• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آزادی کی نعمت سے استفادہ کیلئے فرقہ واریت کو مسترد کرنا ہوگا

Updated: August 18, 2024, 5:48 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

یوم آزادی کے موقع پر صدر جمہوریہ نے’ سیاسی جمہوریت کو سماجی جمہوریت میں تبدیل‘ کرنے کی بڑی اچھی بات کہی ہے لیکن یہ کیسے ہوگا؟ اور کون کریگا؟

The points that the President of the Republic has emphasized, unfortunately, even the ruling class does not follow it. Photo: INN
صدر جمہوریہ نے جن نکات پر زور دیا ہے، افسوس کہ اس پر حکمراں طبقہ بھی عمل نہیں کرتا ہے۔ تصویر : آئی این این

 ۷۸؍ ویں یوم آزادی کے موقع پرصدرجمہوریہ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے سماجی انصاف کو یقینی بنانے اور تفرقہ کا باعث بننے والے رجحانات کو مسترد کرنے پر زور دیا ہے۔ انھوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کیلئےحکومتی اقدامات کی پذیرائی کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اصل ترقی اور خوشحالی کا ہدف اس وقت تک سرنہیں کیا جا سکتا جب تک کہ سیاسی جمہوریت کو سماجی جمہوریت میں تبدیل نہ کیا جائے۔ صدرکے خطاب کے تین نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے :
  اول:میرا پختہ یقین ہے کہ ہندوستان جیسے وسیع ملک میں طبقات کی بنیاد پر اختلاف کو فروغ دینے والے رجحانات کو مسترد کرنا ہوگا۔ دوم:ہمیں اپنی سیاسی جمہوریت کو سماجی جمہوریت میں تبدیل کرنا ہوگا۔ سیاسی جمہوریت اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتی جب تک اس کی بنیاد سماجی جمہوریت پر نہ ہو اور سوم:اپنے تنوع اور تکثیریت کے ساتھ ہم بحیثیت قوم متحد ہو کر ایک ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: یونیورسٹیوں کی تعداد کے ساتھ ہی تعلیمی معیارمیں بھی اضافہ ضروری

ان نکات کے تناظر میں ملک کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے پر جو تصویر سامنے آتی ہے وہ بہت خوشنما نہیں ہے۔ حصول آزادی کے بعد سے اب تک ملک سماجی سطح پر اس اتحاد و یکجہتی کی منزل پر نہیں پہنچ سکا ہے جہاں ہر فرد کو زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ اصولی طور پر اگر چہ بارہا اس کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے لیکن عملی سطح پر اس دعوے کی حقیقت کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے سیاسی رویے نے اس کہانی کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ہندوستانی سیاست کا یہ دورانیہ اس کریہہ حقیقت کو نمایاں کرتا ہے جو سماج میں طبقاتی اختلافات کے فروغ پانے سے عبارت ہے۔ ملک کے طول و ارض سے بیرونی حکمرانوں کی رخصت کے بعد سماج میں امن و آشتی اور محبت و یگانگت کے رجحان کو پروان چڑھانے کیلئے جو اقدام ناگزیر تھے ان کی طرف ارباب اقتدار کی توجہ ذرا کم ہی رہی۔ ادھر دس برسوں میں زمام حکومت جن ہاتھوں میں رہی انھوں نے دانستہ طور پر ایسی حکمت عملی سے کام لیا جو اس رجحان کو کمزور بناتی ہے۔ 
 آزادی کے حقیقی تصور کو بروئے کار لانے کیلئے ہندوستانیوں کو جد و جہد آزادی سے جو درس حاصل کرنے کی ضرورت تھی، اس میں کئی سطحوں پر کوتاہی برتی گئی۔ ملک کے موجودہ حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اقتدار کی سطح پر صرف چہرے بدل گئے ہیں اور ملک و عوام سے متعلق ارباب اقتدار کا رویہ کم و بیش اسی طرز کا ہے جو برطانوی حکمرانوں کا تھا۔ ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد انگریزی حکومت نے جسشدت کے ساتھ سماج میں مختلف سطحوں پر اختلافات کو ہوا دینے والی حکمت عملی اختیار کی تھی، آج بھی اقتدار کبھی براہ راست اور کبھی بالواسطہ طور پر اسی سیاسی رویہ کو اختیار کئے ہوئے ہے۔ سیاسی جمہوریت کو سماجی جمہوریت میں تبدیل کرنے کا صدرکا اصرار اس وقت تک عملی شکل اختیار نہیں کر سکتا جب تک کہ اس رویہ کو مکمل طور پر ترک نہ کر دیا جائے۔ 
 ملک و معاشرہ کی مجموعی ترقی کی راہ کو فرقہ واریت اور تعصب زدہ افکار کے حامل عناصر پر پیچ بناتے ہیں۔ اس وقت ملک میں مذہب، ذات، نسل، زبان اور علاقہ کی بنیاد پر عوام کے درمیان جو تعصب مختلف صورتوں میں ظاہر ہو رہا ہے وہ آزادی کی اس نعمت کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے جسے حاصل کرنے کیلئے مجاہدین آزادی نے سخت مسائل اور اذیتوں کو برادشت کیا۔ آزادی کی نعمت کو اس خطرہ سے محفوظ رکھنا ہراُس ہندوستانی شہری کا فریضہ ہے جو ملک کی معاشرہ کی مجموعی ترقی اور خوشحالی کا خواہاں ہے۔ جب یہ خواہش تعصبات اور فرقہ واریت کے دام میں گرفتار ہو جاتی ہے تو ملک کی توقیر اور تکریم کے تحفظ پر ان امور کو ترجیح حاصل ہو جاتی ہے جو سماج میں طبقاتی اختلاف کے رجحان کو فروغ دیتے ہیں۔ صدر نے اختلاف کو فروغ دینے والے عناصر کو مسترد کرنے پر جو زور دیا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ ملک و معاشرہ کی مجموعی ترقی کے ہدف کو سر کرنے کا عمل تعصب اور فرقہ ورانہ افکار سے آلودہ نہ ہونے پائے۔ 
 سماجی ترقی اور ملک میں امن و خوشحالی کو پائیدار بنانے کا عمل جب تک اس آلودگی سے مملو رہے گا تب تک صحیح معنوں میں آزادی کا وہ تصور بروئے کار نہیں آسکتا جس میں اس ملک کا ہر فرد خود کو عدم تحفظ اور محرومی کے احساس سے بالاتر محسوس کرے۔ اقتدار پر دائیں بازو کے تسلط سے اس احساس پر مختلف اندیشوں کی یلغار کے سبب سماج میں انتشار کی کیفیت کو واضح طورپر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کیفیت کو ختم کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ آئین کے ان ضابطوں کو مکمل دیانت داری کے ساتھ عملی شکل عطا کی جائے جو ہر ہندوستانی کے اندر آزاد ملک کے شہری ہونے کا احساس پیدا کریں اورساتھ ہی زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کریں۔ آئین کی کتاب کو صرف ماتھے سے لگانے یا بوسہ دینے سے یہ اہم مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جو غلامی کی اذیتوں اور آزادی کی نعمتوں کے مابین خط فاصل کھینچتا ہے۔ 
 ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے صرف جغرافیائی سالمیت ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس جغرافیائی حدود میں زندگی بسر کرنے والے عوام کے درمیان سماجی سطح پر وہ اتحاد اور یکسانیت بھی درکار ہے جو صحیح معنوں میں ترقی اور خوشحالی کے حصول کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس تناظر میں اگر ملک کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو جو حقیقت آشکار ہوتی ہے وہ بہت خوشگوار نہیں ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ آزادی کے حصول کے بعد سیاسی اعتبار سے دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کا شرف تواس ملک کو حاصل ہو گیا لیکن یہ جمہوریت سماجی سطح پر اس قدر مستحکم نہ ہو سکی جو ہندوستانیوں کیلئے اس کے آئینی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اقتصادی اور سماجی ہر دو سطح پر اس حقیقت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح ملک کی معیشت کا ایک بڑا حصہ دس فیصد سے کم لوگوں کے ہاتھوں میں محصور ہے اسی طرح سماج میں بھی ایک خاص مذہبی نظریہ کے حامل افراد کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ یہ امتیاز صرف سماجی امور تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ قانون اور آئین کی پاسداری کے معاملات میں بھی اس خاص طبقہ کو استثنائی حیثیت حاصل ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ہنڈن برگ کے سنسنی خیز انکشاف سے’ سیبی‘ کی سربراہ کی مشکلات میں اضافہ

 آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہونے اور ملک کی ترقی و خوشحالی کو پائیدار اسی صورت میں بنایا جاسکتا ہے جبکہ سماجی تنوع اور تکثیریت کوصدق دل سے اس ملک کی شناخت کا نمایاں اور اہم حوالہ تسلیم نہ کر لیا جائے۔ ادھر کچھ برسوں کے دوران فسطائی عناصر نے سماج میں مختلف سطحوں پر فرقہ واریت کے جس رجحان کو ہوا دینے کی متواتر کوشش کی ہے وہ ہندوستان کی تکثیری شناخت کو مجروح کرتی ہے۔ اس ملک کے ہر شہری کو ایک قوم کی شکل میں متحد ہو کر سماج میں امن و آشتی اور ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے کوشش کرنا ہوگی تبھی آزادی کی نعمت سے فیض اٹھایا جا سکتا ہے۔ صدر نے بھی اپنے خطاب میں اس نکتے پر زور دیا ہے اور موجودہ حالات کے تناظر میں ان کا یہ اصرار مزید اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے کیونکہ فرقہ پرست عناصر مختلف سطحوں پر اس قومی سالمیت کو کمزور بنانے کے درپےہیں۔ یہ فرقہ پرست عناصر سماجی تفریق کو برقرار رکھنے اور خود کو بقیہ تمام طبقات سے ہر سطح پر اعلیٰ و افضل ثابت کرنے کیلئے ان امور میں بھی مداخلت کر رہے ہیں جو کسی فرد یا سماجی طبقہ کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ 
 افسوس کی بات یہ ہے کہ اقتدار اعلیٰ کی جانب سے نہ صرف یہ کہ ایسے عناصر کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ سیاسی قد آوری کی خاطر خود بھی یہی راہ اختیار کی جاتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نامی غیر سرکاری تنظیم نے وزیر اعظم کی ان ۱۷۳؍ تقاریر کا جائزہ لیا جو انھوں نے پارلیمانی انتخابی مہم کے دوران کی تھیں۔ ان میں سے ۱۱۰؍ تقاریر میں وزیر اعظم نے اسلاموفوبیا پر مبنی بیانات دئیے جن کی وجہ سے مسلمانوں کے تعلق سے نفرت میں اضافہ دیکھا گیا۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایک طرف صدر جمہوریہ کا اصرار کہ ہر ہندوستانی ایک قوم کی حیثیت سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے کوشاں ہو اور دوسری طرف سیاسی اقتدار اعلیٰ کی جانب سے دئیے گئے ایسے بیانات جو سماج میں تفرقہ پسندی کے رجحان کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ ایسی متضاد کیفیت میں مبتلا سماج کس طرح سماجی انصاف اور سماجی جمہوریت کے اہداف کو سر کرے گا؟ جب تک ان مراحل کو عبور نہیں کر لیا جاتا تب تک آزادی کی نعمت سے فیض نہیں اٹھایا جا سکتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK