اگر ڈاکٹر صاحب ہندوستان کے وزیر اعظم نہ بنتے تو آج نہ گاہ گاؤں کی کارپٹ سڑک ہوتی، نہ بچیوں اور بچوں کے اسکول ہوتے۔ منموہن سنگھ کی وجہ سے ہمارے گاؤں میں۲۰۰۴ء میں شمسی توانائی کا نظام متعارف ہوا جس کا اس وقت کسی دیہاتی علاقے میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘‘
منموہن سنگھ اپنے بچپن کے دوست راجہ محمد علی کے ساتھ ۔ یہ تصویر وقت کی ہے جب راجہ محمد علی ان سے ملنے کیلئے ہندوستان آئے تھے ۔ یہ جذباتی ملاقات پی ایم ہاؤس ، نئی دہلی میں ہوئی تھی۔۔ تصویر: آئی این این
جمعہ کو گاہ(پاکستان کے چکوال ضلع کا وہ گاؤں جہاں منموہن سنگھ کا جنم ہوا) میں بظاہر کسی شخص کی موت نہیں ہوئی تھی لیکن گاؤں کے لوگ صبح سے ہی راجہ محمد علی مرحوم کی رہائش گاہ پر اکٹھا ہونے لگے تھے۔ نمازِ جمعہ کے بعد تو پورا گاؤں ہی راجہ محمد علی کی بیٹھک پر امڈ آیا۔’’ایسا لگتا ہےجیسے ہمارے ہی گھر کا کوئی فرد فوت ہو گیا ہے‘‘،گاؤں کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر الطاف حسین نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔
۲۶؍دسمبر کو ہندوستان کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کا انتقال تو دہلی میں ہوا لیکن وہاں سے سیکڑوں میل دور پاکستان کےچکوال میں اُن کا آبائی گاؤں گاہ بھی سوگوار ہوگیا۔ جمعہ کوگاؤں کے کم وبیش تمام مرد حضرات منموہن سنگھ کے ہم جماعت اور بچپن کے دوست راجہ محمد علی مرحوم کی بیٹھک پر منموہن سنگھ کی موت کا سوگ منانے کیلئے اکھٹے ہوئے۔ اس موقع پر منموہن سنگھ کے بچپن کے دوست راجہ محمد علی مرحوم کے بھتیجے راجہ عاشق حسین موجود تھے۔انہوں نے بتایا کہ ’’میرے چچا ڈاکٹر من موہن سنگھ کے قریبی دوست تھے۔ گاؤں کے اور بھی دس بارہ لوگ منموہن سنگھ کے ہم جماعت تھےسب کی خواہش تھی کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ اپنے گاؤں گاہ آئیں۔ راجہ محمد علی تو من موہن سنگھ سے دہلی میں مل آئے تھے لیکن باقی دوستوں کی یہ حسرت ادھوری ہی رہ گئی ۔ ‘‘
گاہ کا تجدید شدہ وہ سرکاری اسکول جس میں منموہن سنگھ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ تصویر: آئی این این
راجہ عاشق حسین کے مطابق منموہن سنگھ بھلے ہی کبھی اپنے آبائی گاؤں نہیں لوٹےمگر ہندوستان کا وزیراعظم بن کر اپنے اس گاؤں کی ترقی کی راہ ضرور ہموار کردی۔ان کے مطابق ’’ اگر ڈاکٹر صاحب ہندوستان کے وزیر اعظم نہ بنتے تو آج نہ گاہ گاؤں کی کارپٹ سڑک ہوتی، نہ بچیوں اور بچوں کے اسکول ہوتے۔‘‘ انہوں نےبتایا کہ ’’منموہن سنگھ صاحب کی وجہ سے ہمارے گاؤں میں۲۰۰۴ء میں شمسی توانائی کا نظام متعارف ہوا جس کا اس وقت کسی دیہاتی علاقے میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘‘
منموہن سنگھ کی تاریخ پیدائش یوں تو۲۶؍ ستمبر۱۹۳۲ء سمجھی جاتی ہے لیکن گاہ کے گورنمنٹ پرائمری سکول کے ریکارڈ کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش۴؍ فروری۱۹۳۲ء ہے۔ من موہن سنگھ ۱۹۳۲ء میں گاہ کے ایک دوکاندار گرمکھ سنگھ کوہلی کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کی ۵؍بہنیں اور ۳؍بھائی تھے۔ ان کے بچپن میں ہی ان کی والدہ امرت کور انتقال کر گئی تھیں ۔ ان کو ان کی دادی جمنا دیوی نے پالا۔ منموہن سنگھ گاہ کے پرائمری سکول میں۱۷؍ اپریل۱۹۳۷ءکو داخل ہوئے جہاں انہوں نے ۴؍ سال تعلیم حاصل کی ۔ ان کے ہم جماعتوں میں مسلمان، ہندو اور سکھ شامل تھے۔ ان کی جماعت میں ایک لڑکی بخت بانو بھی تھی۔ منموہن سنگھ کو ان کے ہم جماعت ’’موہنا ‘‘کہہ کر بلاتے تھے۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد ان کے والد انہیں پشاور لے گئے جہاں منموہن سنگھ خالصہ ہائی سکول میں داخل ہوئے اور۱۹۴۷ءکی گرمیوں میں میٹرک کا امتحان دیا ۔اس وقت ۱۵؍سال کے موہنے کے وہم و گماں بھی نہ تھا کہ اگلے چند ہفتوں کے بعد ان کے خاندان اور گاہ کے باقی سکھوں اور ہندوؤں پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔۱۹۴۷ء کے خونی بٹوارے نے موہنے کے گاہ کو بھی خون میں نہلا دیا۔ ایک طوفان اٹھا۔ وحشیوں کے ہجوم میں گاہ کے چند شر پسندوں کے ساتھ آس پاس کے دیہات سے آئے ہوئے جتھے گاہ کے سکھوں اور ہندوؤں پر ٹوٹ پڑے۔ گاہ کے۹۱؍ سالہ محمد خان بتاتے ہیں کہ ۱۷؍ سے ۲۰؍سکھ اور ہندو بے دردی سے قتل کر دیئے گئے۔ ان کے گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا اور ان کی جمع پونجی لوٹ لی گئی۔ گاہ کے کئی سکھ اور ہندو قریبی گاؤں چاولی بھاگ گئے جہاں انہیں چاولی کے لوگوں نے پناہ دی۔
محمد خان بتاتے ہیں کہ جہاں ایک طرف گاہ کے سکھوں اور ہندوؤں کو قتل کرکے ان کے گھروں کو جلایا اور لوٹا جا رہا تھا وہیں گاؤں کے کچھ لوگ سکھ اور ہندو عورتوں اور بچوں کو ہجوم سے بچا کر محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے تھے۔ جب گاہ کو جلایا گیا تو منموہن سنگھ کے دادا سنت سنگھ بھی اس بلوے میں مارےگئے۔ اس کی کربناک یادیں مرتے دم تک منموہن سنگھ کے دل سے نہ نکل سکیں۔۴۷ءمیں صرف گاہ لہو لہان نہیں ہوا تھا بلکہ اس خونی رت پورا پنجاب پاگل ہوگیا تھا۔ ادھر اگر مسلمانوں نے سکھوں کا قتل عام کیا تو سرحد پار سکھوں نے مسلمانوں کو نہیں بخشا ۔ ہر طرف پاگل پن اور وحشت کا راج تھا۔
من موہن سنگھ کا لٹا ہوا خاندان ہندوستان کی ریاست اترا کھنڈ کے شہر ہلدوانی میں جا بسا جہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد۱۹۴۸ء میں گاہ کا یہ خاندان امرتسر منتقل ہو گیا۔ منموہن سنگھ امرتسر کے ہندو کالج میں داخل ہوئے اور اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی جو اس وقت ہشیار پور میں تھی، سے ۱۹۵۴ء میں معاشیات میں ماسٹر کیا۔ من موہن سنگھ نے اپنے تعلیمی کیریئر میں ہمیشہ پہلی پوزیشن لی اور ترقی کے مدارج طے کرتے چلے گئے۔ گاہ اپنےا س سپوت کو بھول چکاتھا۔ پھر ایک اہم موڑ مئی۲۰۰۴ء میں آیا سونیا گاندھی نے من موہن سنگھ کو وزیر اعظم نامزد کر دیا۔۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۴ء تک ہم چکوالیوں کو یہ خبر تک نہیں تھی کہ ہندوستانی معیشت کا معمار وہی شخص ہے جو گاہ کے پرائمری سکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھتا تھا ۔ گاہ کے تالاب میں اپنے دوستوں کے ساتھ نہاتا تھا اور تالاب پر لگے پیپل اور بوہڑ کے صدیوں پرانے درختوں پر چڑھ کر دن گزارتا تھا۔
گاہ کے سرکاری اسکول کے رجسٹر میں منموہن سنگھ کا نام۔ تصویر: آئی این این
۲۰۰۴ءمیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیر اعظم بنتے ہی ہم پر یہ کھلا کہ نیا بھارتی وزیر اعظم چکوال کے گاؤں گاہ کا موہنا ہے۔ یہ راز بھی افشا ہوا کہ موہنے کی بیوی گرشرن کور کا آبائی گاؤں ڈھکو ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ۲۰۰۴ء میں کچھ سرکاری افسر ہمارے گاؤں منموہن سنگھ کے سسر سردار چتر سنگھ کوہلی کی حویلی کے آثار دیکھنے آئے تھے ۔ ساتھ یہ نوید بھی سنائی گئی کہ من موہن سنگھ اور ان کی بیوی گرشرن کور جلد پاکستان کا دورہ کریں گے اور گاہ اور ڈھکو آئیں گے۔ میرے تایا چوہدری محمد نواز اور چوہدری محمد افضل نے گاؤں کی کچھ عورتوں سے کجھور اور سروٹ کے پتوں سے چھکوریں (چنگیریں) بنوائیں جو بطور تحائف منموہن سنگھ اور ان کی اہلیہ کو دی جانی تھیں لیکن گاہ اور ڈھکو والے من موہن سنگھ اور گرشرن کور کی راہ ہی دیکھتے رہ گئے۔
معروف صحافی اعزاز سید نے اپنے ایک مضمون میں مشاہد حسین سید کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ’’۲۰۰۷ء میں منموہن سنگھ کو پاکستان آنا تھا لیکن مشرف کے خلاف وکلاء تحریک کی وجہ سے یہ دورہ منسوخ ہو گیا۔‘‘ مشاہد حسین سید کے مطابق۲۰۰۶ء میں دہلی میں منموہن سنگھ کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران انہوں نے پنجابی میں منموہن سنگھ سے کہا تھا کہ’’ہنڑ دل وڈا کرو۔‘‘ اس وقت کے پاکستانی وزیرِ اعظم چوہدری شجاعت حسین نے پنجابی میں منموہن سنگھ سے کہا تھا کہ’’ہنڑ وقت آ گیا اے کوئی ایگریمنٹ کریئے۔ تسی وی اگے ودھو۔‘‘ اس پر من موہن سنگھ نے ہنستے ہوئے جواب دیاتھا کہ ’’تسیں مینوں مروا نہ دینڑاں۔ ‘‘
سوال یہ ہے کہ دو بار وزیرِ اعظم رہنے کے باوجود بھی گاہ کا موہنا اپنے گاؤں کیوں نہ آیا حالانکہ کئی پاکستانی حکمرانوں نےانہیں پاکستان آنے کی دعوت دی؟ اگر بطور وزیر اعظم کوئی رکاوٹ تھی تو وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی منموہن سنگھ گاہ کیوں نہ آئے؟ ۲۰۱۹ء میں وہ کرتار پور ماتھا ٹیک کر وہیں سے واپس چلے گئے اور وزیرِ اعظم بننے سے پہلے بھی ۲؍ دفعہ پاکستان آئے لیکن گاہ نہ آئے۔ اس سوال کا جواب من موہن سنگھ کی بیٹی دمن سنگھ نے اپنے والدین پر لکھی گئی کتاب میں دیا ہے جبکہ پنجاب کے سابق وزیر ِ خزانہ من پریت سنگھ بادل نے بھی’’دی انڈین ایکسپریس‘‘میں شائع شدہ اپنے حالیہ مضمون میں بھی اس سوال کا جواب دیا ہے۔ من پریت سنگھ بادل لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ منموہن سنگھ سے کہا کہ بطور وزیر اعظم پاکستان میں آپ کا بھر پور استقبال کیا جائے گا لیکن من موہن سنگھ نےجواب دیا کہ ’’یاداں بڑیاں تلخ ہن۔‘‘ دمن سنگھ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ جب ان کی بہن نے اپنے ابا سے گاہ جانے کے متعلق سوال کیا تو من موہن سنگھ نے کہاکہ’’اُس جگہ میرے دادا کو قتل کیا گیا تھا۔‘‘
منموہن سنگھ بٹوارے کی خوفناک یادوں کی وجہ سے خود تو گاہ نہ آئے لیکن اپنی مٹی سے محبت اور عقیدت کی چنگاریاں ان کے دل میں مرتے دم تک دہکتی رہیں۔ یہ مٹی سے محبت ہی تھی جس کی وجہ سے گاہ کے موہنے نے اس گاؤں کی ۳؍مساجد میں اس خیال سے گیزر لگوائے کہ اس کے گاؤں کے لوگ سردیوں میں گرم پانی سے وضوع کر کے نماز ادا کر سکیں۔ ۲۰۰۴ء میں منموہن سنگھ کی وجہ سے چکوال کے پسماندہ گاؤں گاہ کی قسمت جاگ اٹھی۔ پاکستانی حکومت نے گاہ کو ’’ماڈل ولیج ‘‘قرار دے کر ۹۰؍کروڑ کے ترقیاتی کام شروع کئے۔ بلکسر سے گاہ تک کارپٹ روڈ بنی۔ بنیادی صحت مرکز بنا، ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ بنا، لڑکوں اور لڑکیوں کے پرائمری اور ہائی اسکول بنے۔ ویٹرنری ڈسپینسری بنی لیکن ستم ظریفی دیکھیں کہ ہمارے حکمرانوں نے ان ترقیاتی منصوبوں پر۹۰؍ کروڑ لگا کر عمارتیں تو بنا دیں لیکن آج تک گاہ کا بنیادی مرکز صحت، ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ اور ویٹرنری ڈسپینسری میں کام شروع نہ ہوا۔
یہ بھی پڑھئے: ڈاکٹر منموہن سنگھ: خاموشی کی طاقت کا استعارہ
ویٹرنری ڈسپینسری بنی لیکن ستم ظریفی دیکھیں کہ ہمارے حکمرانوں نے ان ترقیاتی منصوبوں پر۹۰؍ کروڑ لگا کر عمارتیں تو بنا دیں لیکن آج تک گاہ کا بنیادی مرکز صحت، ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ اور ویٹرنری ڈسپینسری میں کام شروع نہ ہوا۔ دوسری طرف ہندوستانی حکومت نے گاہ کی تین مساجد میں شمسی توانائی سے چلنے والے گیزرلگوائے اور گاہ کی گلیوں میں لائٹیں نصب کیں۔ آج بھی یہ گیزر اور لاٹیں کامیابی سے چل رہی ہیں۔
گاہ والوں نے بھی گاہ کے موہنے سے اپنی محبت کا کئی بار عملی ثبوت دیا۔ راجہ محمد علی مئی۲۰۰۶ء میں حاجی محمود کے ہمراہ دہلی گئے اور اپنے دوست موہنے سے وزیر اعظم ہاؤس میں ملے۔ راجہ محمد علی موہنے کیلئے گاہ کی مٹی، پانی، گاؤں کی تصویر، دو جوڑے زری کھسوں کے، پہلوان ریوڑی اور چادر لے گئے تھے۔ جب منموہن سنگھ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہوئی تو گاہ کے لوگوں نے ڈھول کی تھاپ پر جشن منایا۔۲۰۱۴ء میں جب ہندوستان میں پارلیمانی الیکشن ہورہے تھے تو گاہ میں موہنے کے دوست ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کانگریس کی کامیابی کیلئے دعائیں مانگ رہے تھے۔ منموہن سنگھ کے انتقال کے بعد ۲۷؍ دسمبر کو گاہ کا منظر عجی تھا۔ ایک اداسی سی چھائی ہوئی تھی، گاہ کے لوگ راجہ محمد علی کی بیٹھک پر ڈاکٹر من موہن سنگھ کی موت کا سوگ منا رہے تھے۔ یہی آواز آ رہی تھی کہ ’’ایسے لگتا ہے ہمارے گھر کا کوئی فرد فوت ہو گیا ہے۔‘‘ گاہ میں اب سکھوں کے گھروں کے آثار تک مٹ چکے ہیں لیکن گاہ کا اسکول اورا سکول کے پاس سکھ خاندان کا ایک گھر اور گاہ کے سوکھے تالاب اور تالاب کے کنارے لگے پیپل، بوہڑ اور بیر کے درخت آج بھی گاہ کے تابناک ماضی کی گواہی دیتے ہیں۔