• Thu, 14 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نئی تعلیمی پالیسی اوراس کے سماجی اہداف

Updated: April 21, 2024, 2:57 PM IST | Tauseef Parvez Muhammad Muzaffar | Mumbai

ملک میں نافذ کی جانے والی نئی قومی تعلیمی پالیسی ایک عوامی تعلیمی نظام کا تصور پیش کرتی ہے جس میں لوگوں کی انفرادی و اجتماعی شمولیت ہو۔

The idea behind the new education policy is actually to bridge the gap between society and education. Photo: INN
نئی تعلیمی پالیسی کے پیچھے دراصل معاشرے اور تعلیم کے درمیان موجودفاصلے کو ختم کرنے کا نظریہ کار فرما ہے۔ تصویر : آئی این این

انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تعلیم کا کردار بہت اہم ہے۔ جغرافیائی اور قومی فرق کے باوجود اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے ہمارے پیارے وطن میں بھی تعلیم کی یہ روایت ہزار ہا سال سے رواں دواں ہے جو ایک مضبوط تعلیمی نظام کا ثبوت ہے۔ ہمارے ملک میں اساتذہ قابل احترام اسلئے ہیں کہ وہ صرف پڑھا تے نہیں ہیں بلکہ وہ قوم کی تعمیر اور تشکیل میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے اثرات انسان کی پیشہ وارانہ زندگی سے روزمرہ کے اعمال، اخلاقیات اور کردار تک نمایاں ہیں۔ 
 انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہونے کے بعد ہمارے ملک کو کئی چیلنجوں کا سامنا تھا جس میں تعلیم ایک اہم شعبہ تھا۔ آزادی کے بعد ہندوستانی حکومت نے ایک مضبوط تعلیمی نظام قائم کیا۔ یہ نظام مختلف علاقوں میں تعلیمی مواقع فراہم کرتا رہا۔ معیاری تعلیم کی فراہمی کیلئے منصوبہ بندی کا آغاز کیا گیا جس کے نتیجے میں بہت سے شہری مستفیض ہوئے۔ آزادی اور تقسیم کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر تبدیلی ہوئی جس کی بنا پر ہندوستانی آبادی کی خصوصیت اور کیفیت میں تبدیلی آئی۔ انگریزی دور حکومت میں شرح خواندگی بہت کم تھی۔ صرف۲۱؍ فیصد ہندوستانی تعلیم یافتہ تھے۔ ایسے میں معمارانِ ملک کے سامنے دیگر شعبوں کے ساتھ شعبہ تعلیم کو بہتر بنانے کا اہم مسئلہ در پیش تھا جس کیلئے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے غیر معمولی اور اہم کوششیں کیں۔ ان کی سر براہی میں اہم تعلیمی منصوبوں پر کام ہوا جو بہت کارگر ثابت ہوئے۔ متعدد اہم ادارے قائم کئے گئے۔ اس کے بعد کوٹھاری کمیشن کی سفارشات اور رپورٹ کے نتیجے میں ۱۹۶۸ء میں پہلی بار تعلیمی پالیسی تیار کی گئی جبکہ دوسری ۱۹۸۶ء میں منظر عام پر آئی اور ۱۹۹۲ء میں اسے مزید بہتر بنایا گیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ملک کے تمام بچوں کیلئے تعلیم کی حصولیابی کو آسان بنایا جائے اور مختلف معاشرتی طبقات کے درمیان خصوصاً تعلیم حاصل کرنے کے حق کی برابری اور مساوات کو یقینی بنایا جائے اور تعلیم اور تدریس کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے اور بلا تفریق تمام علاقوں تک نظام کا قیام اور نگراں ڈھانچے کی جورسائی کو ممکن بنایا جا سکے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اپوزیشن کے خلاف بی جےپی کے حربے اور اقدامات اس کے خوف کی علامت ہیں

