• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہریانہ کے انتخابی نتائج فرقہ پرستوں کیلئے مایوس کن ہو سکتے ہیں

Updated: September 15, 2024, 6:17 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

ونیش کو جو عوامی مقبولیت مل رہی ہے وہ انتخابی لڑائی کو مزید دلچسپ بنا سکتی ہے۔ اس مقابلے میں پلڑا کانگریس کا بھاری ہے لیکن اس کی وجہ صرف ونیش کی عوامی مقبولیت نہیں ہے بلکہ ان کیخلاف بی جے پی لیڈروں خصوصاً برج بھوشن سنگھ نے جو بیانات گزشتہ دنوں دئیے ہیں وہ بھی بھگوا گروہ کی راہ کو مشکل ترین بنا سکتے ہیں۔

Vinesh Phogat, Rahul Gandhi and Bajrang Punia. Photo: INN
ونیش پھوگاٹ، راہل گاندھی اور بجرنگ پونیا۔ تصویر : آئی این این

ہریانہ اسمبلی الیکشن پر میڈیا کوریج میں بیشتر کانگریس کی جیت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے جو ہر الیکشن میں صرف بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں ہی کے حق میں ماحول سازی پر اپنا سارا زور صرف کرتا رہا ہے۔ لوک سبھا الیکشن کے بعد میڈیا کے رویہ میں تبدیلی آئی ہے تاہم اب بھی کچھ میڈیا ادارے دائیں بازو کے سیاسی افکار کی تشہیر کو ترجیح دے رہے ہیں اور اس بنا پر زمینی حالات خواہ جیسے بھی ہوں ، وہ بھگوا گروہ کی جیت کے علاوہ کوئی اور بات کر ہی نہیں سکتے۔ اس فکری ہم آہنگی کے سبب بعض میڈیا ادارے ہریانہ اسمبلی الیکشن میں بھی بی جے پی کی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ ان دعوؤں کی حقیقت تو۸؍ اکتوبرکو سامنے آئے گی لیکن یہ طے ہے کہ الیکشن دلچسپ ہوگا اور نتائج فرقہ پرست سیاست دانوں کیلئے باعث ہزیمت ہو سکتے ہیں۔ 
 انتخابی سیاست کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں نتائج ظاہر ہونے سے قبل کسی پارٹی کی جیت کا حتمی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر چہ ہندوستانی میڈیا کا انداز بیشتر اسی نوعیت کا ہوتا ہے تاہم اکثر اس انداز کے سبب اسے خفت سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہریانہ کے موجودہ سیاسی منظرنامہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ۲۰۱۴ء سے ریاست میں برسر اقتدار بی جے پی اس بار اقتدار سے بے دخل ہو سکتی ہے۔ حالانکہ وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی تیسری مرتبہ حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن پارٹی کو اس وقت جن حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے ان کے سبب عوام کا اعتماد حاصل کرنا بہت آسان نہیں ہوگا۔ دوسرے یہ کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران اس ریاست میں شد ت پسند ہندوتوا کیلئے ماحول سازی میں سرگرم عناصر کو اقتدار کی پشت پناہی نے جس فرقہ واریت کو فروغ دیا ہے وہ ریاست کی ترقی کیلئے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اس الیکشن میں بھی بھگوا گروہ فرقہ ورانہ سیاست کے دم پر ہی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کریگا لیکن اس بار یہ راہ پہلے کے مقابلے کافی مشکل ہو گئی ہے۔ 
 بی جے پی کو کئی سطحوں پر اس مشکل سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ امیدواروں کی پہلی فہرست جاری ہونے کے بعد پارٹی سے کئی بڑے لیڈروں کا انخلا انتخابی مقابلے کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ اب تک ۳۰؍ سے زیادہ لیڈرپارٹی چھوڑ چکے ہیں جن میں ساوتری جندل، رنجیت چوٹالا اور آدتیہ چوٹالا جیسے کئی دیگر بڑے لیڈر بھی شامل ہیں۔ پارٹی چھوڑنے والے یہ لیڈر الیکشن میں بی جے پی کیلئے درد سر بن سکتے ہیں۔ پارٹی نے جن نئے چہروں کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے وہ ایوان تک پہنچ ہی جائیں گے اس کا حتمی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ پارٹی کی ریاستی اکائی اس حکمت عملی کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہہ رہی ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران ریاست میں عوام مرکوز ترقیاتی اقدام اتنے وسیع پیمانے پر ہوئے ہیں کہ عوام اس بار بھی بی جے پی کو ہی ووٹ دیں گے خواہ امیدوار کوئی بھی ہو۔ اس دعویٰ کا جو دوسرا پہلو ہے، اسے بھی یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ پہلو ریاست میں ترقیاتی اقدام کے مقابلے فسطائیت کو بڑھاوا دینے والی فرقہ ورانہ سیاسی حکمت عملی کو آشکار کرتا ہے۔ پارٹی اس مجبوری میں اس حد تک محصور ہو چکی ہے کہ کشتی پہلوانوں کے احتجاج میں کھل کر اقتدار کا ساتھ دینے والی ببیتا پھوگاٹ کو بھی ٹکٹ دینے کا حوصلہ نہیں کر سکی۔ 

یہ بھی پڑھئے: انتخابی فائدے کیلئےسرکاری خزانے کا استعمال غلط ہے

ہریانہ کے اسمبلی الیکشن کو دلچسپ بنانے میں ونیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا کی فعال سیاست میں آمد بھی اہم رول ادا کرے گی۔ پیرس اولمپک میں ونیش گولڈ میڈل جیتنے میں بھلے ہی کامیاب نہ ہو پائی ہوں لیکن الیکشن میں وہ اپنی جیت کے تئیں پوری طرح مطمئن ہیں۔ اولمپک میں مبینہ سیاسی سازش کا شکار ہونے والی ونیش نے بی جے پی کے قد آور لیڈر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف جس جواں ہمتی کا مظاہرہ کیا تھا، ریاستی الیکشن میں بھی وہ اسی حوصلے اور ولولے کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کانگریس میں ان کی شمولیت پر بی جے پی آئی ٹی سیل کی جانب سے جو نازیبا رد عمل سامنے آیا ہے وہ بھی الیکشن میں ونیش کو عوام کی حمایت حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ جنتر منتر پر احتجاج کے دوران بھگوا گروہ نے جس طرح پھوگاٹ خاندان میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی وہی حربہ اس بار بھی آزمایا جا رہا ہے۔ ببیتا اور ان کے والد مہاویر پھوگاٹ نے ونیش کی فعال سیاست میں آمد پر جو منفی رد عمل ظاہر کیا ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھگوا گروہ اس بار الیکشن کے ممکنہ نتائج سے بہت خائف ہے۔ 
 الیکشن کے میدان میں قدم رکھتے ہی ونیش کو جو عوامی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے وہ انتخابی مقابلے کو مزید دلچسپ بنا سکتی ہے۔ اس مقابلے میں پلڑا کانگریس کا بھاری نظر آر ہا ہے اور اس کی وجہ صرف ونیش کی عوامی مقبولیت نہیں ہے بلکہ ان کے خلاف بی جے پی لیڈروں خصوصاً برج بھوشن سنگھ نے جو بیانات گزشتہ دنوں دئیے ہیں وہ بھی بھگوا گروہ کی انتخابی راہ کو مشکل ترین بنا سکتے ہیں۔ عوام کو دیش بھکتی کا پاٹھ پڑھانے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی کے اس خبط الحواس لیڈر نے اولمپک میں ونیش کو گولڈ میڈل نہ ملنے پر جو بیان گزشتہ دنوں میڈیا میں دیا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انتقامی سیاست جب سر پر سوار ہوتی ہے تو ملک کے وقار کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ 
 ونیش کی کانگریس میں شمولیت کو بی جے پی ایک ایسی سیاسی سازش قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے جس کا مقصد کشتی پہلوانوں کے احتجاج کے ذریعہ اقتدار کو کمزور کرنا تھا۔ اس کی یہ کوشش بہت کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہے اور اگر اس مفروضے کو صحیح مان لیا جائے تو پھر سنیل سانگوان کو ٹکٹ دینا بھی ایک ایسی سیاسی سازش ہے جس کا مقصد انتخابات میں رام رحیم کے رسوخ کو ایک آلہ ٔ کار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ سنیل سانگوان وہی جیلر ہیں جنھوں نے رام رحیم کو دس بار ملنے والے پرول میں ۶؍ پرول کی راہ ہموار کی تھی۔ رام رحیم کی کارستانیوں کی تشہیر اور عدالت سے سزا ہونے کے باوجود ہریانہ کے بعض علاقوں میں اسے خاصی مقبولیت حاصل ہے اور بھگوا گروہ الیکشن میں اس کی مقبولیت کا فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ بھگوا گروہ انتخابی سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کسی بھی سطح تک جا سکتا ہے پھر چاہے وہ رام رحیم کی پرول پر رہائی ہو یا اس پرول کی راہ ہموار کرنے والے جیلر کو ٹکٹ دینا۔ اس محا ذ پر پارٹی کسی بھی طرح کی سیاسی اخلاقیات کی پاسداری میں یقین نہیں رکھتی۔ بی جے پی کا یہ فیصلہ بھی ہریانہ کے اسمبلی الیکشن کو دلچسپ اور پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ 
 سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین اس الیکشن میں کانگریس کی کامیابی کی پیش گوئی جس یقین کے ساتھ کر رہے ہیں اس سے یہ لگتا ہے کہ اب ریاست کو فرقہ ورانہ طرز حکمرانی سے نجات مل جائے گی اور سیکولر افکار کو استحکام حاصل ہوگا جو معاشی و سماجی ترقی کیلئے ناگزیر عنصر کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن اس امکان میں بھی ایک پیچ پڑ گیا ہے اوروہ پیچ ہے سیٹوں کی تقسیم پر کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے درمیان عدم اتفاق۔ اب ریاستی کی کئی سیٹوں پر کانگریس اور عام آدمی پارٹی آمنے سامنے ہوں گی اورایسی صورت میں ووٹوں کا بٹوارہ فرقہ ورانہ سیاست کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ اس امکان کو عوام کی وہ سیاسی بیداری مسترد بھی کر سکتی ہے جس کا مظاہرہ پارلیمانی انتخابات میں عوام نے کیا تھا۔ یہ بیداری نہ صرف ہریانہ کو معاشی اور سماجی سطح پر نئے ترقیاتی امکانات سے روشناس کرائے گی بلکہ ریاست میں ان فسطائی عناصر کو بھی کمزور کرے گی جو گئو رکشا اور لوجہاد کے نام پر نفرت اور تشدد کے بازار کو گرم رکھنا چاہتے ہیں۔ ریاست کے اہم اسمبلی حلقوں میں سے ایک فرید آباد سے شدت پسند ہندوتوا کی پیروی کرنے والے بٹو بجرنگی نے نفرت اور تشدد کے اسی رجحان کا فائدہ اٹھانے کی غرض سے آزاد امیدوار کے طور پر پرچہ داخل کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ووٹرس ریاست کی معاشی و سماجی ترقی اور امن و آشتی کی فضا کو پروان چڑھانے میں یقین رکھتے ہیں یا ایک بار پھر انہیں کے ہاتھوں میں عنان حکومت سونپتے ہین جنھوں نے گزشتہ ایک دہائی میں فرقہ واریت کو فروغ دینے والا رویہ روا رکھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK