کانگریس کےدیگر لیڈروں کو بھی راہل کی طرح مہنگائی، بے روزگاری اور تعلیم کےموضوع اور کسانوں کے مسائل پر دو ٹوک بات کرنے کی ضرورت ہے۔
EPAPER
Updated: March 03, 2024, 1:11 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
کانگریس کےدیگر لیڈروں کو بھی راہل کی طرح مہنگائی، بے روزگاری اور تعلیم کےموضوع اور کسانوں کے مسائل پر دو ٹوک بات کرنے کی ضرورت ہے۔
ملککی ہر سیاسی پارٹی لوک سبھا انتخابات کی تیاریوں میں جٹ گئی ہے۔ بی جے پی، این ڈی اے اتحاد کی شکل میں تیسری مرتبہ حکومت بنانے کی کوشش کرے گی تو وہیں دوسری جانب کانگریس، انڈیا اتحاد کے بینر تلے زعفرانی اتحاد کی کوششوں کو ناکام بنانے میں اپنا پورا دم خم لگائے گی۔ الیکشن سے قبل ملک میں جس طرح فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کو دائیں بازو کے سیاست دانوں کے ذریعہ فروغ دیا جارہا ہے، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ این ڈی اے اتحاد اگلا الیکشن بھی مذہب کے سہارے جیتنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ دوسری طرف راہل گاندھی پورے زور وشور سے باہمی اتحاد اور سیکولر طرز حیات کی وکالت کرتے ہوئے ملک میں سماجی سطح پر ایسا ماحول تعمیر کرنا چاہتے ہیں جو تعصب، نفرت اور تشدد سے پاک ہو۔ ملک کے طول و عرض پر اس امن و اتحاد کے پیغام کو عام کرنے کیلئے انھوں نےـــ ’بھارت جوڑو یاترا‘ اور اب ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ کا اہتمام کیا۔ ان دو یاتراؤں میں شامل جم غفیر کو دیکھ کر پہلی نظر میں یہی لگتا ہے کہ راہل کیلئے انتخابی ڈگر کچھ خاص مشکل نہیں لیکن بھارٹ جوڑو یاترا کے بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام کے ہجوم کو ووٹ میں تبدیل کرنے کیلئے جو دوسرے ضروری اقدامات ہیں ان پر کانگریس کی توجہ ذرا کم ہے۔ راہل گاندھی اکیلے دم پر ان دیگر معاملات و مسائل کو نہیں حل کر سکتے۔ تنظیمی سطح پر کانگریس کی اس صورتحال کا فائدہ بی جے پی سمیت ان دیگر پارٹیوں کو ملتا ہے جو کانگریس کو اقتدار سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔ ایسے میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ راہل نے گزشتہ دو ڈھائی برسوں کے دوران جو محنت کی ہے کیا اس کا خاطر خواہ ثمرہ انھیں الیکشن میں حاصل ہوگا؟
اس سوال کو عوام اور پارٹی ہر دو سیاق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر پارٹی کے عوامی رابطے پر غور کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ راہل نے اپنے دم پر پارٹی کو دوبارہ اس سطح پر لانے کی بھرپور کوشش کی ہے جہاں عوام سے اس کی وابستگی کو استحکام اور پختگی حاصل ہو۔ راہل کی اس کوشش میں پارٹی صدر کھرگے کی بھی فعال شراکت ہے لیکن دیگر قد آور لیڈروں کی جانب سے ایسی کوشش خال خال ہی نظر آتی ہے۔ پارٹی کے بڑے لیڈروں کو متواتر یہ کوشش کرنا چاہئے کہ وہ عوام سے اپنے رابطے کو مستحکم بنانے کی حکمت عملی اختیار کریں۔ مذہبی سیاست کے بڑھتے رجحان نے ملک کے سیاسی منظرنامے کو اس قدر پیچیدہ بنا دیا ہے کہ اب کانگریس اور دیگر سیکولر سیاسی پارٹیوں کو اپنے عوامی رابطہ کو مستحکم بنانے کیلئے خاصی محنت کرنی ہوگی۔ اس ضمن میں صرف سیاسی بیان بازی یا ٹویٹر والی سیاست سے بات نہیں بنے گی۔ اگر اس ہدف کو سر کرنا ہے تو اس کیلئے عملی طور پر میدان میں اترنا ہوگا اور عوام کے ان مسائل کو باربار نمایاں کرنا ہوگا جو براہ راست ان کے معیار زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ راہل اپنی یاتراؤں میں جس طرح مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ہونے والی بدعنوانیوں اور کسانوں و مزدوروں کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے رہے ہیں، پارٹی کے دیگر لیڈروں کو بھی ان موضوعات پر متواتر بولنے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کے چند ایک لیڈروں کو چھوڑ کر دیگر نے اب بھی مذہبی سیاست کے مد مقابل دفاعی رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس وقت مذہبی سیاست کا مقابلہ کرنا ایک بڑا چیلنج ہے لیکن اگر اس چیلنج کا مقابلہ حریف کے طرز عمل کی پیروی کرتے ہوئے کیا جائے گا تو اس میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ اس چیلنج میں سرخرو ہونے کیلئے منظم اور نتیجہ خیزحکمت عملی درکار ہے۔
راہل گاندھی نے شدت پسند مذہبی افکار اور ان افکار کو اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف جو محاذ کھڑا کیا ہے وہ تب تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا جب تک کہ راہل اور کانگریس پارٹی میں فکری اتحاد نہ قائم ہو۔ اکثر موقعوں پر دیکھا گیا ہے کہ راہل کے کسی منصوبے یا اقدام کی مخالفت اگر کھلے بندوں نہ سہی لیکن دبے لفظوں میں پارٹی کے کچھ لیڈروں نے ہی کی۔ اقتدار پرست میڈیا نے اس صورتحال کی تشہیر عوام میں اس طرح سے کی کہ انھیں یہ احساس ہو جائے کہ یہ پارٹی تنظیمی سطح پر بہت کمزور ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بین الاقوامی یوم مادری زبان اور ملک میں اُردو کی صورتحال
میڈیا نے عوام میں اس تاثر کو قائم کرنے کیلئے بی جے پی کو اس طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی کہ یہ پارٹی تنظیمی سطح پر بہت مضبوط ہے اور یہی وہ پارٹی ہے جواقتدار میں رہتے ہوئے عوام کے مسائل کا تدارک بہتر انداز میں کر سکتی ہے۔ میڈیا کی اس تشہیر کا موزوں جواب دینے میں بھی کانگریسی لیڈروں نے کوئی فعالیت اب تک نہیں دکھائی ہے۔
آئندہ پارلیمانی انتخابات کو عوام مرکوز بنانے کیلئے کانگریس اور انڈیا اتحاد میں شامل دیگر پارٹیوں کو مایوسی کی اس کیفیت سے باہر نکل کر کام کرنے کی ضرورت ہے جو کیفیت مذہبی سیاست کی حامل پارٹیوں کی پیدا کردہ ہے۔ رام مندر کے افتتاح کے بعد سے بی جے پی بڑے زور و شور کے ساتھ مذہبی موضوعات کو اٹھا رہی ہے۔ بنارس اور متھرا کے علاوہ وہ دیگر مقامات جہاں کوئی نہ کوئی مذہبی قضیہ ہے، اب تواتر کے ساتھ زعفرانی لیڈروں کے بیانات میں نمایاں جگہ پارہے ہیں۔ بھگوا لیڈروں کی اس حکمت عملی کو میڈیا کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔ ایسے میں اگر صرف ٹویٹر والی سیاست پر اکتفا کیا گیا تو اس سے راہل کی وہ محنت رائیگاں ہوسکتی ہے جو انھوں نے اپنی یاتراؤں میں کی ہے۔ راہل گاندھی جس انداز میں اقتدار کی ناکامیوں اور کوتاہیوں کو عوام کے درمیان پیش کر رہے ہیں، اسی طرح کانگریس کے دیگر لیڈروں کو بھی مسلسل کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پارٹی صدر اور ایک آدھ سینئر لیڈروں کو چھوڑ کر باقی کا رویہ سرد مہری کا شکار ہے۔ یہ صورتحال صرف کانگریس ہی کی نہیں ہے بلکہ انڈیا اتحاد میں شامل دیگر سیاسی پارٹیوں کا حال بھی تقریباً ایسا ہی ہے۔ ایسی مایوسی و سردمہری اور کسی منظم حکمت عملی کے بغیر انتخابی لڑائی جیتنا انتہائی مشکل کام ہوگا۔ اس مشکل مرحلے کو سر کرنے کیلئے کانگریس کے دیگر لیڈروں کو فکر و عمل ہر دو سطح پر راہل کی ہمنوائی کرنے کی ضرورت ہے۔
کانگریس کو انتخابی حکمت عملی بناتے وقت خصوصی طور پر شمالی ہند کی ان ریاستوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے۔ اس خطے میں پارٹی میں جو داخلی انتشار کی صورتحال ہے اس کو ختم کئے بغیر انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس مرحلے پر کانگریس کو دو سطحوں پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف اسے پارٹی کو منظم کرنا ہوگا اور دوسرے یہ کہ انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کے ساتھ پائیدار ہم آہنگی قائم کرنے پر زور دینا ہوگا۔ اس خطے میں چونکہ مذہبی سیاست کا بول بالا ہے لہٰذا عوام کی ذہن سازی کرنے کیلئے بھی بڑی محنت درکار ہے۔ کانگریس کے تمام لیڈروں اور انڈیا اتحاد میں شامل دیگر پارٹیوں کے لیڈروں کو آپسی اختلافات کو درکنار کر کے اس پہلو پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ راہل گاندھی نے جس طرح عوام کے بنیادی مسائل سے وابستہ زمینی حقائق کو اپنی سیاسی حکمت عملی میں مرکزی حیثیت دی ہے اسی طرح دیگر لیڈروں کو بھی ان موضوعات کو ترجیح دینا ہوگا جس سے عوام کو یہ باور ہو سکے کہ مذہبی سیاست سے ان کے معیار زندگی میں ایسی خوشگوار تبدیلی نہیں آ ئے گی جو ان کیلئے خوشحالی اور ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔
پارلیمانی انتخابات سے قبل اگر کانگریس کے دیگر لیڈروں نے راہل کے طرز سیاست کو عوام میں مقبول بنانے میں کوتاہی برتی تو ایک بار پھر ان عناصر کو حکومت سازی کا موقع مل سکتا ہے جن کی سیاسی دکان فرقہ واریت کی وجہ سے چل رہی ہے۔ پارلیمانی انتخابات کئی اعتبار سے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ اگر اس میں فرقہ ورانہ سیاست کو کامیابی ملتی ہے تو اس سے ملک کا سیکولر کردار معرض خطر میں پڑ سکتا ہے۔ اس ممکنہ تشویش ناک صورتحال سے ملک کو محفوظ رکھنے اور راہل کی اب تک کی محنت کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے کانگریس سمیت سبھی سیکولرلیڈروں کو اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ محنت اسی وقت رنگ لائے گی جبکہ سیکولر اقدار کی بقا کیلئے جد و جہد کرنے والے سبھی لیڈر اپنی سیاسی انا کے حصار سے باہر نکل کر عوام اور ملک کی فلاح و بہبود کیلئے دیانت دارانہ کوشش کریں۔