اقبال تنہا اور دیگرکئی اسٹوڈنٹس اورسماجی کارکنان کوملزم بنایا ہے۔ یہ کچھ اہم نام اور چہرے ہیں جن کے خلاف دہلی پولیس نے اشتعال انگیزی کا الزام لگایا ہے جبکہ بی جےپی کے کئی لیڈران جنہوں نے شاہین باغ احتجاج کے دوران حقیقی اشتعال انگیزی کی تھی ، ان پر کوئی گرفت نہیں ہے ، وہ سب آزاد گھوم رہے ہیں۔ تشدد کے ان معاملا ت میں گزشتہ دنوں کئی ملزمین بری بھی ہوئے ہیں ۔ دہلی فسادات میں ۲؍ ہزارسے زائد جبکہ جہانگیر پوری تشدد کے معاملے میں کم وبیش ۳۰؍ افرادکو گرفتار کیاگیاتھا۔ زیادہ تر ملزمین جنہیں گرفتار کیاگیا ہے، مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا اپنا گزربسر مشکل سے ہوتا ہے۔ یہ کسی کے خلاف کیا سازش کریں گے، یہ روزی روٹی کیلئےروز جدوجہد کریں گے یا پیٹرول بم سے حملہ کریں گے ؟
عمر خالد پر تشدد اور پتھراؤ کا الزا م ہےکہ جبکہ سوال یہ ہےکہ پتھراؤ اور حملے کے واقعات شاہین باغ مظاہرہ کی جگہ کے قریب ہوئے تھےیعنی ان کے ذریعے شاہین باغ کی خواتین کو نشانہ بنایا جارہا تھا ؟کیا احتجاج منعقد کرنے والے اپنے ہی مظاہرین پر پتھراؤ کروائیں گے، فائرنگ کروائیں گے ؟ دہلی پولیس اور پبلک پروسکیوٹر امیت پرساد کیا یہ واضح نکتہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ شاہین باغ احتجاج کس کے خلاف تھا اور اسکےخلاف کون تشدد کا راستہ اختیارکرسکتا تھا ؟دہلی پولیس نے فسادکے اصل مجرموں کو بچایا ہے اور ایسے بچایا کہ ان کے خلاف کوئی معاملہ ہی سامنے نہیں آسکا نیزمجرم وہ بنا دئیے گئے جو صرف اپنے حقوق کیلئے آوا ز اٹھا رہے تھے !!جنہوں نے ہتھیاراٹھایا، تشددبرپا کیا، ان کاکہیں نام تک نہیں ہے اور سلاخوں کے پیچھے وہ ہیں جن کا اقدام صرف اظہار رائے تک تھا!