رفته رفته به تبدیلیاں جاری رہیں اور ساتھ ہی مختلف مسائل بھی سامنے آتے رہے۔ پھر صورت حال ایسی ہو گئی کہ تعلیم کو اعلیٰ طبقہ اور عہدوں تک محدود کیا جانے لگا۔ اس کو براہ راست روزگار سے بھی جوڑا گیا۔ تعلیم کا مقصد یہ نہیں رہا کہ معلومات حاصل کی جائے بلکہ ان معلومات کو عملی طور پر استعمال کیا جانے لگا جس سے تعلیم کی اہمیت کم ہونے لگی۔ حالانکہ علم اور تعلیم کا سماج سے ایک گہرا ارتباط ہے۔ چوں کہ طلبہ کا تعلق سماج سے ہوتا ہے، چاہے وہ ابتدائی سطح کے طلبہ ہوں یا اعلیٰ سطح کے۔ تعلیمی پالیسی کے تمام پہلو ہمیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ان کے پس منظر میں معاشرتی انصاف اور مثبت تبدیلی کا مقصد کار فرما ہے اور تدریس اسے حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ 
  نئی قومی تعلیمی پالیسی میں سماجی کردار کو واضح اور ضمنی دونوں طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ ان میں جو واضح ہیں ان میں مدارس کو شعبہ تعلیم کے دائرے میں لانا مختلف سطح کی مہارتوں کو تعلیم سے مربوط کرنا اور کثیر شعبہ جاتی بنانا، تجربات کے ذریعے سیکھنے پر توجہ مرکوز کرنا، خود مختاری کی فضا پیدا کرنا، نتیجہ خیر تحقیق پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تعلیم کے مرکزی موضوع سے مقامی مہارتوں کو مربوط کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ 
 نئی قومی تعلیمی پالیسی ایک عوامی تعلیمی نظام کا تصور پیش کرتی ہے جس میں لوگوں کی انفرادی و اجتماعی شمولیت ہو۔ سماج تعلیمی نظام کا ایک حصہ ہے انہیں ایک دوسرے سے جڑا ہونا چاہئے۔ اساتذہ، اسکول کے پروگراموں میں والدین کو مدعو کر یں۔ گزشتہ برسوں میں دیہاتوں میں ماں اور بچہ کی خوراک پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ اس کا مقصد تعلیم کے ساتھ والدین کے ربط میں مدد کرنے اور ضروری غذائیت اور صحت کی دیکھ بھال کے ساتھ معاشرے کو ابتدائی تعلیم کے لائق بنانا ہے۔ 
 گروہی اسکولوں کا نظریہ، اسکولوں کے معیار سیکھنے کے عمل کو بڑھاوا دینے میں معاشرے کے کردار کو سامنے لاتا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کی تجاویز کے مطابق ایک اسکول، پڑوسی اسکولوں کے ساتھ ایک گروپ بنائے گا۔ اس سے مختلف اسکولوں کے اساتذہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور وسائل کی مناسب تقسیم کے علاوہ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اسکول احاطے کے آس پاس مختلف سماجی طبقات موجود ہوں گے جو گروہی اسکول کے نظم و نسق میں معاون ہو سکتے ہیں۔ اس میں غیر سرکاری سماجی انجمنوں کی اسکول کی ترقی میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کیوں کہ اسکولوں کے نظم و نسق اور ترقی میں سماجی حصہ داری والے اسکولوں میں مفید نتائج سامنے آتے ہیں۔ نئی تعلیمی پالیسی کا ایک اہم مشورہ اعلیٰ تعلیم کو وسیع اور پیشہ ورانہ بنانا ہے۔ جامعات اور کالجوں کو اعلیٰ تعلیم کے مختلف شعبہ جاتی اداروں کی حیثیت اختیار کرنا ہوگی جہاں گریجویٹ پروگرام، معیاری تعلیم تحقیق اور سماجی شمولیت کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ مختلف شعبہ جاتی کورسیس کو مختلف نظریات کے ساتھ ماحولیاتی اور تخلیقی نصابوں کے ساتھ سماجی ضروریات کے مطابق تنوع پذیر بنانا ہے۔ اس ضمن میں اقدار پر مبنی سماجی سروس کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف کورسیز تجویز کئے گئے ہیں اور موسمی تغیرات، آلودگی، صفائی، حیاتیاتی تنوع کا تحفظ، حیاتیاتی وسائل، جنگلات اور جنگلی جانداروں کا تحفظ، پائیدار ترقی اور زندگی کے شعبوں سے متعلق مختلف پروجیکٹ تجویز کئے گئے ہیں۔ اقدار پر مبنی تعلیم میں انسانی، اخلاقی، آئینی اور عالم گیر انسانی اقدار کے ساتھ زندگی کی مہارتوں کا فروغ، مثلاً خدمت کے متعلق اسباق سماجی خدمات کے پروگراموں میں شرکت بھی شامل ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: کانگریس کا انتخابی منشور اور اسے نیا رنگ دینے کی بی جے پی کی کوشش

طلبہ کو مقامی صنعتوں، تجارت، فنون، دستکاری کے ماہرین کے ساتھ انٹرن شپ کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ اساتذہ اور محققین کے ساتھ یا دیگر عالمی تعلیمی اداروں کے تحقیقی انٹرن شپ کے مواقع فراہم کئے جائیں گے تاکہ طلبہ، کھیلوں، ماحولیاتی کلبوں اور سماجی خدمات کے پروجیکٹس کے ذریعے سیکھ کر بہتر عملی کار کردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ نئی تعلیمی پالیسی سیکھنے والوں کو عالمی شہری بننے کیلئے آمادہ کرتی ہے تا کہ طلبہ عالمی مسائل سے آگاہ اور مستعد رہ سکیں اور زیادہ محفوظ، جامع، روادار، پائیدار سماج کے فروغ میں فعال کردار ادا کر سکیں۔ اس پالیسی کی تجاویز کو لاگو کرنے کی کوشش کے ضمن میں حکومت اور متعلقہ ادارے قومی سطح پر اور متعلقہ صوبائی سطح پر رہنمایانہ خطوط کی تیاری میں مصروف ہیں۔ یوجی سی نے خاص طور پر عالمی سطح پر انسانی شمولیت کو بڑھانے کیلئے قومی رہنما خطوط ۲۰۲۰ء بھی تیار کئے گئے ہیں جس کے تحت طلبہ کو دیہی طبقات سے مربوط کرنے کیلئے کورسیز اور نصاب تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزارت تعلیم نے مہاتما گاندھی نیشنل کونسل آف رولر ایجوکیشن کو نجی طور پر ذمہ داری دی ہے اور سماج کی حصہ داری کو فروغ دینے کے عنوان سے بڑے پیمانے پر اوپن آن لائن کرسیز تیار کرنے اور چلانے کا کام بھی سونپا ہے۔ 
 سماجی حصہ داری کی معنویت اور افادیت، انتظامیہ تعلیم تحقیق اور اجارہ داری ترقی میں سماج کو شامل کرنے جیسے تعلیمی اداروں کی ترجیحات پر منحصر ہے۔ اس پالیسی نے اداروں کیلئے معاشرے کا لازمی حصہ بننے، وسائل حاصل کرنے اور پورے سماج کو تعلیم یافتہ بنانے کی راہ ہموار کی ہے۔ تعلیمی پالیسی کے بارے میں پوری وضاحت کرتی ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو سماج کی بہتر حصہ داری کیلئے کیا کرنا چاہئے اور یہ ضروری کیوں ہے؟ اب یہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پالیسی کی طرف سے متعین کردہ ہدایات کےمطابق آگے بڑھیں۔ 
 اداروں کے پاس سماجی حصہ داری کو یقینی بنانے کیلئے تین متبادل ہیں۔ پہلا حکومت کی طرف سے ہدایات حاصل کرنا اور ان کے مطابق عمل درآمد کرنا۔ دوم رہنمائی کی سمت میں کام کرنے کیلئے ٹیم ترتیب دے کر منصوبے بنانا اور سماج کے نمائندہ شہریوں کو شامل کر کے حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کی ہدایات کے ساتھ یا ان کے بغیر ان پر عمل درآمد کرنا۔ سوم تعلیمی پالیسی سے آگے سوچتے ہوئے سماج کو تعلیمی اداروں سے قریب لانے کیلئے نت نئے طریقے دریافت کرنا۔ تعلیمی ادارے معاشرے کے اندر باہمی تعلقات پیدا کر سکتے ہیں، اسلئے اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر اداروں کو متعلقہ افراد کے درمیان یہ احساس دلانا ہو گا کہ وہ معاشرے سے جڑےر ہیں۔ اسی طرح معاشرے کو ان اداروں کے قریب لانا ہوگا تا کہ ان کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ نئی تعلیمی پالیسی تعلیم کے ذریعے سماجی روابط کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ حکومتی اداروں، این جی اوز اور دیگر تنظیموں کا کرداران اہداف کو حاصل کرنے، ایک مناسب ماحول فراہم کرنے اور افراد کے درمیان رابطہ قائم کرنے میں اہم ہے۔ یہ پالیسی سیکھنے کے عمل کے منطقی نتائج پر بھی توجہ مرکوز کرتی ہے، جو صرف معلومات اکٹھی کرنا نہیں ہے بلکہ معاشرتی ماحول کو علمی اور فکری بنا کر تخیل اور نظریے کے عملی اطلاق کو ممکن بنائے اور معاشرتی ضروریات میں اس کے استعمال کو آسان کرے۔ 
  نئی تعلیمی پالیسی کے پیچھے دراصل معاشرے اور تعلیم کے درمیان پائے جانے والے فاصلے کو ختم کرنے کا نظریہ کار فرما ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ تعلیم کو سماج کا اس طرح حصہ بنایا جائے کہ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہو جائیں اور اس کیلئے ضروری یہ ہے کہ سماج تعلیمی اداروں کی سرگرمیوں میں براہ راست حصہ لے اور تعلیمی ادارے مختلف سطحوں پر سماج کو خود سے جوڑے رکھنے کی کوشش کریں۔ یہ تعلیم کی افادیت کیلئے بھی ضروری ہے اور سماجی ترقی میں بھی اس کا خاصہ اہم کردار ہے۔ 
 مضمون نگارڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مرا ٹھواڑا یونیورسٹی، اورنگ آباد کے شعبہ تعلیم کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK