مہاراشٹر حکومت کے ذریعہ خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بنانےکی غرض سے نافذ کی گئی ’لاڈلی بہن اسکیم‘ کو بھی اسی زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔
EPAPER
Updated: September 04, 2024, 4:36 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
مہاراشٹر حکومت کے ذریعہ خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بنانےکی غرض سے نافذ کی گئی ’لاڈلی بہن اسکیم‘ کو بھی اسی زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔
انتخابی سیاست میں ہمیشہ سر فہرست رہنے کی خواہش اب سیاسی ہوس کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ہوس کا یہ مادہ ہر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹی میں سرایت کر چکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب بیشترسیاسی پارٹیاں ایسی فلاحی اسکیموں کا اعلان کرتی ہیں جن کا مقصد سماج کے کسی خاص طبقے کو فائدہ پہنچانا اور اس کے عوض میں ان کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کا یہ رویہ آئین کے ان ضابطوں کیخلاف ہے جس میں سماج کی مجموعی ترقی کو ملک کی ترقی کی کلید قرار دیا گیا ہے۔ ارباب اقتدار سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سماج کیلئے فلاحی اور ترقیاتی منصوبے بناتے وقت مجموعی ترقی کے اس تصور کوبروئے کار لانے کے عمل میں سیاسی مصلحت سے بالاتر ہو کر اقدام کریں گے۔ حالیہ برسوں میں عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ اقتدار کی جانب سے جو منصوبے یا پالیسیاں بنائی گئیں ان میں بیشتر انتخابی فائدے کو پیش نظر رکھا گیا۔ مختلف سطحوں پر عدم مساوات کا شکار ہندوستانیسماج میں انتخابی فائدے کی خاطراسکیموں کا نفاذ سماجی سطح پر ایسے نئے مسائل پیداکر سکتا ہے جن سے سماجی امتیاز کا دائرہ وسیع تر روپ اختیار کر لے۔
مہاراشٹر حکومت کے ذریعہ خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کی غرض سے نافذ کی گئی ’لاڈلی بہن اسکیم‘ بھی اسی طرز کی اسکیم ہے جس سے شندےسرکار آئندہ اسمبلی انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت ۲۱؍ سے ۶۵؍ برس کی ان خواتین کو ۱۵؍ سو روپے ماہانہ دئیے جائیں گے جن کی گھریلو آمدنی ڈھائی لاکھ سے زیادہ نہ ہو۔ بادی النظر میں یہ اسکیم خواتین کی معاشی فلاح کیلئے حکومت کی اس فکر مندی کو ظاہر کرتی ہے جس کا مقصد کم آمدنی والے خاندانوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ حکومت نے اس اسکیم کے ذریعہ ایک کروڑ خواتین کو فائدہ پہنچانے کا ہدف رکھا ہے جس پر سالانہ ۴۶؍ہزار کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ اس اسکیم کے سلسلے میں ارباب اقتدار کی جانب سے جو بیانات مختلف وقتوں میں جاری کئے گئے، ان سے یہ واضح ہو گیا کہ ریاست کی خواتین کو فائدہ پہنچانے سے زیادہ انھیں اپنے سیاسی فائدے کی فکر ہے۔
یہ بھی پڑھئے:’اگنی ویر‘ سے وابستہ اندیشے سچ ثابت ہونے لگے!
اس اسکیم کا اجرا کرتے وقت وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کے ذریعہ اسمبلی الیکشن میں فائدہ حاصل کرنا ان کا مقصد نہیں ہے لیکن پھر جلد ہی ان کے سر بدل گئے۔ انھوں نے اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگران کی ریاست گیر بہنوں نے دوبارہ انھیں وزیر اعلیٰ کی کرسی پر پہنچایا تو وہ مزید ایسی فلاحی اسکیموں کے ذریعہ جذبۂ اخوت کو محکم اور پائیدار بنائیں گے۔ وزیر اعلیٰ کو جب یہ لگا کہ یہ اسکیم ان کے ریاست گیربھائیوں کی دل شکنی کا سبب بن سکتی ہے تو انھوں نے ’لاڈلا بھائی‘ نامی اسکیم کا بھی اعلان کر دیا۔ اس اسکیم کے تحت وہ اپنے ریاست گیر بھائیوں کو مختلف زمروں میں ۶؍ سے ۱۰؍ ہزار روپے ماہانہ دیں گے۔ اس کے عوض ان کا بھائیوں سے بھی وہی مطالبہ ہے جوبہنوں سے ہے۔ شندے حکومت ان اسکیموں کے ذریعہ بہنوں اور بھائیوں کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن معمولی سیاسی سمجھ رکھنے والے بھی اس دعوے کی حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اس سیاسی آگہی کی توثیق نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار کا وہ بیان بھی کرتا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ اگر پارلیمانی الیکشن کی طرح کے نتائج اسمبلی الیکشن میں آئے تو اس اسکیم کو بند بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس طرز کی اسکیموں کے متعلق بنیادی سوال یہ ہے کہ ارباب اقتدار سرکاری خزانے کا ایسا سیاسی استعمال کیوں کرتے ہیں جس سے وہ اپنی انتخابی کامیابی کی راہ تو کسی حد تک ہموار کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن ایسی اسکیموں سے سماج کی مجموعی ترقی کا تصور متاثر ہوتا ہے۔ اور پھر یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ معاشی طور پر کمزور بہنوں اور بھائیوں کی فکر وزیر اعلیٰ کو کب ہوئی؟ الیکشن کمیشن کے ذریعہ مہاراشٹر کے اسمبلی الیکشن کو مؤخر کرنے کا اعلان اوروزیر اعلیٰ کی اس فکرمندی میں پوشیدہ اس سیاسی ربط کو سمجھناکچھ مشکل نہیں جس کا مقصد ایسی اسکیموں کے ذریعہ ووٹروں کا سیاسی استحصال کرنا ہے۔ ملک کی جمہوری سیاست کا یہ ایک افسوس ناک پہلو ہے کہ ارباب اقتدار سرکاری خزانے کو اپنی ملکیت اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کو اپنا بنیادی حق سمجھنے لگے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ ان کی حیثیت محض ایک امین کی ہے جس کا کا م یہ ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ ٹیکس دے کر سرکاری خرانے کی جھولی بھرنے والے عوام کا معیار زندگی بہتر ہو سکے۔ اس فرض کی تعمیل میں کسی قسم کے امتیاز کی گنجائش نہیں ہے لیکن ارباب اقتدار فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں کی خاکہ بندی میں اس کی کوئی پروا نہیں کرتے اور ان کی نظر صرف سیاسی مفادپر رہتی ہے۔
مہاراشٹر سرکار نےجس طرح کم آمدنی والی بہنوں اور بھائیوں کی معاشی مضبوطی کیلئے اقدام کئے ہیں اسی طرح سماج کے ان دیگر طبقات کیلئے بھی فکر مند ی ظاہر کرنا چاہئے جن کو نظر انداز کر کے سماج کی مجموعی ترقی کے تصور کو بروئے کا ر نہیں لایا جا سکتا۔ اس ریاست میں کسانوں کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مہاراشٹر کا شمار ملک کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں آج بھی کسان کو ایسے مسائل درپیش ہیں جن سے پریشان ہو کر بعض اوقات وہ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مہاراشٹر میں کسانوں کی خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ سال کے پہلے چھ مہینوں میں ۵؍ سو سے زیادہ کسانوں نے خود کشی کی ہے۔ اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کیلئے ریاستی حکومت نے اب تک کوئی ایسا ٹھوس اقدام نہیں کیا اور نہ ہی کسی اسکیم کا اعلان کیا جس سے یہ امید بندھتی ہو کہ کسانوں کی حالت زار اس کیلئے کوئی اہم مسئلہ ہے۔
اس ریاست کے عوام کی زندگی میں مانسون کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مانسون اگر معتدل رہے تو پھر سال بھر نہ صرف کاشت کاری بلکہ صنعت و حرفت کے علاوہ روزمرہ کی زندگی کا معمول بھی ڈھرے پر رہتا ہے اور اگر یہ غیر معتدل ہو تو عوام کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ریاست میں مانسون کی رفتار جس نوعیت کی رہی ہے اس سے راحت کے بجائے عوام کو زحمت زیادہ اٹھانی پڑی ہے۔ شندے حکومت نے اس پہلو پر بھی ایسی فکرمندی اب تک نہیں دکھائی جیسی بہنوں اور بھائیوں کو معاشی استحکام عطا کرنے میں دکھائی ہے۔ ریاست کی بات تو جانے دیجیے، جس شہر میں وہ تخت پر براجمان ہوتے ہیں وہ بھی جب برسات کی زد پر آتا ہے تو اس کی خستہ حال سڑکیں اورعالیشان عمارتوں کے سائے میں گھٹنوں گھنٹوں پانی میں چلتے عوام حکومت کے ان تمام ترقیاتی کاموں کی قلعی اتار دیتے ہیں جن کی بنا پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حکومت عوام کیلئے فکر مند ہے۔
اسی طرح ریاست کی اقلیتوں کو سماجی، معاشی اور تعلیمی سطح پر جو مسائل درپیش ہیں ان پر بھی حکومت کی نگاہ کم کم ہی پڑتی ہے۔ ملک گیر سطح پر جس طرح کی مذہب اساس سیاسی فضا تشکیل پا چکی ہے اس میں یہ توقع ہی خیال خام ہے کہ بی جے پی کی بیساکھی کے سہارے حکومت چلانے والے شندے اقلیتوں کے مسائل کی طرف سنجیدہ توجہ دیں گے لیکن اگرو ہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ لاڈلی بہن اور لاڈلا بھائی جیسی اسکیموں کا مقصد سماجی فلاح ہے تو پھر سماج میں شامل ہر فرد اور ہر طبقہ کوپیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ممبئی ہائی کورٹ نے اس اسکیم پر پابندی لگانے والی اپیل بھلے ہی مسترد کر دی ہو لیکن اس میں اسکیم کے ذریعہ سماجی امتیاز میں اضافے کا جو خدشہ ظاہر کیا گیا تھا اسے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ ۱۵؍ سو ماہانہ دے کر بہنوں کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے کا دعویٰ کرنے والے ریاست کے وزیر اعلیٰ بھائی کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اس کمر توڑ مہنگائی کے دور میں اس رقم سے ان کی بہنیں کیا ان ضرورتوں کو پورا کر پائیں گی جس کا دعویٰ وہ کرتے ہیں ؟
اس اسکیم کی سچائی کو سمجھنے کیلئے عدالت عظمیٰ کے فاضل جج جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشوناتھن کا یہ تبصرہ ہی کافی ہے جس میں مہاراشٹر حکومت سے کہا گیا تھا کہ’’ آپ کے پاس سرکاری خزانے سے مفت میں پیسے بانٹنے کیلئے ہزاروں کروڑ روپے ہیں مگر آپ کے پاس اس شخص کو دینے کیلئے پیسہ نہیں ہے جس کی زمین کو قانونی کارروائی کے بغیر چھین لیا جاتا ہے۔ ‘‘چھ دہائی قبل ایک خاندان کی زمین کو سرکاری تحویل میں لینے اور ا ب تک معاوضہ نہ دئیے جانے پر عدالت نے یہ تبصرہ کیا تھا اورحکومت کو متنبہ کیا کہ مفت کی ریوڑی بانٹنے والی اس اسکیم کو بند بھی کیا جا سکتا ہے۔