دو سال قبل۹؍نومبر۲۰۲۲ء کو جسٹس ڈی وائی چندر چڈ نےجب چیف جسٹس آف انڈیا کا عہدہ سنبھالا تھا، تو ملک کے بہت سارے لوگوںکی طرح ہم نے بھی ان سے بہت ساری توقعات وابستہ کرلی تھیں۔
EPAPER
Updated: November 10, 2024, 12:54 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
دو سال قبل۹؍نومبر۲۰۲۲ء کو جسٹس ڈی وائی چندر چڈ نےجب چیف جسٹس آف انڈیا کا عہدہ سنبھالا تھا، تو ملک کے بہت سارے لوگوںکی طرح ہم نے بھی ان سے بہت ساری توقعات وابستہ کرلی تھیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ’سی جے آئی‘ کے عہدے سے رنجن گوگوئی کے رخصت ہونے کے بعد ہی سے اُس دن کا انتظار کیا جانے لگا تھا کہ چندر چڈ کب اس عہدے کو رونق بخشیں اور کب ملک میں انصاف کا بول بالا شروع ہو...لیکن افسوس کہ نہ صرف وہ ان توقعات پر پورے نہیں اُترے بلکہ بیشتر معاملات میں انہوں نے ملک کو مایوس کیا۔ اس دوران ان کے اکثر فیصلے متنازع، آدھے ادھورے اور مبہم بھی رہے۔ان کے آخری دنوں میں جس طرح سے ان کے کچھ بیانات سامنے آئے ہیں،اس سے لگتا ہے کہ انہیں خود بھی اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ ملک کیلئے وہ جتنا کچھ کرسکتے تھے، انہوں نے نہیںکیا۔ ملاحظہ کریں ان کے کچھ بیانات:
میں نے انتہائی لگن کے ساتھ ملک کی خدمت کی لیکن میں فکر مند ہوں کہ تاریخ مجھے کیسے یاد رکھے گی؟
عدالت کا کام اپوزیشن کا کردارادا کرنا نہیں ہوتا ہے۔
میں نے ’اے‘ ارنب گوسوامی سے ’زیڈ‘ زبیر تک (اے ٹو زیڈ لوگوں) کو ضمانت دی، یہی میرا فلسفہ ہے۔
میں شاید پورے نظام میں سب سے زیادہ ٹرول کئے جانے والے افراد اور ججوں میں سے ایک ہوں۔
مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہے: میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں (بشیر بدر )
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں اس طرح کے بیانات کی ضرورت کیوں پڑرہی ہے؟ آخر وہ کون سی بات ہے جس کی وجہ سے انہیں یہ کہنا پڑرہا ہے کہ انہوں نے انتہائی لگن سے ملک کی خدمت کی لیکن فکر مند ہوں کہ تاریخ مجھے کس طرح یاد رکھے گی؟انہیں ایساکیوں لگ رہا ہے کہ وہ سب سے زیادہ ٹرول کئے جارہے ہیں؟ انہیں ایسا کیوں محسوس ہوا کہ ان سے اپوزیشن کے کردار کی امید کی جارہی تھی؟ کیا بطور سی جے آئی انہوں نے کسی موقع پر حکومت کی طرفداری کی؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بہت سارے لوگوں کو ان کی عدالت نے ضمانت نہیں دی،انہوں نے اے ٹو زیڈ کی بات کیوں کی؟ اور اس میں خصوصی طور پر ارنب گوسوامی اور محمد زبیرہی کا نام کیوں لیا؟اس کیلئے ضروری ہے کہ سرسری طورپر ہی سہی اُن کے کچھ فیصلوں کا جائزہ لے لیا جائے۔
یہ بھی پڑھئے: چندرچڈ کے بیان سے معلوم ہوا کہ بابری مسجد سے متعلق فیصلہ بھگوان نے لکھوایا تھا
بابری مسجد کا فیصلہ
ان کا سب سے متنازع فیصلہ بابری مسجد سے متعلق ہی رہا۔ سپریم کورٹ کے سامنے بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کا فیصلہ کرنے کا معاملہ تھا لیکن ملکیت پر فیصلہ دینے کے بجائے کچھ اور فیصلہ دیا گیا۔سپریم کورٹ نے اس بات کا خود اعتراف کیا کہ مسجد اسی زمین پر صدیوں سے کھڑی تھی اور وہاں ۴۰۰؍ سال سےزائد عرصے سے نماز پڑھی جا رہی تھی۔ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ کسی مندر کو گرا کر وہاں مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ فیصلہ سناتے وقت عدالت نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ۱۹۴۹ء میں مسجد کے اندر مورتیوں کو رات کے اندھیرے میں خفیہ طور پر رکھا گیا تھا اوراس طرح وہاں رکھنا جرم تھا۔ ان تمام شواہد کا اعتراف کرنے کے باوجود بابری مسجد کو رام مندر بنا دیا گیا۔اور اب اپنی سبکدوشی کے آخری ایام میں انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کرلیا کہ اس طرح کا فیصلہ کرنے کیلئے انہوں نے قانون سے نہیں ’بھگوان‘ سے مدد لی تھی۔
ای ڈی سربراہ کا معاملہ
۱۱؍ جولائی ۲۰۲۳ء کو سپریم کورٹ نے اُس وقت کے ای ڈی سربراہ سنجے کمار مشرا کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیا تھا ۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ تقرری کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد بھی انہیں ہٹایا نہیں گیا بلکہ اس کیلئے حکومت کو موقع دیا گیا اور اُس غیر قانونی ای ڈی سربراہ کے تمام فیصلوں کو قانونی بھی تسلیم کیا گیا۔
چیف الیکشن کمشنر کی تقرری
۲؍ مارچ ۲۰۲۳ء کوسپریم کورٹ نے کہا تھاکہ الیکشن کمشنر کے عہدوں پر تقرری کا فیصلہ چیف جسٹس، وزیراعظم اوراپوزیشن لیڈر کی کمیٹی کرے گی۔ مودی حکومت نے اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا ایک قانون بنا لیا اور نئے کمشنر کی تقرری کردی لیکن اس سے قبل ہی معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا تھا جس میں تقرری کو چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ۱۵؍ مارچ ۲۰۲۴ء کو حکومت سے سوال کیا کہ معاملہ زیر سماعت تھا تو الیکشن کمشنر کی تقرری کیوں کی گئی؟ اس کا جواب دینے کیلئے۲۱؍ مارچ تک کی مہلت دی گئی .... لیکن پھر وہی ہوا، جیسا اس سے قبل ہوتا آیا تھا۔ حکومت کی بات تسلیم کرلی گئی۔
مہاراشٹر کی سیاست پر فیصلہ
سپریم کورٹ نے تسلیم کیاکہ شندے حکومت کی تشکیل صحیح نہیں تھی لیکن اُدھو حکومت کو بحال نہیں کیا گیا۔ کچھ اسی طرح کے فیصلے شیوسینا اور این سی پی کی تقسیم کے معاملے پر بھی آئے۔ مہاراشٹر کے اسپیکر کی بھی عدالت نے بار بار سرزنش کی لیکن نہ تو اسپیکر کو عہدے سے بے دخل کیا، نہ ہی اس کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔گورنر کے کام کاج پر بھی عدالت نے تنقید کی لیکن اس پر بھی سپریم کورٹ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
انتخابی بونڈ کا معاملہ
انتخابی بونڈ کو عدالت عظمیٰ نے غیر قانونی قرار دیا۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے قدرے سختی بھی دکھائی تھی،اس کے باوجود اس معاملے میں کسی کے بھی خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
بھیما کورے گاؤں معاملہ
بھیما کورے گاؤں معاملے میں چندرچڈ صاحب کے دور میں بھی سپریم کورٹ نے کئی بار ریاستی حکومت اورپولیس کی سرزنش کی لیکن ملزمین کی رہائی کا راستہ فوری طورپر ہموار نہیں کیا۔
عمر خالد اور شرجیل امام کا معاملہ
چندر چڈصاحب نے اے ٹو زیڈ کو ضمانت دینے کی بات تو کی لیکن انہیں کے دور میں سپریم کورٹ سے بار بار عمر خالد اورشرجیل امام کی ضمانت سے متعلق معاملے کی سماعت ملتوی ہوتی رہی۔
چنڈی گڑھ میئر انتخاب کا معاملہ
چنڈی گڑھ میں دن دہاڑے ووٹوں کی ڈکیتی ہوئی تھی۔ عدالت کی سختی پر افسر نے اپنی ’غلطی‘ کااعتراف بھی کیا ۔ میئر تو برخاست کیا گیا لیکن افسر کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔
بلڈوزر کارروائیوں کا معاملہ
عدالت کے سامنے ایک نہیں،کئی بار انہدائی کارروائیوں کے معاملات گئے۔ سپریم کورٹ نے بار بار حکومتوں کو متنبہ کیا لیکن اس کے سامنے ہی اس کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔ پھر بھی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
یہ صرف چند ایک فیصلے ہیں، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کے فیصلوں کی فہرست بہت طویل ہے۔یہی وہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے چندر چڈ صاحب کو تاریخ کا خوف ستارہا ہے۔