پنجاب اور مدھیہ پردیش میں لوٹ کی واردات کو انجام دینے والے ۲؍ اگنی ویروں کی گرفتاری ان خدشات کو مزید تقویت عطا کر تی ہے۔
EPAPER
Updated: August 25, 2024, 4:38 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
پنجاب اور مدھیہ پردیش میں لوٹ کی واردات کو انجام دینے والے ۲؍ اگنی ویروں کی گرفتاری ان خدشات کو مزید تقویت عطا کر تی ہے۔
سابقہ بی جے پی حکومت کے متنازع فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ’اگنی پتھ اسکیم‘ کا نفاذ رہا ہے۔ اس اسکیم سے متعلق جن خدشات کا اظہارکیا گیا تھا، وہ اب رفتہ رفتہسچ ثابت ہوتا جارہا ہے۔ اس اسکیم سے وابستہ خدشات کو دو سطحوں پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں ایک کا تعلق اس اسکیم کے تحت اگنی ویر بننے والے عارضی فوجی کی شخصیت اور اس کے گھریلو معاملات سے ہے جبکہ دوسرے کی حیثیت سماجی ہے۔ یہ اسکیم ہر د و سطح پر نئے مسائل کے پیدا ہونے کا سبب بنتی نظر آر ہی ہے۔ ہندوستانی سماج پہلے ہی کئی طرح کے پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے اور اس میں اس اسکیم کے سبب پیدا ہونے والے اضافی مسائل صورتحال کو مزید سنگین بنا سکتے ہیں۔ اس اسکیم کے نفاد پر حکومت اور اس کی چاپلوسی کرنے والے میڈیا نے جن ممالک کا حوالہ دیا تھا وہاں اس طرز کی اسکیم کے اغراض و مقاصد اور اس سے وابستہ ہونے والے افراد کو ملنے والی مراعات ہندوستان سے مختلف ہے لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دنیا کے چند ملکوں میں ہونے والے ہر اقدام کی نقل سے ملک کو فائدہ پہنچے گا۔
اگنی پتھ اسکیم کے تحت اگنی ویر بننے والے فوجیوں کی مدت کار محض چار برس ہے۔ اس کے علاوہ انھیں جو ماہانہ تنخواہ ملے گی وہ بھی ۳۰؍ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ ملک گیر سطح پر کمر توڑ مہنگائی نے جس طرح عوام کو افتاں و خیزاں کر رکھا ہے اس میں یہ رقم ان عارضی فوجیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے خاطر خواہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مستقل فوجیوں کو ملنے والی دیگر سہولتوں سے بھی یہ عارضی فوجی استفادہ نہیں کر سکتے۔ ایسی صورت میں وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اگر ناجائز یا غیر قانونی راستہ اختیار کریں تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ اس اسکیم کے دفاع میں مرکزی وزیر راج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں جو بیان دیا وہ بھی اس اسکیم کی طرح ’ہوا ہوائی‘ تھا۔ ان کے دعوے کے مطابق اس اسکیم کے نفاذ سے قبل ۱۵۸؍ اداروں سے تبادلۂ خیال کیا گیا اور تمام ممکنہ پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہی اس کے نفاذ کو ہری جھنڈی دی گئی۔ اس کے علاوہ وزیر دفاع نے اس اسکیم کے بہت سارے فائدے گنوائے لیکن یہ نہیں بتا سکے کہ وہ کون سے ادارے یا تنظیمیں تھیں جن سے اس اسکیم پر مشورہ کیا گیا؟ کیا ان مشیروں کو فوج سے وابستہ ان مسائل سے آگہی بھی تھی جو میعاد کار کے دوران ایک فوجی کو متاثر کر سکتے ہیں ؟اس اسکیم کی ساخت کے مد نظر ان مشورہ دہندگان کی آگہی مشکوک ہو جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:آزادی کی نعمت سے استفادہ کیلئے فرقہ واریت کو مسترد کرنا ہوگا
اس اسکیم کا جو اثر اگنی ویروں کی شخصیت پر ہوگا وہ نہ صرف ذاتی سطح پر انھیں کئی مسائل میں مبتلا کر سکتا ہے بلکہ ان کے ارد گرد کا ماحول اور افراد بھی اس کی زد میں آکر کئی طرح کے نقصانات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ میعاد کار مکمل ہونے کے بعد ان کی ’گھر واپسی‘ پر جو مسائل پیدا ہوں گے وہ تو ذرا بعد کی بات ہے دوران ملازمت بھی ان اگنی ویروں کو کئی طرح کے امتیازات کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ مستقل اور عارضی ملازمین کے درمیان اعلیٰ وادنیٰ کا رجحان ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔ جب اگنی ویر اس رجحان کی زد پر آئیں گے تو ان کے اندر ایسی نفسیاتی کجی پیدا ہو سکتی ہے جو ان کے خدمت کے جذبہ کو متاثر کر سکتی ہے۔ یہ رجحان فوج کو دولخت کر سکتا ہے اور اگر کسی بھی سطح پر اجتماعیت کا تصور متاثر ہوگا تو اس سے فوج کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ۱۵؍ اگنی ویر جاں بحق ہو چکے ہیں ان میں سے ۹؍ سے زیادہ کی موت مشتبہ رہی ہے۔ ۲؍ اگنی ویروں نکھل ڈڈ وال اور شری کانت چودھری کی خودکشی کی خبریں بھی میڈیا کی سرخیوں میں رہی ہیں۔ ان حقائق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اسکیم نہ صرف سماجی سطح پر اضافی مسائل کا سبب بن سکتی ہے بلکہ خود اگنی ویروں کیلئے بھی کئی طرح کے مسائل پیدا کررہی ہے۔
چار برس کی میعاد کار میں چھ ماہ کی ٹریننگ اگنی ویروں کو دی جائے گی۔ اس مختصر ٹریننگ پر بھی ماہرین نے سوال کھڑے کئے ہیں ۔ چھ ماہ کی اس تربیت سے وہ جسمانی اور ذہنی طور پر فوجی خدمات انجام دینے میں مہارت حاصل کر لیں گے اس کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ اس تربیت کے حصول اور چار برس بعد جب وہ دوبارہ اپنی سماجی زندگی میں لوٹیں گے توسماج کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں ۔ پنجاب اور مدھیہ پردیش میں لوٹ کی واردات کو انجام دینے والے دو اگنی ویروں کی گرفتاری اس امکان کو مزید تقویت عطا کر تی ہے۔ فوج میں عارضی ملازمت کے بعد نہ تو ان اگنی ویروں کو پنشن ملے گی اور نہ ہی ان کے مستقبل کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے حکومت نے کوئی واضح پالیسی بنائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ چار برس کے بعد وہ اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کیلئے کیا کریں گے؟اس مسئلے کا ایک ممکنہ حل یہ ہو سکتا ہے کہ اقتدار کے منظور نظر کارپوریٹ گھرانوں کی مختلف صنعتی اور تجارتی یونٹوں میں انھیں ’سیکوریٹی گارڈ‘ کی نوکری ملنے میں آسانی ہواور شاید اس اسکیم کا خاکہ تیار کرتے وقت یہ نکتہ بھی اقتدار اعلیٰ کے ذہن میں رہا ہوگا۔
پنجاب کے موہالی میں گاڑیوں کی چوری اور مدھیہ پردیش کے بھوپال میں زیورات کی دکان سے پچاس لاکھ کی چوری کرنے والے اگنی ویروں کے یہ مجرمانہ اقدام، مستقبل کی اس پریشان کن صورتحال کا اشاریہ ہیں جب سماج کو متواتر ایسے مسائل سے دوچار ہونا ہوگا۔ سابقہ فوجی ہونے کی دھونس اور ہتھیاروں کی ٹریننگ کا فیض اٹھانے والے یہ اگنی ویر ہندوستانی سماج کو ایسے اضافی مسائل میں مبتلا کر سکتے ہیں جن کا تدارک آسان نہیں ہوگا۔ اس وقت دائیں بازو کے سیاست داں مذہب کی بنیاد پر سماج میں تفرقہ اور تعصب کے جس رجحان کو ہو ادے رہے ہیں اس میں اگنی ویروں کی ملازمت سے سبکدوشی مزید شدت پیدا کر سکتی ہے۔ جب اس اسکیم کا خاکہ پیش کیا گیا تھا اسی وقت یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ ہتھیاروں کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے والے یہ اگنی ویر مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر کا آلہ ٔ کار بھی بن سکتے ہیں۔ اگر یہ اندیشہ حقیقت میں تبدیل ہو جائے تو سماج میں منافرت اور تشدد کا کیا عالم ہوگا، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔
شدت پسند ہندوتوا کے حامیوں کی جانب سے آئے دن کسی نہ کسی بہانے ہتھیاروں کی نمائش کر کے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ یہ عناصر مساجد اور مزارات کی بے حرمتی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اگر اس گروہ میں چار برس کے یہ عارضی فوجی بھی شامل ہو جائیں تو حالات کس قدر تشویش ناک ہو سکتے ہیں، اس کا تصور ہی اوسان باختہ ہے۔ ملک کا نوجوان طبقہ اس وقت بے روزگاری کے جس دور سے گزر رہا ہے اس کے مد نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سابقہ اگنی ویر اس طرح کی پرتشدد کار گزاریوں میں ملوث ہو سکتے ہیں اور ایسی صورت میں پولیس کو بھی ان پر قابو پانے میں سخت مشکلات کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ اگنی ویروں کی بھرتی کا جواز پیش کرتے ہوئے اقتدار نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سے فوج زیادہ مدت تک جوان اور فٹ رہے گی۔ یہ جواز ان فوجیوں کے وقار کو متاثر کرتا ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے ملک کی سرحدوں اور وطن کو درپیش مختلف داخلی مسائل کے تدارک کیلئے اپنی جان کی بازی لگا کر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ اسکیم فوج کی اس سالمیت کو بھی متاثر کرتی ہے جو مشکل اور مخالف حالات میں فوجیوں کو متحد رہ کر جاں نثاری کیلئے ہمہ وقت آمادہ رکھتی ہے۔ مستقل اور عارضی فوجیوں کے درمیان اگر پیشہ ورانہ عدم اتحاد کا رجحان زور پکڑ لے تو ایک ہی یونٹ نفسیاتی سطح پر دو خانوں میں بٹ سکتی ہے اور یہ افتراق مجموعی طور پر فوج کی کارکردگی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
حکومت اور حکومت نواز میڈیا یہ کہہ کر اگنی ویروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ ملک کی خدمت کر کے اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت دیں گے جس سے دیگر نوجوانوں کو بھی اس طرز خدمت کی تحریک ملے گی۔ وطن کی خدمت کا شرف حاصل کرنا یقیناً بڑی بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف۴؍ برس کی مختصر سی مدت خدمت کے اس تصور کو اس طور پر بروئے کار لا سکتی ہے جو اگنی ویروں کیلئے باعث شرف ہو؟ اور پھر اہم سوال یہ کہ خدمت اس کی مدت کے مکمل ہونے کے بعد وہ اپنی اور اپنے متعلقین کی ضروریات کی تکمیل کیلئے کیا راستہ اختیار کریں گے؟ اگر یہ راستہ پنجاب اور مدھیہ پردیش والے اگنی ویروں کا راستہ ہوگا تو اس سے سماج میں جو افرا تفری والا ماحول پیدا ہوگا وہ سماجی سالمیت کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ اس کیفیت سے دوچار ہونے کے بعد ترقی اور خوشحالی کا وہ ہدف بھی مشکل ہو جائے گا جس کو ۲۰۴۷ء تک سر کرنے کا عہد کیا گیا ہے۔