• Thu, 14 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کیا کانگریس پارٹی کا انتخابی منشور مسلم لیگ کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے؟

Updated: April 21, 2024, 2:57 PM IST | Ram Puniyani | Mumbai

گزشتہ دنوں انڈین نیشنل کانگریس نے۲۰۲۴ء کے عام انتخابات کیلئے اپنا انتخابی منشور جاری کیا۔ پارٹی نے اسے’نیائے پتر‘ کا نام دیا ہے۔

Congress has named its election manifesto as `Nayya Patra` and this is what BJP does not like. Photo: INN
کانگریس نے اپنے انتخابی منشور کو ’نیائے پتر‘ کا نام دیا ہے اور یہی بات بی جے پی کو پسند نہیں ہے۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ دنوں انڈین نیشنل کانگریس نے۲۰۲۴ء کے عام انتخابات کیلئے اپنا انتخابی منشور جاری کیا۔ پارٹی نے اسے’نیائے پتر‘ کا نام دیا ہے۔ اس میں ذات پات کی مردم شماری، ریزرویشن پر۵۰؍ فیصد کی بالائی حد کو ہٹانے، نوجوانوں کیلئے روزگار، انٹرن شپ کا انتظام اور غریبوں کیلئے مالی مدد وغیرہ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ منشور کا فوکس خواتین، قبائلیوں، دلتوں، او بی سی، کسانوں، نوجوانوں اور طلبہ کیلئے انصاف پر ہے۔ کانگریس کے ایک ترجمان نے کہا کہ منشور میں بی جے پی کے گزشتہ۱۰؍ سال کے دور حکومت میں سماج کے مختلف طبقات کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ 
 اس منشور کی مذمت کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ یہ منشور (آزادی سے قبل) مسلم لیگ کی خلل انگیز سیاست کا نقش ہے اور بائیں بازو کے نظریات سے متاثر ہے۔ یہ سن کر ہندوستانی قوم پرست نظریہ کے بانی اور آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک ایم ایس گولوالکر کا یاد آنا فطری ہے، جنہوں نے اپنی کتاب ’بنچ آف تھاٹس‘ میں کہا ہے کہ ہندو قوم کیلئے تین اندرونی خطرات ہیں ’ مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ‘۔ بی جے پی ان میں سے دو پر وقتاً فوقتاً مختلف سطحوں پر بحث کرتی رہی ہے اور اب بھی ان پر بحث کر رہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: نئی تعلیمی پالیسی اوراس کے سماجی اہداف

فرقہ پرستی بی جے پی کا اصل ہتھیار ہے۔ ۱۹۳۷ء کے ریاستی قانون ساز انتخابات کیلئے مسلم لیگ کے منشور اور انتخابی پروگرام میں مسلم شناخت سے متعلق مطالبات تھے اور معاشرے کے کمزور طبقات کی فلاح و بہبود کیلئے مثبت اقدامات کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ بی جے پی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے بالکل ٹھیک ہی کہا کہ بی جے پی اور مسلم لیگ کے آباؤ اجداد ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ مذہبی قوم پرست گروہوں – مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس – میں بہت سی مماثلتیں بھی ہیں۔ یہ تینوں ہی تنظیمیں نوآبادیاتی ہندوستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے جواب میں سماج کے زوال پذیر طبقات نے بنائی تھیں۔ برٹش انڈیا میں صنعت کاری، جدید تعلیم کے پھیلاؤ اور عدلیہ کے قیام اور نئے انتظامی نظام کے ساتھ ساتھ مواصلات کے ذرائع کی ترقی کی وجہ سے بہت سے نئے طبقے ابھرے جن میں محنت کش طبقہ، جدید تعلیم یافتہ طبقہ اور جدید صنعت کار کے نام اہم ہیں۔ ان کی وجہ سے پرانے حکمران طبقے کے جاگیرداروں اور بادشاہوں اور نوابوں کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کا سماجی، سیاسی، معاشی غلبہ ختم ہو جائے گا۔ 
 نارائن میگھا جی لوکھنڈے، کامریڈ سنگاراویلو اور ابھرتے ہوئے طبقوں کے بہت سے دوسرے لوگوں نے مزدوروں کو متحد کیا۔ انڈین نیشنل کانگریس اور بہت سی دوسری پارٹیاں ان طبقات کے سیاسی اظہار کی علامت بن کر ابھریں۔ آزادی، مساوات اور بھائی چارہ ان جماعتوں کی بنیادی اقدار تھیں۔ جاگیرداروں اور بادشاہوں کے زوال پذیر طبقات نے یونائیٹڈ پیٹریاٹک اسوسی ایشن قائم کی جو انگریزوں کی وفادار تھی۔ یہ طبقات ذات پات اور صنفی امتیاز پر پورا یقین رکھتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تنظیم بکھر گئی اور اس سے ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ اور۱۹۱۵ء میں ہندو مہاسبھا ابھری۔ ساورکر نے اپنی کتاب’ اے سین شیئل آف ہندوتوا‘ میں کہا کہ ہندوستان میں دو قومیں ہیں ایک ہندو قوم اور ایک مسلم قوم۔ اس سے متاثر ہو کر جب۱۹۲۵ء میں تشکیل پانے والی آر ایس ایس نے ہندو راشٹرا کا ایجنڈا اپنایا تو لندن میں پڑھنے والے کچھ مسلم لیگی حامیوں نے لفظ’پاکستان‘ تیار کیا۔ ان دونوں دھاروں کے حامی بالترتیب ہندو بادشاہوں اور مسلم بادشاہوں نوابوں کے دور کو ملکی تاریخ کا سنہری اور عظیم دور سمجھتے تھے۔ ان دونوں نے تحریک آزادی کے دوران انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنے دشمنوں (ہندو یا مسلمانوں ) سے نمٹنا چاہتے تھے۔ ہندو قوم پرستی کے اہم ستون ساورکر نے احمد آباد میں ہندو مہاسبھا کے۱۹؍ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آج کے ہندوستان کو ایک متحد اور یکساں قوم نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس کے برعکس، یہاں دو اہم قومیں ہیں ہندو اور مسلمان۔ ‘‘دو قومی نظریہ کی بنیاد پر جناح نے۱۹۴۰ء میں لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں ایک الگ مسلم قوم کا مطالبہ کیا تھا۔ 
 آر ایس ایس کے غیر سرکاری ترجمان ’آرگنائزر‘ نے لکھا تھا کہ ’’...ہندوستان میں ہندو واحد قوم ہے اور ہمارا قومی ڈھانچہ اسی مضبوط بنیادوں پر استوار ہونا چاہئے... یہ قوم ہندوؤں، ہندو روایات، ثقافت، نظریات اور عزائم پر مبنی ہونا چاہئے۔ ‘‘مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا نے۱۹۳۹ء میں بنگال، سندھ اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں مشترکہ حکومتیں بنائیں۔ سندھ میں جب مسلم لیگ نے پاکستان کے قیام کی حمایت میں مقننہ میں قرارداد پاس کی تو ہندو مہاسبھا کے اراکین خاموش رہے۔ 
 سبھاش چندر بوس نے جرمنی سے نشر ہونے والے اپنے بیان میں مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا دونوں سے برطانوی حکومت کے خلاف تحریک میں شامل ہونے کی اپیل کی۔ وہ اور آر ایس ایس دونوں ۱۹۴۲ء کی ہندوستان چھوڑو تحریک سے دور رہے۔ ساورکر نے انگلستان کو دوسری عالمی جنگ جیتنے میں مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہر گاؤں اور ہر شہر میں ہندو مہاسبھا کی شاخیں ہندوؤں کو (برطانوی) فوج، بحریہ اور فضائیہ اور فوجی سازوسامان بنانے والی فیکٹریوں میں شمولیت کیلئے فعال طور پر ترغیب دیں۔ ‘‘ جس وقت سبھاش بوس کی آزاد ہند فوج برطانوی فوج سے لڑ رہی تھی، ساورکر برطانوی فوج کی مدد کر رہے تھے۔ 
 اس طرح کے اور بھی بہت سارے واقعات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہندوتواوادی آر ایس ایس اور مسلم لیگ کے خیالات آپس میں ملتے جلتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پسماندہ لوگوں کی فلاح و بہبود کی باتیں بی جے پی آر ایس ایس کو قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کے ہندو راشٹر ایجنڈے کے خلاف ہیں۔ پاکستان کی مسلم قوم میں محروم طبقات کا کیا حال ہے، یہ ہم سب کے سامنے ہے۔ دراصل کانگریس کے منشور پر مودی کی تنقید ان کے نظریاتی آباؤ اجداد کی سوچ کے مطابق ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK