• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

چندرچڈ کے بیان سے معلوم ہوا کہ بابری مسجد سے متعلق فیصلہ بھگوان نے لکھوایا تھا

Updated: October 28, 2024, 4:58 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بابری مسجد سے متعلق متنازع فیصلے پرایک بیان دیا۔

DY Chandrachud. Photo: INN
ڈی وائے چندرچڈ۔ تصویر: آئی این این

گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بابری مسجد سے متعلق متنازع فیصلے پرایک بیان دیا۔یہ بیان دے کر انہوں نے گویا اُس تشویش پر مہر تصدیق ثبت کردی جو ملک کے انصاف پسندوں کو پہلےہی سے تھا۔ اپنے اس بیان میں چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے بابری مسجد کیس کے حل کیلئے ’بھگوان سے پرارتھنا‘کی تھی۔ان کے مطابق ’’اگر آستھا ہو تو بھگوان راستہ نکال دیتے ہیں۔ ‘‘چندرچڈ کے اس بیان کی چوطرفہ مذمت ہورہی ہے جن میں قانونی ماہرین سے لے کر دانشوران اور ماہرین سماجیات بھی شامل ہیں۔
 ملک کے موقر صحافی کرن تھاپر سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے سابق سربراہ اور ملک کے معروف قانون داں دُشینت دوے نے کہا کہ ہمارے چیف جسٹس ’عظمت کے وہم‘ میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ سی جے آئی کے اس انکشاف پر کہ انہوں نے بابری مسجد، رام جنم بھومی تنازع کے حل کیلئے بھگوان سے پرارتھناکی تھی اوربھگوان نے انہیں   اس کاراستہ بھی سجھایا تھا، دُشینت دوے نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس میںمجھے کوئی شک نہیں کہ وہ عظمت کے وہم کا شکار ہوچکے ہیں اور اس طرح چیف جسٹس چندرچڈ تذلیل، تنقید اور تحقیر کا موضوع بن گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ چندرچڈ نے ہندوستان کے چیف جسٹس کے عہدے اور ملک کی عدالت عظمیٰ کی شبیہ کو سنجیدگی سے متاثر کیا ہے۔  کرن تھاپر کو دیئے گئے۲۰؍ منٹ کے مذکورہ انٹرویو میں دُشینت دوے  نے چیف جسٹس کے بیان کو ’حیران کن‘ اور’گہری مایوسی‘ والا قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بیان ان کی ذہانت اور جج کے طور پر اُن کی قابلیت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ انہوں نے اسے ’ایک غیر ذمہ دارانہ بیان‘  بھی کہا۔

یہ بھی پڑھئے: بہرائچ فساد کی کرونولوجی کو سمجھیں، اس میں اُترپردیش کو گجرات بنانے کی سازش نظر آتی ہے

دہلی یونیورسٹی کےپروفیسر اور ماہر سماجیات اپوروانند نے’دی وائر‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں چیف جسٹس کے مذکورہ بیان اور اس کی معنویت کا اپنے انداز  میں جائزہ لیا ہے۔ اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ کہہ کر چندرچڈ صاحب نے ایک طرح سے یہ تسلیم کر لیا کہ بابری مسجد سےمتعلق فیصلہ اُن کا لکھا ہوا تھا، جس پر باقی۴؍ جج بھی راضی ہوگئے تھے۔ ان کے بیان میں اس پیچیدہ سوال کا بھی جواب مل گیا ہے کہ فیصلے پر کسی جسٹس نے دستخط کیوں نہیں کئے تھے؟ یعنی آج تک لوگ صرف اندازہ لگا رہے تھے کہ فیصلہ کس نے لکھا ہے؟مذکورہ فیصلے کی زبان اور اسلوب کو دیکھ کر اس طرح کی سرگوشیاں ضرور ہورہی تھیں کہ یہ صرف اسی کا کمال ہو سکتا ہے جس میں فصاحت و بلاغت کا ہنر ہو اور جو خیالات کی قلابازیوں میں مہارت رکھتا ہو۔‘‘  پروفیسر اپوروانند اس پر طنز اور تنقید کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ ’’اب کہیں جاکر یہ معلوم ہوا کہ یہ فیصلہ تو بھگوان نے لکھوایا تھا، جج صاحبان نے صرف نقل کیا تھا۔ البتہ جسٹس چندر چڈ نے یہ نہیں بتایا کہ بھگوان کے روبرو وہ تنہا گئے تھے یا پانچوں ججوں نے اجتماعی طور پربھگوان سے پرارتھنا کی تھی، اپنی اجتماعی نااہلی کا اظہار کیا تھا اور بھگوان سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔‘‘  آگے چل کر وہ سوال کرتے ہیں کہ’’کیا تمام ججوں کو بھگوان کی ایک ہی آواز سنائی دی تھی؟ یا کسی نے کچھ الگ بھی سنا تھا؟‘‘ اور پھر افسوس کااظہار کرتے ہوئے اپوروانند لکھتے ہیں کہ ’’سی جے آئی کا یہ بیان سن کربھگوان پر یقین رکھنے والے  بہت سارے لوگوں کا اس پر سے اعتماد ٹوٹ چکا ہوگا۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ہریانہ میں کانگریس کے مسلم اُمیدواروں کا اسٹرائیک ریٹ ۱۰۰؍ فیصد رہا

سینئر صحافی نیلو ویاس نے اسی موضوع پر سپریم کورٹ کے سابق جسٹس ماکنڈے کاٹجو کے خیالات جاننے کی کوشش کی جو بے لاگ اور بے باک گفتگو کیلئے جانے جاتے ہیں۔ جسٹس کاٹجو سپریم کورٹ پہنچنے سے قبل مدراس ہائی کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں۔ سی جے آئی پر سخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے جسٹس کاٹجو نے’بھگوان سے پرارتھنا‘ کرنے کے ان کے دعوے کو مسترد کردیا اور اسے جھوٹ کا پلندہ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جج کو عوامی تقریبات سے دور رہنا چاہئے  اورعہدے پر رہتے ہوئے کم بولنا چاہئے۔ جسٹس کاٹجو نے کہا کہ ہمارے سینئر نے ہمیں یہی بتایا تھااور ہماری تربیت اسی انداز میں کی تھی۔  
  اس سوال کے جواب میں کہ چندرچڈ صاحب کو یہ بتانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ جسٹس کاٹجو نے کہا کہ ’’اپنے والد کی طرح یہ بھی کریئرسٹ ہیں۔یہ بھی دور کی سوچتے ہیں۔‘‘ خیال رہے کہ ڈی وائی چندرچڈ کے والد یشونت وشنو چندرچڈ ملک کے ۱۶؍ویں چیف جسٹس آف انڈیا تھے۔ ان کا دورانیہ ۲۲؍ فروری ۱۹۷۸ء سے۱۱؍ جولائی ۱۹۸۵ء تک  یعنی ۷؍ سال ۱۳۹؍ دن کا تھا۔ ملک میں سب سے طویل عرصے تک چیف جسٹس کے عہدے پر  رہنے کا ریکارڈ آج بھی انہیں کے نام ہے۔

یہ بھی پڑھئے: فلک بوس عمارتیں چھتوں کے ساتھ ہی روزگار بھی فراہم کرتی ہیں

جسٹس کاٹجو نے کہا کہ ’’جس وقت بابری مسجد مقدمے کا فیصلہ سامنے آیا تھا، یہ چیف جسٹس نہیں تھے بلکہ گوگوئی صاحب تھے۔ یہ صرف اس بنچ کا حصہ تھے جس نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔ پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جو فیصلہ بھگوان کی رہنمائی میں کیا تھا، اسی پر باقی اراکین نے بھی اتفاق کرلیا؟‘‘ جسٹس کاٹجو نے اس پر ایک سنگین سوالیہ نشان بھی لگایا۔ جسٹس ریکھا شرما کا تعلق دہلی ہائی کورٹ سےسبکدوش ہوئی ہیں۔ سی جے آئی کے اس بیان پر انہوں نے بھی کرن تھاپر کو ایک انٹرویودیا ہے۔ وہ بھی ان کے مذکورہ بیان سے ’حیران‘ ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اپنی کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ ملک کا چیف جسٹس اس طرح کا بیان دے رہا تھا، اسلئے مجھے اس پر یقین کرنے کیلئے بار بار اس بیان کو سننا پڑا۔ وہ آگے کہتی ہیں کہ’’ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے حلف کا پاس نہیں رکھا بلکہ ملک کے عوام کو بھی مایوس کیا ہے۔‘‘ تقریباً۲۷؍ منٹ کے اپنے اس انٹرویو میں جسٹس شرما نے کہا کہ اگر کسی مسلمان جج نے ایسا کوئی دعویٰ کردیا ہوتا تو ہر کوئی اس کے سامنے کھڑا ہوجاتا۔ایودھیا کے فیصلے کیلئے اس بیان کا کیا مطلب ہے؟اس سوال کے جواب میں جسٹس شرما نے کہا کہ’’ یہ فیصلے پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور یہ بیان اس فیصلے کو کمزور بھی کرتا ہے ۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK